11مارچ2025 کا المناک واقعہ!
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
دہشت گردی کے خونی اور خونریز واقعات و سانحات نے پاکستانیوں کی زندگیاں اجیرن اور غیر محفوظ بنا رکھی ہیں ۔ ہماری سیکورٹی فورسز کے جوان اور افسران دہشت گردی کا ٹیٹوا دبانے اور دہشت گردوں کے سر کچلنے کے لیے دن رات قربانیاں دے رہے ہیں ۔ کئی کامیابیاں بھی مل رہی ہیں۔
بد قسمتی سے مگر دہشت گردی کا طوفان رکنے اور تھمنے کی بجائے مسلسل آگے بڑھ اور پھیل رہا ہے ۔ قوی اندیشے اور خدشے ہیں کہ دو ممالک ( بھارت اور افغانستان) پاکستان کے خلاف دہشت گردی ، دہشت گردوں اور خوارج کو اعانت ، استعانت اور بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ مُلّا طالبان کا افغانستان، بدقسمتی سے، پاکستان کے خلاف ایک کوڑھ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ اِن سب عوامل نے رَل مل کر عالمی ادارے (Global Terrorism Index2025) کو حال ہی میں یہ کہنے ، لکھنے اور انکشاف کرنے پر مجبور کیا ہے کہ پاکستان دُنیا کے اُن ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ اور ہلاکت خیز دہشت گردی ہو رہی ہے ۔ مشاہدات و حوادث اِس عالمی رپورٹ کی تردید بھی نہیں کررہے ۔
11مارچ2025کو تو حد ہی ہو گئی ۔ پاکستان میں پشاور کاAPSکا نہائت خونریز سانحہ بھی ہو چکا ہے ، جسے خونی دہشت گرد ٹی ٹی پی کے وابستگان نے انجام دیا۔ ہم سب پاکستانی مگر یہ کمر شکن واقعہ بھی برداشت کر گئے ۔ لیکن اب11مارچ کی دوپہر جس سانحہ نے جنم لیا ہے ، اِس نے تو گویا ملک دشمنی اور دہشت گردی کی ساری سرحدیں ہی عبور کر لی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ، پاکستانی عوام اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے صبر کا پیمانہ چھلک اُٹھا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا ۔
11مارچ کو بلوچستان کے دشوار گزار پہاڑی علاقے(بولان،مچھ) میں کوئٹہ سے پشاور آنے والی ٹرین( جعفر ایکسپریس) کو دہشت گردوں نے مبینہ طور پر440مسافروں سمیت اغوا اور یرغمال بنا لیا ۔اِس واقعہ اور سانحہ کی بنیاد پر پوری پاکستانی قوم ، حکومت اور سیکورٹی ادارے دو روز تک (11تا12مارچ) مسلسل جانگسل آزمائش کی سُولی پر لٹکے رہے ۔
دو روز تک ہی بی بی سی اور سی این این وغیرہ ایسے عالمی خبر رساں اداروں میں جعفر ایکسپریس کے یرغمال بنائے جانے کی خبر بازگشت بن کر سنائی دیتی رہی ۔ بھارتی میڈیا نے ، حسب ِ عادت ، پاکستان کے خلاف کذب گوئی اور جعلسازی کے لاتعداد طوفان برپا کیے رکھے ۔ یہاں تک جھوٹ بول دیا کہ ’’جعفر ایکسپریس‘‘ میںپاک فوج کے100 جوان سوار ہیں اور سب کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ایسے میں جھوٹے ہمسائے، بھارت، سے بھلا کیسے اور کیونکر مناسب ، سفارتی اور معمول کے تعلقات اُستوار کیے جا سکتے ہیں؟
اب یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ ’’جعفر ایکسپریس‘‘ کا سانحہ BLA( بلوچستان لبریشن آرمی) ایسی عالمی دہشت گرد تنظیم کے بدمعاشوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہُوا ہے ۔ ہر محبِ وطن پاکستانی اِس دہشت گرد گروہ پر لعنتیں بھیج رہا ہے ۔ لگتا تھا کہ اغوا کار اور مسافروں کے یرغمال کنندگان اپنے مذموم اور ملعون عزائم میںکامیاب ہو جائیں گے ، مگر ہمارے سیکورٹی اداروں کے جوانوں اور افسروں نے واقعی معنوں میں اپنی جانوں پر کھیل کر بدمعاشوں اور ملک دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے ۔
الحمد للہ ۔ہر پاکستانی کا دل اور آنکھ اِسی سانحہ کے نتائج و عواقب پر ٹکا ہُوا تھا ؛ چنانچہ ایسے پُر آزما لمحات میں DGISPRقوم کے سامنے آئے اور سب کو حقائق اور حملہ آور دہشت گردوں کے خلاف جملہ آپریشن بارے آگاہ کیا ۔ اُن کے مطابق:اِس سانحہ میں مجموعی طور پر 58افراد کام آئے ہیں: 33حملہ آور دہشت گرد جہنم واصل کیے گئے ، 21بدقسمت مسافر اور4سیکورٹی جوان شہید ہُوئے ہیں ۔ بقول ڈی جی آئی ایس پی آر، جعفر ایکسپریس پردہشت گردحملہ آوروں کے خلاف بروئے کار آنے والے ملٹری آپریشن سے قبل ہی جہنمی و ملعون دہشت گرد21مسافروں اور(ایف سی) کے تین سیکورٹی جوانوں کو شہید کر چکے تھے۔ آپریشن کے دوران صرف ایک جوان شہید ہُوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب شہدا کی شہادتوں کو قبول و منظور کرتے ہُوئے اُن کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین۔
جعفر ایکسپریس کا سانحہ پاکستانی تاریخ کا سب سے پہلا، منفرد اور المناک ترین واقعہ و سانحہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جتنا بڑا سانحہ تھا، اتنا ہی بڑا آپریشن اِس کے خلاف بروئے کار آیا ہے ۔ دو دن مسلسل عالمی خبر رساں اداروںمیں بلوچستان کے مذکورہ دہشت گردوں اور اُن کی تنظیم کا نام گونجتا رہا ۔ اب یہ خونی اور خونریز جسارت کرنے والوں اور اُن کے ماسٹر مائنڈز کا پوری طاقت سے تعاقب کرکے قلع قمع کرنا از بس ضروری ہو چکا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے ایک بار پھر ملک اور عوام کے سامنے سرخرو ہُوئے ہیں۔ دہشت گردوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے ۔
یہ بات تو سامنے لائی گئی ہے کہ 33حملہ آور دہشت گردوں ( بی ایل اے کے وابستگان)کو جہنم واصل کردیا گیا ہے مگر یہ نہیں بتایا جارہا کہ حملہ آوروں کی کُل تعداد کتنی تھی ؟ کچھ بچ نکلنے میں کامیاب بھی رہے یا سبھی کو مارڈالا گیا ؟ کچھ عالمی ادارے حملہ آوروں کی تعداد80بتا رہے ہیں۔اب یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ بلوچستان میں بروئے کار ہر قسم کی دہشت گرد تنظیموں بارے قوم کے ہر فرد کو آگاہ کیا جائے ۔اب اِن بدمعاشوں اور اِن کے سرپرستوں بارے دستیاب معلومات کو قالین کے نیچے دھکیل کر وقتی طور پر آنکھیں بند کرنے کا وقت گزر چکا ہے ۔ اب اِس عفریت کو اُس کے سینگوں سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دینے کے لمحات آ پہنچے ہیں۔
11تا12مارچ2025 جنم لینے والے جعفر ایکسپریس سانحہ نے بہت کچھ بے نقاب بھی کر ڈالا ہے ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک بیٹھے کچھ شر پسند اور ملک دشمن عناصر نے اپنے ٹویٹس اور ویلاگز کے ذریعے اپنے خبثِ باطن کا مسلسل اظہار کیا ہے ۔ ہمیں اِن سب کے چہرے پہچاننا ہوں گے ۔ ہمارے سیکورٹی اداروں کو بھی اِن کے چہرے ، حقائق کے ساتھ، قوم کے سامنے پیش کرنے چاہئیں ۔ وزیر اطلاعات ، عطا تارڑ، نے بجا کہا ہے کہ ’’ سانحہ جعفر ایکسپریس کے پس منظر میں کا لعدم ٹی ٹی پی، پی ٹی آئی کے کچھ لوگ اور بھارتی میڈیا ایک ہی زبان بولتے نظر آئے ۔
افسوس ۔کئی ممالک نے بیک زبان 11مارچ کے سانحہ کی سخت مذمت کی ہے ، لیکن کچھ استفسارات نے بھی ساتھ ہی سر اُٹھایا ہے ۔ مثال کے طور پر: (1) وزیر ریلوے ، حنیف عباسی ، سارے منظر سے تقریباً غائب ہی رہے۔ کیوں؟ (2)سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، اختر مینگل ، نے اِس سانحہ کے حوالے سے ایک غیر مناسب ٹویٹ کیوں کی ؟ یہ نوبت کیوں آئی ؟(3)وزارتِ داخلہ میں اب تو تین وزیر بروئے کار ہیں ۔ اِن تینوں نے اِس سانحہ بارے قوم کو کتنا آگاہ کیا؟ کتنی ڈھارس بندھائی؟ (4)قومی اسمبلی میں اپوزیشن قوم و ملک کو درکار کردار ادا کرنے میں کہاں تک سرخرو ٹھہری؟
