Express News:
2025-04-22@20:32:38 GMT

ہینڈلر اور ماسٹرز مائنڈ، اصل دشمن

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

سکیورٹی فورسز نے جعفر ایکسپریس حملے کے بعد یرغمال بنائے گئے مسافروں کو بازیاب کروا لیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل کرتے ہوئے وہاں موجود تمام 33 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ آپریشن سے پہلے 21 مسافر اور ایف سی کے 4 اہلکار شہید ہوئے۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر یہ حملہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔

 ہماری سکیورٹی فورسز نے انتہائی سرعت، مستعدی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرین کے یرغمالی مسافروں کو آزاد کروایا اور ساتھ ہی تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جو لائق تحسین ہے۔

درحقیقت بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ دہشت گردی کے مرتکب درندہ صفت عناصر بے رحمانہ سزاؤں کے مستحق ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے غیر ملکی اداروں کا ہاتھ ہے، جو صوبے میں عدم استحکام پیدا کر کے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد کچھ بھی نہیں ہیں، ان کے پیچھے جو ہینڈلر اور ماسٹرز مائنڈ بیٹھے ہوئے ہیں، اصل دشمن وہی ہیں جن کے ایماء پر سب کچھ ہو رہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد عناصر نے اپنی خفیہ کمین گاہیں بنا رکھی ہیں، بھرپور فوجی آپریشن سے ان کو کچلنا ہوگا۔

 ٹرین جعفر ایکسپریس کے حوالے سے انڈین چینلز پر فیک ویڈیوزکی بھرمار تھی، نیوز ویب پورٹلز سنسنی پھیلانے میں پیش پیش تھے، وہ سوشل میڈیا پر مسلسل ہنگامہ برپا کیے ہوئے تھے۔ سیاسی رد عمل ہو یا معاشرتی، سوشل میڈیائی پاگل پن ہو ، سیکیورٹی ڈومین ہو یا بین الاقوامی ایجنڈا، رد عمل بحیثیت مجموعی زہریلا تھا۔ دراصل دہشت گرد کے اہم ترین مقاصد میں قیمتی جانوں کا ضیاع یا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا تو ہوتا ہی ہے، لیکن وہ اور اس کے ہینڈلر ایسی وارداتوں کے ذریعے درحقیقت کوریج اور ہائپ مانگ رہے ہوتے ہیں۔

دہشت گردی کے کسی ایونٹ کی 24 گھنٹے کوریج اور براہ راست ہولناک اور خون آلود مناظر سے دہشت گرد کی اصل تسکین کا سامان پیدا ہوتا ہے اور نتیجے میں معاشرہ بھی غیریقینی کی سی صورتحال اور گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری دہشت گردوں کے خلاف قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی بھی سرگرم نظر آتا ہے۔ بلوچستان میں تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک بیرونی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس مجید بریگیڈ جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ٹی ٹی پی کے تعاون کے ثبوت موجود ہیں جو چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعاون، بشمول چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف دہشت گردی کا استعمال کر رہے ہیں۔

 پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کے افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی علاقوں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کا تشویش میں مبتلا ہونا قدرتی امر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کی مد میں تقریبا 31 ارب ڈالر اور قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے ۔ دہشت گردی ایک کھلی حقیقت ہے مگر کچھ ممالک اسے غلط رنگ دے رہے ہیں جیسا کہ بھارت۔

 دہشت گردی سے مراد لوگوں کے اذہان میں خوف اور دہشت کا احساس سرایت کرنے کے لیے ہولناک، تباہ کن اور مہلک ہتھکنڈوں کا استعمال کرنا ہے جن میں بے رحمانہ قتل و غارت اندھا دھند فائرنگ، اغواء، بینک لوٹنا، ریل گاڑیوں پر شب خون مارنا اور طیاروں کی ہائی جیکنگ شامل ہے،کیونکہ اس طرح دہشت گرد عوام اور خصوصاً حکومت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

