اسلام آباد:پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تقریباً 450 مسافروں پر مشتمل ایک مسافر ٹرین صوبے کے ضلع سبی سے گزرتے ہوئے دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بنی۔ “بلوچ لبریشن آرمی” نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی، جس کے بعد پاکستانی فوج اور پولیس نے یرغمال بنائے گئے مسافروں کو بچانے کے لیے کارروائی شروع کی۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اپنی معمول کی پریس کانفرنس میں کہا کہ “چین ہر قسم کی دہشت گردی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو آگے بڑھانے، معاشرتی اتحاد اور استحکام کو برقرار رکھنے اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے عزم کا مضبوطی سے ساتھ دیتا ہے۔ چین پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے تاکہ علاقائی امن اور استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔”دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر ، پاکستانی حکومت نے انسداد دہشت گردی اقدامات کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل مختص کیے ہیں، جن میں فوج کی تعیناتی، سرحدی کنٹرول کو مضبوط بنانا، اور معلومات جمع کرنا شامل ہیں۔ پاکستانی عوام اور معاشرے نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بھاری قیمت ادا کی ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تاہم، دہشت گردی کی سرگرمیوں کے پیچھے مختلف پیچیدہ عوامل کی وجہ سے پاکستان کو انسداد دہشت گردی اقدامات میں اب بھی انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی مارچ کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں چینی کمپنی کے زیر تعمیر داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی گاڑیوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، جس میں 5 چینی اور 1 پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ اس دہشت گردانہ حملے کی چین اور پاکستان کی حکومتوں اور عوام نے سخت مذمت کی تھی۔ اس مرتبہ بھی عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردانہ حملے پر چینی حکومت اور عوام نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ کے بیان نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ “ہمہ موسمی اسٹریٹجک شراکت داروں” کی حیثیت سے چین اور پاکستان ہر قسم کے خطرے اور چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے ہمیشہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہیں گے اور دونوں ممالک کے عوام کے مفادات اور ملک کے مستقبل کے لیے مشترکہ طور پر کوشش کریں گے۔چین اور پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں کئی سطحوں پر تعاون کیا ہے۔

دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خلاف معلومات کا تبادلہ کرنے کا میکانزم قائم کیا ہے، دہشت گردی مخالف مشترکہ مشقیں باقاعدگی سے منعقد کی جاتی ہیں، اور سرحدی کنٹرول کے تعاون کو مضبوط بنایا گیا ہے۔ چین نے پاکستان کو دہشت گردی مخالف جدید سازوسامان اور تکنیکی مدد فراہم کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف فعال پیشہ ور افراد کی تربیت میں مدد کی ہے۔ اس تعاون نے پاکستان کے انسداد دہشت گردی اقدامات کی صلاحیت کو مؤثر طریقے سے بہتر بنایا ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف تعاون نے چین اور پاکستان کی ہمہ موسمی اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید گہرا کیا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی جہت لائی ہے۔چین اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون نے علاقائی سلامتی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ مشترکہ کارروائیوں کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کی سرحد پار سرگرمیوں کے راستے کو کافی حد تک مؤثر طریقے سے کاٹ دیا گیا ہے اور پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کو روکا گیا ہے۔ اس تعاون کے ماڈل نے علاقائی ممالک کے لیے ایک مثال قائم کی ہے اور علاقائی انسداد دہشت گردی تعاون میکانزم کے قیام کو فروغ دیا ہے۔ مستقبل میں چین اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون مزید گہرا ہوگا، دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف تکنیک، معلومات کے تجزیے، اور افرادی تربیت جیسے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنائیں گے اور زیادہ بہتر دہشت گردی مخالف تعاون کا میکانزم قائم کریں گے۔ یہ تعاون نہ صرف دونوں ممالک کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے بھی اہم کردار ادا کرے گا۔دہشت گردی انسانی معاشرے کی مشترکہ دشمن ہے، جس کے خلاف بین الاقوامی برادری کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ساتھ چین کے انسداد دہشت گردی تعاون سے ایک ذمہ دارانہ بڑی طاقت کا کردار اجاگر ہوتا ہے۔ مشترکہ خطرات اور چیلنجز کے سامنے چین اور پاکستان ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر علاقائی امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے اور انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہ تعاون نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کی بہبود کے لیے اہم ہے بلکہ عالمی امن کو برقرار رکھنے کی ایک اہم قوت بھی ہے۔ انسداد دہشت گردی کے سفر میں چین اور پاکستان کندھے سے کندھا ملا کر امن کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط فولادی دیوار تعمیر کریں گے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے خلاف چین اور پاکستان کو برقرار رکھنے دونوں ممالک اور استحکام پاکستان کے ممالک کے کریں گے کے لیے ہے اور کیا ہے

پڑھیں:

وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی

بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتی رہتی ہے یہ نہ صرف مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیتی ہے بلکہ مسلمانوں کو غیر ملکی بھی خیال کرتی ہے۔ برصغیر میں اسلام پھیلانیکا سہرا بزرگان دین کے سر ہے جن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر غیرمسلم جوق در جوق مسلمان بنے۔ جہاں تک مسلمان بادشاہوں کا تعلق ہے۔ اسلام کو پھیلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔

حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے پروپیگنڈے کے قطع نظر ہندو مسلمان بادشاہوں سے اتنے مانوس تھے کہ جب 1857 میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو ختم کرنا چاہا تو ہندو ان کے ساتھ تھے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں سے لڑے۔

اگر انگریزوں کو ساورکر جیسے غدار ہندوستانی نہ ملتے تو وہ چند سالوں میں ہی ہندوستان سے نکال دیے جاتے مگر اس شخص نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا بلکہ ان کی ہدایت کے مطابق ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا کی جس کی وجہ سے دونوں قوموں میں دوریاں پیدا کی گئیں۔ ہندو مسلمانوں میں نفرت کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ اسی ساورکر کی وجہ سے ہندوستان میں کئی مسلم دشمن تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) بھی ہے۔

بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جو اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے ۔ چند سال قبل یہ متنازعہ شہریت بل متعارف کرا چکی ہے جس کے تحت بھارتی مسلمانوں کو بھارت میں اپنی شہریت ثابت کرنا ہے۔

مسلمانوں نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بالآخر بی جے پی حکومت کو اسے موخر کرنا پڑا۔ اسی بی جے پی نے بابری مسجد کو رام جنم بھومی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور بالآخر اپنی حکومتی طاقت کے بل پر اس قدیم مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر گائے کاٹنے یا اسے ایذا پہنچانے کے الزام میں درجنوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

پھر لَو جہاد کا مسئلہ کھڑا کیا اورکئی مسلم نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دھرم پری ورتن یعنی مذہب کی تبدیلی کی مہم چلائی گئی جس کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کیا گیا مگر یہ اسکیم کامیاب نہ ہو سکی اور اسے بند کرنا پڑا۔ اب مسلمانوں کو تنگ کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وقت کی زمینوں اور جائیدادوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں ایک بل پیش کر کے لوک سبھا میں پاس کرایا گیا ہے۔ اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے کئی سیکولر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ لوک سبھا میں اس بل پر ووٹنگ میں اس کی حمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ آئے۔

ظاہر ہے کہ حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اس متنازعہ بل کو پاس کرا لیا تھا۔ یہ بل پاس تو ہوگیا ہے مگر مسلمان اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ احتجاجی مسلمانوں پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے حملے کر رہے ہیں تاکہ انھیں چپ کرا دیا جائے مگر مسلمان اس بل کو واپس لینے کے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ بل کسی طرح بھی ہندوؤں یا ملک کے خلاف نہیں تھا، یہ ایک خالص مذہبی معاملہ ہے۔ زمینوں کا اللہ کی راہ میں وقف کرنا اور پھر انھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا ایک پرانا نظام ہے۔ وقف زمینوں کی دیکھ بھال ایک بورڈ کے ذمے ہوتی ہے جو وقف بورڈ کہلاتا ہے۔

ایسے وقف بورڈ بھارت کے ہر شہر میں موجود ہیں۔ ان زمینوں کو مدرسے، اسکول، اسپتال، قبرستان، مساجد اور عیدگاہ وغیرہ کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وقف قانون میں پہلی دفعہ 1995 میں ترمیم کی گئی تھی اس کے بعد 2013 میں پھر کچھ تبدیلی کی گئی۔ اب نئی ترمیمات نے بل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ بی جے پی حکومت نے ان نئی ترمیمات کے ذریعے مسلمانوں کے اختیارات کو کم سے کم کر دیا ہے۔

اب نئی ترمیمات کے ذریعے دو غیر مسلم نمایندے بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب یہ مکمل مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور صرف وہی اپنی زمینوں کو وقف کرتے ہیں تو ہندوؤں کو بورڈ میں شامل کرنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔

اب نئے قانون کے تحت ہر ضلع کا کمشنر پراپرٹی کا سروے کرے گا اور ضلع کا اعلیٰ سرکاری عہدیدار فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف کی ہے یا نہیں۔ وقف کے معاملات میں مداخلت پر مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں حکومت جو چاہتی ہے سپریم کورٹ بھی وہی فیصلہ دیتی ہے۔

کچھ مسلمان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جب مسلمانوں کے معاملات میں ہندوؤں کو دخل اندازی کا موقع دیا جا رہا ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کے مندروں وغیرہ کی زمینوں کے ٹرسٹ میں شامل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے۔

یہی بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ہے جس سے وہ انتخابات کے وقت سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ 15 برس سے مسلم کارڈ کے سہارے ہی حکومت پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ وقف جیسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر زیادتی کے سلسلے میں لیاقت نہرو معاہدے کے تحت حکومت پاکستان بھارتی حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت بالکل خاموش ہے پھر سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس زیادتی پر کچھ لکھا اور نہ کہا۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • محسن نقوی کی سعودی سفیر سے ملاقات ‘ تعلقات مضبوط بنانے کے غزم کا اعادہ
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو ریونیو بڑھانا ہو گا: وزیراعظم
  • بنگلہ دیش سے تعلق سبوتاژ کرنے کی  بھارتی کوششیں ناکام ہونگی‘ دفتر خارجہ
  • چین-کمبوڈیا “آہنی دوستی” وقت کے ساتھ مزید مستحکم ہو گی، چینی میڈیا