جعفر ایکسپریس سانحہ کی مذمت کرنے کے حوالے سے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں، وزیر اعظم و صدرِ پاکستان کے ساتھ ساتھ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے جس یکجہتی اور ہم نوائی کا مظاہرہ کیا ہے، قابلِ ستائش ہے ۔ اگر اِن آوازوں میں پی ٹی آئی ، بانی پی ٹی آئی اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی آوازیں بھی نمایاں طور پر شامل ہو جاتیں تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ، سرفراز بگٹی، نے اِس سانحہ کے موقع پر بلوچستان اسمبلی میں جو درد مندانہ خطاب کیا ہے ، اِس کی تحسین نہ کرنا بے انصافی ہوگی ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس پاکستان کے بروئے کار کے خلاف اور ا ن کیا ہے چکا ہے
پڑھیں:
بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
گوادر پورٹ پاکستان کے لیے تجارتی ترقی کا دروازہ ہے۔ خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بندرگاہ پاکستان کو نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس بندرگاہ کے ذریعے چین، وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک تک بآسانی رسائی میسر آئے گی، جس سے پاکستان کو سالانہ لاکھوں ڈالرکا تجارتی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر بندرگاہ نہ صرف پاکستان کو اقتصادی استحکام دے رہی ہے بلکہ یہ بلوچستان کی معاشی خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔
ویژن بلوچستان 2030 پروگرام کے تحت کمیونی کیشن انفرا اسٹرکچر، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی قلت کو دورکرنے اور فشریزکے مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ خوشحال بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں حکومتی اور عسکری کاوشوں کا کلیدی کردار ہے۔
اس طرح کے بے شمار منصوبے بلوچستان کی تقدیر بدلنے کے لیے سرگرم ہیں، جس میں ریکوڈک کا منصوبہ بھی سرفہرست ہے، اس منصوبے کے زیر اہتمام طبی سہولیات سے آراستہ انڈس اسپتال نوکنڈی کا افتتاح گزشتہ برس 25جون 2024 کو کیا جاچکا ہے۔
یہ اسپتال ضلع چاغی اور نوکنڈی جیسے پسماندہ علاقوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، اس کے علاوہ ریکوڈک مائننگ کے تحت نوکنڈی میں قائم ہنر ٹیکنیکل انسٹیوٹ، جس میں 350 کے قریب خواتین و مرد حضرات ہنر سیکھ رہے ہیں جب کہ اس منصوبے کے تحت پانچ پرائمری اسکول، ہمائی کلی، مشکی چاہ، موکچہ، دربن چاہ اور تنگ کھچاؤ کے علاقوں میں قائم کیے جاچکے ہیں جن میں اس وقت 357 طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
اس کے علاوہ چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ سینڈک کاپر،گولڈ مائن پراجیکٹ کے تحت سینڈک اسپتال، اسکولوں کا قیام بلوچستان کے روشن مستقبل کا اہم باب ہیں۔ سی پیک، سینڈک اور ریکوڈک منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے۔ نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں، متعدد یونیوسٹیوں اور میڈیکل کالجزکا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔
بلوچستان کی ترقی سے کالعدم تنظیمیں خائف ہیں، یہ تنظیمیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے خطرے کا سبب بنی ہوئی ہیں، جن سے نجات کے لیے سیکیورٹی فورسز مسلسل متحرک ہیں۔گزشتہ ماہ جعفر ایکسپریس پرکالعدم تنظیم کے حملے کے واقعے نے پوری قوم کو خوف میں مبتلا کر کے رکھا، دہشت گردوں نے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنایا اور 20 سے زائد مسافروں کی جان لی۔
بعد ازاں پاک فوج کے آپریشن نے عسکریت پسندوں کا سارا زور پسپا کیا اور 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا، بعد ازاں مسافروں کو بازیاب کرایا، خیال رہے، اس ٹرین میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، بلوچستان میں پنجابی بولنے والوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی بہت فخر سے لیتی ہے۔