دہشت گردی باقاعدہ ایک نیٹ ورک سے پھیلتی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر جو ہو رہا ہے یہ ڈیجیٹل دہشت گردی ہے۔ ڈیجیٹل دہشت گردوں کا پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس ملک سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ ملک میں بدامنی اور خوف پھیلا کر وطن عزیز کو معاشی عدم استحکام سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی اور اقتصادی ترقی کے لیے بھی دہشت گردی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ سیاسی و عسکری قوتوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکساں انداز میں آگے بڑھنا ہو گا۔

 حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو پاکستان نے افغانستان پرکبھی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کے علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ چالیس برس گزرجانے کے باوجود لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دے رکھی ہے۔ پاکستان نے بارہا افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر پاکستان میں حملوں کے ثبوت پیش کیے ہیں۔

 القاعدہ کے ساتھ طویل وابستگی کے پیش نظر، ٹی ٹی پی علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ القاعدہ کے بازو کے طور پر ابھر سکتی ہے۔

افغانستان کے چیلنجز بشمول دہشت گردی، انسانی حقوق اور وسیع پیمانے پر غربت بھی خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔ افغان حکام کی سیاسی فیصلہ سازی تیزی سے ابہام کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک کے استحکام کو خطرات لاحق ہیں ، جب کہ پاکستان دہشت گردی کے موجودہ چیلنج سے نمٹنے میں افغانستان کی موجودہ عبوری (طالبان) حکومت سے مخلصانہ تعاون کی توقع رکھتا ہے اور امید ہے کہ اس سلسلے میں کابل انتظامیہ نے بین الاقوامی برادری سے جو وعدے کیے ہیں، وہ ان پر پورا اترے گی۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی پر افغانستان کے تعاون کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد ایسی ہے کہ اس کے آر پار آمد و رفت کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔

پاکستان نے اس کو روکنے کے لیے 500 ملین ڈالر لاگت سے باڑ لگائی ہے ۔ وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں جس حقیقت کی طرف افغان طالبان کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے، وہ ان کے وعدے ہیں جو انھوں نے دو سال قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکیوں کے ساتھ غیرملکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے کیے تھے۔

اس معاہدے میں شامل ایک شرط کے تحت افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کو کسی ہمسایہ یا کسی اور ملک کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور امریکا کو بھی شکایت ہے کہ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد افغان طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے اور ایک ایسے ہوٹل جہاں چینی ورکرز اور انجینئرز کا اکثر آنا جانا رہتا تھا، پر دہشت گردوں کے حملوں کو اس ضمن میں بطورِ ثبوت پیش کیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان کا اصرار ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان افغان سرزمین سے آپریٹ نہیں کر رہی بلکہ اس کی کارروائیاں پاکستانی علاقوں سے کی جا رہی ہیں۔

طالبان جنگجوؤں نے قبائلی علاقوں میں داخل ہوتے ہی خوف و ہراس، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی کارروائیاں شروع کردیں جن کے خلاف سوات، باجوڑ، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مقامی سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی کے اراکین، تاجروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت سے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے پہلے تو دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو پلے ڈاؤن کرنے کی کوشش کی اور پھر ان کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈال دی۔

وزیراعظم شہباز شریف ایک طرف تو ملک میں اس مسئلے پر متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور دوسری طرف افغانستان کی عبوری حکومت کے تعاون کو اس مسئلے کے تسلی بخش اور دیرپا حل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالات میں کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے یہ ایک دانش مندانہ پالیسی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ صرف عسکری سطح پر نہیں لڑی جا سکتی، اس میں ہمیں بیانیہ کی جنگ بھی کرنا پڑے گی اور پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی افغانستان کے افغان طالبان دہشت گردی کے پاکستان کے استعمال کر پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ کرنے کے کے خلاف رہے ہیں ہے اور کے لیے

پڑھیں:

مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی

اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
 
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
 
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
 
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
 
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
 
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • انسداد دہشت گردی کےلیے ترکیہ کے تعاون کے مشکور ہیں، شہباز شریف
  • اسرائیلی مائنڈ سیٹ،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا