ذخیرہ اندوزوں کے لیے بہ طور خاص
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نفع کمانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت ہوتی ہے۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ والدرامی)
ہمارے معاشرہ میں ہر سطح پر یہ عجیب و غریب وباء پھیل چکی ہے کہ جہاں رمضان المبارک قریب آیا وہاں عام ضرورت کی اشیاء کی قلت پیدا کردی جاتی ہے اور پھر منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں، اس میں بنیادی طریقہ ذخیرہ اندوزی ہے، ہر وقت اور ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی اسلام میں ممنوع نہیں بل کہ اس کے لیے خاص لفظ ’’احتکار‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے یعنی ’’اشیائے ضرورت کا اس لیے ذخیرہ کرلینا تاکہ مصنوعی قلت پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کیے جائیں جسے عرف عام میں مہنگائی کہتے ہیں۔‘‘
بہ الفاظ دیگر مہنگائی کے خیال سے ذخیرہ اندوزی احتکار ہے۔
صاحب ہدایہ کتاب البیوع میں لکھتے ہیں:
’’احتکار (ذخیرہ اندوزی) سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص غلہ یا کوئی اور جنس بڑی مقدار میں اس لیے اکٹھی کرلے یا دوسرے سے خرید کر اس لیے جمع کرلے کہ بازار میں اس کی کمی واقع ہو اور مہنگائی ہوجائے اور تمام خریدار اور ضرورت مند اسی کی طرف رجوع کریں اور خریدار مجبور ہوکر ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو اس کی مقرر کردہ قیمت ادا کرے۔ ہاں! البتہ اگر اس چیز کی بازار میں کمی نہیں اور نہ اس کے جمع کرنے کی وجہ سے مصنوعی قلت پیدا ہو، اور اس کے جمع کرنے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا ہوتو یہ ذخیرہ اندوزی نہیں۔‘‘
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا: ’’ذخیر اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔‘‘
لعنت، رحمت کی ضد ہے جب معاشرے پر اﷲ کی رحمت کے بہ جائے لعنت نازل ہونے لگے تو پھر رحمت کے آثار غائب ہونے لگتے ہیں اور لعنت کے آثار نظر آتے ہیں۔ رحمت کے آثار یہ ہیں کہ اس رزق میں برکت ہو‘ ایسے رزق کمانے والے کو حقیقی سکون نصیب ہو اور پھر اس حلال روزی کمانے والے کے دل میں نیک کاموں کا، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا شوق پیدا ہو لیکن جب معاشرہ پر لعنت پڑنے لگے تو اس کے اثرات اس انداز میں نظر آتے ہیں کہ ہزاروں روپے کمائے جارہے ہیں لیکن زبان پر یہ الفاظ سننے میں آتے ہیں:
’’اتنا کماتے ہیں پتا نہیں کہاں جاتا ہے۔ ‘‘ اس کی وجہ برکت کا ہاتھ اٹھ جانا ہے، پھر حرام مال کمانے کے بعد سکون ختم ہوا، عبادات کا شوق ہی نہ رہا، نیک کاموں کی طرف دل مائل ہی نہیں ہوتا یہ تمام لعنت کے آثار ہیں۔ حضرت معمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ گناہ گار ہے۔‘‘ (رواہ مسلم)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جوشخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے کوڑھ کے مرض اور محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ)
ابن قدامہ المغنی کے باب الاحتکار میں روایت کرتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک دوکان دار کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس کام سے روکنا بھی واضح کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور کوڑھی بن گیا۔‘‘
علامہ شوکانی نیل الاوطار جلد دوم ص181میں لکھتے ہیں: ’’حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک ذخیرہ کرنے والے کا غلہ جلادیا۔‘‘ صاحب ہدایہ کتاب الکراہیہ میں لکھتے ہیں: ’’جب ذخیرہ اندوز کا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ ذخیرہ اندوز کو حکم دے کہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے کھانے پینے کا خرچہ علاحدہ کرکے جو کچھ بچے اسے بیچ دے اور قاضی اسے ذخیرہ اندوزی سے روک دے، اگر وہ تاجر دوبارہ اسی جرم میں ملوث ہوکر عدالت میں آئے تو قاضی اسے قید کردے تاکہ عام لوگوں کو نقصان پہنچنے کا ذریعہ ختم ہوجائے۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص چالیس دن ذخیرہ اندوزی کرے اور ذخیرہ اندوزی کا مقصد مہنگائی ہوتو وہ اﷲ تعالیٰ سے بَری ہے اور اﷲ تعالیٰ اس سے بَری ہے۔‘‘(رواہ رزین)
حضرت ابواُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص چالیس دن تک غلہ مہنگائی کے خیال سے ذخیرہ کرے پھر (غلطی کا احساس ہونے پر) وہ تمام غلہ صدقہ کردے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا۔‘‘ (رواہ رزین)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ ذخیرہ اندوز انسان بُرا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ بھاؤ سستا کردے تو غمگین ہوجاتا ہے اور جب مہنگا کردے تو خوش ہوجاتا ہے۔‘‘ (رواہ البیہقی)
ان تمام ارشادات نبویہ ﷺ اور تعلیمات اسلامی کے پیش نظر یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کتنا گھناؤنا فعل ہے۔ اور پھر اتنا گھٹیا اور بُرا کام اور وہ بھی رمضان المبارک کے بابرکت دنوں میں، ان مبارک لمحوں کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اس کے اندر ثواب کمائے، روزہ داروں کے روزے کھلوائے، غریبوں کی مدد کرے، روزہ داروں کے لیے سہولت پیدا کرے اور اپنے گناہوں کو دھلوائے، اپنی مغفرت کا سامان کرے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبرئیل کی اس بدعا پر آمین بھی فرمائی: ’’برباد ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔‘‘
ذخیرہ اندوزی کرنے والے ایسے ملعون تاجر ہیں جو صرف اپنے مسلمان بھائیوں ہی کا نہیں بل کہ اﷲ تعالیٰ کے مقرب روزہ داروں کا خون چوستے ہیں اور ایسے تاجروں کو ارشادات نبویہ ﷺ یاد رہنے چاہییں۔ ان کے اموال میں برکت نہ رہے گی، اﷲ تعالیٰ انہیں محتاجی اور کوڑھ میں مبتلا کردیں گے، یہ حرام مال کھائیں گے توارشاد نبوی ﷺ کے مطابق ان کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رضی اﷲ تعالی کرنے والے کے آثار اور پھر ہے اور
پڑھیں:
نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
گورنر سندھ کے ترجمان کے مطابق کامران ٹیسوری کی جانب سے عقیدت مندوں میں لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔ گورنر سندھ نے وہاں پر وطنِ عزیز کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں بھی کیں۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے عراق کے شہر نجف اشرف میں حضرت علی علیہ السلام کے روضے پر گھر پر حاضری دی۔ گورنر سندھ کے ترجمان کے مطابق کامران ٹیسوری کی جانب سے عقیدت مندوں میں لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔ گورنر سندھ نے وہاں پر وطنِ عزیز کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں بھی کیں۔ کامران ٹیسوری نے نجف اشرف میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علیؑ‘‘ کی زیارت بھی کی۔