بلوچ قوم کی داد رسی کی باتیں بلوچستان کی بہت سی قوم پرست تنظیمیں کرتی ہیں، جس میں ایک نام بلوچ یکجہتی کونسل کا ہے، اس تنظیم کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ لیڈ کرتی ہیں، جو کہ غفار لانگو کی بیٹی ہیں، غفار لانگو واپڈا کا ملازم تھا،جس نے بی ایل اے جوائن کر لی تھی، جس کی وجہ سے وہ ایک آپریشن میں مارا گیا تھا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی مکمل تعلیم حکومتی وظیفے پر ہوئی، وہ سرکاری ملازم ہیں، ان کی بہن بھی سرکاری وظیفے پر صوبہ پنجاب میں زیر تعلیم ہیں، پھر بھی یہ لوگ ریاست کے مخالف ہیں، جس سے ان کی منافقت واضح ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج کل جیل میں ہیں کیونکہ انھوں نے جعفر ایکسپریس حملے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کو مردہ خانے سے زبردستی اپنی تحویل میں لیا، جس پر مذمت کی گئی اور کوئٹہ کے حالات خراب ہوئے، جس کے سبب ماہ رنگ کی گرفتاری عمل میں آئی، یہاں سوال ہے کہ آخر ماہ رنگ کو کیوں ان دہشت گردوں کی لاشوں کی اس قدر ضرورت تھی کہ وہ اسے لینے کے لیے اتنی بے تاب تھیں۔
بلوچستان کے بدترین حالات میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا بھی بڑا اہم کردار ہے،گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں خضدار سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم انھوں نے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی کی اپنی اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ اپنی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے واحد منتخب رُکن قومی اسمبلی تھے۔
اختر مینگل ایم پی اے، ایم این اے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان رہ چکے ہیں، وہ کوئلے کی کانوں کے مالک ہیں، ہمیشہ اقتدار سے وابستہ رہے ہیں، ان کی بے شمار جائیدادیں ہیں، وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے بلوچ قوم کے نام پر دھرنے دے رہے ہیں، آج سے قبل جب وہ خوب اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے جائیدادیں بنا رہے تھے تو انھیں ایک بار بھی بلوچستان کی تقدیر اور بلوچ قوم کی قسمت کے بارے میں ایک بار بھی خیال نہیں آیا، کچھ لوگ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے آلہ کار معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستانی کالعدم جماعت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، بی ایل اے کے نسلی تشدد کے خلاف صوبہ سندھ میں مختلف مقامات پر احتجاج ہوا۔ عوام کا دعویٰ ہے کہ بی ایل اے ہندوستان کی ہدایت پرکام کررہی ہے،کالعدم تنظیم نسلی بنیادوں پر بے گناہ پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور قتل کر رہی ہے۔ عوام نے دہشت گردوں کو پھانسی سمیت سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگ بلوچ طلبا اور شہریوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں، جب کہ پنجابیوں اور پشتونوں کو قتل کر کے نفرت پھیلانے پر بی ایل اے کی مذمت کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے خلاف احتجاج میں عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے بلوچ بھائیوں کی حمایت کا بھی اظہارکیا اور پاکستان کی مسلح افواج کے حق میں نعرے لگائے۔
پاکستان کے باشعور عوام کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کا احتجاجی مارچ ایک ڈھونگ ہے، جو ان کے اصل مقصد کو چھپا رہا ہے، دراصل یہ عناصر بلوچستان کی ترقی کو سبوتاژکرنا چاہتے ہیں تاکہ بلوچ قوم بنیادی سہولیات سے محروم رہے۔
ریاست مخالف عناصر نے پاکستان کے استحکام کو کافی بار متزلزل کرنے کی کوشش کی اور اللہ کے کرم سے ہر بار ناکام رہے، سیکیورٹی فورسز نے فیصلہ کن کارروائی سے ان کے ناپاک منصوبوں کوکچلا، بات واضح ہے کہ ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والوں کو قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے کسی کو استثنا نہیں ملے گا۔