UrduPoint:
2025-04-22@07:56:06 GMT

'غزہ سے کوئی بھی کسی بھی فلسطینی کو نہیں نکال رہا'، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

'غزہ سے کوئی بھی کسی بھی فلسطینی کو نہیں نکال رہا'، ٹرمپ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان وائٹ ہاؤس میں آئرش وزیر اعظم مائیکل مارٹن سے ملاقات کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں دیا۔ جب ایک رپورٹر نے جنگ زدہ علاقے کے لیے "صدر کے منصوبے" کے بارے میں سوال کیا تو ٹرمپ نے کہا،" کوئی بھی فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل نہیں کر رہا۔

"

غ‍زہ امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ جلد شروع کیا جائے، حماس

یہ بیان اس منصوبے کی نفی ہے جو صدر ٹرمپ نے پہلے تجویز کیا تھا، جس کے تحت امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھالے گا، فلسطینی آبادی کو وہاں سے منتقل کرے گا، اور اس علاقے کو 'مشرق وسطیٰ کے سیاحتی مقام‘ میں تبدیل کر دے گا۔

ٹرمپ کے مقابلے میں غزہ کے لیے ’عرب منصوبہ‘ پیش کرنے کی تیاریاں

مارٹن، جنہوں نے غزہ میں جنگ بندی کی وکالت کی ہے، نے اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد سے حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔

(جاری ہے)

ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات سے پہلے، انہوں نے غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافے پر زور دیا۔ حماس نے بیان کا خیر مقدم کیا

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق حماس کے ترجمان حازم قاسم نے امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ سے فلسطینیوں کی مستقل نقل مکانی کی اپنی ہی تجویز سے واضح طور پر پیچھے ہٹنے کا کیا خیرمقدم کیا ہے۔

قاسم نے بیان میں کہا، "اگر امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات غزہ کے لوگوں کی نقلِ مکانی کے کسی بھی خیال سے دستبرداری کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ہم (حماس) مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنا کر اس پوزیشن کو مزید تقویت دی جائے۔"

فروری میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک نازک فائر بندی معاہدے کے ابتدائی مراحل کے دوران دیے گئے ٹرمپ کے بیان کی شدید مخالفت کی گئی تھی، کیونکہ اس سے فلسطینیوں کے ان خدشات کو تقویت ملی کہ انہیں مستقل طور پر اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔

مصر، اردن اور خلیجی عرب ریاستوں نے خبردار کیا تھا کہ اس قسم کا کوئی بھی منصوبہ پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر سکتا ہے۔

ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں، عرب ریاستوں نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک 53 ارب ڈالر کا مصری منصوبہ منظور کیا ہے، جس میں فلسطینی بے دخل نہیں ہوں گے۔

عرب وزرائے خارجہ نے بدھ کو کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی، اسٹیو وٹکوف، کے ساتھ مصری منصوبے پر مشاورت جاری رکھیں گے تاکہ غزہ کے امریکی کنٹرول کے متبادل کے طور پر اس پر عمل درآمد کیا جا سکے۔

ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز، اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹرمپ کے غزہ کے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • اسلام آباد میں غزہ ملین مارچ ‘ امریکہ قاتل ‘ پاکستان میں حماس کا دفتر کھولاجائے ہفتہ کو ملک گیر ہٹرتال : حافظ نعیم
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • غزہ: اسرائیلی بمباری سے مزید 54 فلسطینی شہید، نیتن یاہو کا حماس پر دباؤ بڑھانے کا حکم
  • غزہ پر بمباری جاری، اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی عیدان الیگزینڈر بھی لاپتا ہوگیا
  • صیہونی حملے کے بعد اسرائیلی نژاد امریکی قیدی کا کوئی علم نہیں، ایک محافظ شہید ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار