Daily Ausaf:
2025-12-13@23:12:34 GMT

غزہ کوئی ’’چیز‘‘ نہیں ہے، جناب صدر!

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نہ اسرائیل اور نہ ہی امریکہ ہمیں، غزہ کے لوگوں کو امن کے ساتھ چھوڑنے پر تیار ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیلی استعماری قبضے کے ذریعے ہونے والی نسل کشی کی جنگ میں ایک نازک جنگ بندی کے اعلان کے بعد، جسے امریکی حمایت اور مصری اور قطری ضمانتوں کے ساتھ عمل میں لایا گیا،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور گہرا متنازعہ اعلان کیا۔ انہوں نے اس ساری چیز کو صاف کرنے” کی تجویز پیش کی، “ڈیڑھ ملین” فلسطینیوں کو اردن اور مصر جیسے پڑوسی ممالک میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی،اور اسے ایک نام نہاد انسانی حل کے طور پر پیش کیا۔میں نے ان کے الفاظ کو دو مرتبہ پڑھا،اور اس بات کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کی کہ “چیز” کا مطلب ان کے نزدیک کیا ہے۔ وہ خود غزہ کا حوالہ دے رہے تھے، ایک ایسی سرزمین جو بیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے جنہوں نے کئی دہائیوں کے محاصرے، بمباری اور جبری نقل مکانی کو برداشت کیا ہے۔ ٹرمپ کے نزدیک غزہ زندگی، تاریخ اور مزاحمت کی جگہ نہیں ہے بلکہ ایسی ایک رکاوٹ جسے دور کرنے کی ضرورت ہے، غزہ کے لوگوں نے امریکہ جیسے بگڑے ہوئے بچے کواپنا پسندیدہ “حل” نکالنے میں ان کےلیے ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ فون کال پر وضاحت کرتے ہوئے، ٹرمپ نے غزہ کو “ایک حقیقی گندگی” قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے شاہ عبداللہ پر زور دیا کہ وہ مزید فلسطینیوں کو لے جائیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ نیا انتظام بےگھر ہونے والوں کے لیے عارضی یا طویل مدتی ہو سکتا ہے، اور دعویٰ کیا کہ اس سے وہ ’’تبدیلی کے بعد امن کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ” مصر اوراردن غزہ کے لوگوں کو لے”۔( تاہم مصر اور اردن دونوں نے غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تجویز کو مسترد کر دیا(یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے) ٹرمپ غزہ کو وطن کے طور پر نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ کے طور پر مسئلے کو حل کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اسے ایک “غیر معمولی مقام” کہا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے “بڑے پیمانے پر مسمار کرنے والی جگہ” سے بھی تشبیہ دی۔ ان کے الفاظ ان کے داماد جیرڈ کشنر کے الفاظ کی بازگشت ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال غزہ کی “قیمتی” واٹر فرنٹ پراپرٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ فلسطینیوں سے خالی کروانے کے بعد یہ دوبارہ ترقی کے لیے اہم زمین ہے۔غزہ میں، ٹرمپ کی تجویز کو دیوانے کی بڑ سمجھا گیا اور گہری تشویش کے ساتھ دیکھا گیا۔ کچھ لوگوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا،اور ان کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہیں لیا، خاص طور پر جب اسرائیلی فوج نے ساحلی علاقے کے بیشتر علاقوں سے انخلا کیا، اور رہائشیوں کو شمالی غزہ میں اپنے تباہ شدہ محلوں میں واپس جانے کی اجازت دی۔ غزہ میں عام جذبات یہ تھے کہ اگر وہ بمباری کے دوران وہاں سے نہیں نکلے جب گھر چھوڑنے کا دباؤ اپنے عروج پر تھاتو قتل و غارت گری کے تھمنے کے بعد اب وہ وہاں سے کیوں نکلیں گے؟ تاہم کچھ نے ان کے اس بیان کو ایک انتباہ کے طور پر دیکھا کہ غزہ کی تعمیر نو کو جان بوجھ کر روکا جا سکتا ہے،جس کی وجہ سے یہ علاقہ ناقابل رہائش رہے گا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبورکیا جاسکےگا۔ اس طرح براہ راست فوجی کارروائی کے بغیر بھی ایک دوسری طرز کی جنگ کو جاری رکھاجاسکتا ہے ۔ محرومیوں ،خوراک، ادویات، پانی اور ایندھن پر سخت پابندیوں نے روزمرہ کی زندگی کو بقا کی جنگ بنا دیا ہے۔ ہسپتال کام کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، خاندان صاف پانی کے لیے لامتناہی لائنوں میں انتظارکر رہے ہیں، اور بجلی کی بار بار کٹوتی پورے محلے کو تاریکی میں ڈبو دیتی ہے۔ اگر یہ حالات برقرار رہے تو غزہ میں رہنا ایک ناقابل برداشت انتخاب بن سکتا ہے۔ والدین کےلئے اپنے بچوں کو بھوک اور بیماری کا شکار ہوتے دیکھنا یا اپنے وطن کو پیچھے چھوڑنے جیسے عبرتناک فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسانی امداد جو پہلے سے ہی بقا کے لیے ایک لائف لائن ہے، کو ہتھیار بنایا جا سکتا ہے، ان طریقوں سے مشروط کیا جا سکتا ہے جو ضرورت کی آڑ میں نقل مکانی پر زور دیں۔ یہ سب کچھ جو وہ بم کے ذریعےحاصل کرنے میں ناکام رہے، مایوسی پھیلا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ مصر اور اردن نے اب تک ایسی تجاویز کی مزاحمت کی ہے لیکن سفارتی کوششیں ان پر فلسطینی پناہ گزینوں کو بین الاقوامی امن تصفیہ کے حصے کے طور پر قبول کرنے کے لیے دبائوکا باعث بن سکتی ہیں۔
11 اکتوبر 2023 کو جب امریکی اہلکار جان کربی نے غزہ کے باشندوں کو فرار ہونے کے لیے ’’محفوظ راستے‘‘ کی بات کی، تو کمرے میں بیٹھے میرے والد نے بیزاری سے ریڈیو بند کر دیا۔ ان کا چہرہ تاریک ہو گیا، اور انہوں نے جان کربی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ہاتھ لہرایا اورمضبوطی سے کہا کہ “ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جا سکتا ہے کے طور پر کی تجویز انہوں نے کے الفاظ کے ساتھ کے لیے غزہ کے پیش کی کے بعد

پڑھیں:

میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251212-03-3
کراچی کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ یہ مسلسل ناانصافی کب ختم ہوگی؟ یہ شہر جو پورے ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہے، جہاں کے بچے روزانہ ہزاروں مشکلات، ٹریفک، شور، اکیڈمک پریشر، مہنگی کوچنگ، اور محدود تعلیمی سہولتوں کے باوجود شب و روز محنت کرتے ہیں، انہیں ہر سال صرف اس لیے دھکیل دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس نہ طاقت ہے نہ سفارش۔ کراچی کے تعلیمی ادارے برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہیں، سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، لیب اور لائبریری کا فقدان، اور امتحانی سسٹم کی سختی کے باوجود یہاں کے طلبہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جب بات سب سے اہم مرحلے میڈیکل داخلوں پر آتی ہے تو ان کی محنت کو بیرونی امیدواروں کی جعلی رپورٹس، غیر منصفانہ میرٹ، اور کمزور نظام کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے بچوں سے صرف اکیڈمک نہیں بلکہ بنیادی انصاف بھی چھینا جا رہا ہے، اور یہ ظلم اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔

کراچی کے سرکاری تعلیمی بورڈ سے انٹر کرنے والے طلبہ و طالبات ایک بار پھر میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم رہے اور یہ المیہ نئی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری حقیقت ہے۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کی 3 دسمبر 2025 کو جاری کردہ ایم بی بی ایس داخلہ فہرست نے شہر بھر میں شدید بے چینی پیدا کی ہے، کیونکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کراچی بورڈ کے طلبہ بڑے پیمانے پر نظرانداز ہوئے ہیں۔ میرٹ پالیسی کی شفافیت، انتظامی ساکھ اور داخلہ طریقہ کار پر سنگین سوالات نے نہ صرف والدین کو پریشان کیا ہے بلکہ کراچی کے تعلیمی مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

داخلہ فہرست میں ایسے امیدوار شامل ہیں جن کے انٹرمیڈیٹ کے نمبر غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں، ایسے نمبر جو کراچی کے سخت امتحانی معیار میں لینا تقریباً ناممکن ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کراچی کا انٹر نتیجہ اس سال بھی کم رہا جبکہ ایم ڈی کیٹ 2025 کو پورے ملک میں سخت ترین امتحان قرار دیا گیا تھا، مگر حیرت انگیز طور پر وہی امیدوار کراچی کی 860 ایم بی بی ایس سیٹوں میں سے 500 سے زائد سیٹیں لے اڑے۔ یہ توازن خود بخود اس نظام کی شفافیت پر بڑا سوال اُٹھاتا ہے جہاں کراچی کا طالب علم اپنی اصل محنت کے باوجود مقابلے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔

تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اندرونِ سندھ کے درجنوں امیدواروں نے جعلی کراچی ڈومیسائل بنوا کر کراچی کوٹے پر داخلے حاصل کیے۔ یہ صرف ضابطہ جاتی غلطی نہیں بلکہ کراچی کے حق پر براہ راست ڈاکا ہے۔ ڈومیسائل ویریفکیشن بورڈ اور داخلہ کمیٹیاں اپنی بنیادی ذمے داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ مزید افسوسناک انکشاف یہ ہے کہ کچھ ایسے امیدوار بھی داخلہ فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے ایم ڈی کیٹ 2025 کا امتحان ہی نہیں دیا تھا، مگر پھر بھی انہیں میڈیکل کالجوں میں نشستیں الاٹ کر دی گئیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ داخلی بے ضابطگیوں، مبینہ کرپشن اور بدترین غفلت میں مبتلا ہے۔ یہ معاملہ صرف ڈاؤ تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، وفاقی وزیر ِ صحت، اور سندھ کے صوبائی وزیر ِ صحت کی نااہلی کا ثبوت بھی ہے۔ اگر ادارے اپنی نگرانی، اسکروٹنی اور میرٹ پالیسی پر عمل درآمد کو سنجیدگی سے لیتے تو ایسے جعلی ڈومیسائل، مشکوک اسناد اور غلط میرٹ لسٹیں کبھی سامنے نہ آتیں۔ لیکن افسوس کہ کراچی کی آبادی اور اس کے وسائل کو استعمال کرنے والے ادارے جب کراچی کی نوجوان نسل کے مستقبل پر بات آتی ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

کراچی کے عوام کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ شہر سے مینڈیٹ لینے والی سیاسی جماعتیں اس سنگین ناانصافی پر ایک لفظ تک نہیں بول رہیں۔ ہر انتخابی جلسے میں کراچی کے حقوق کا راگ الاپنے والے رہنما آج ان بچوں کی آواز بننے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ سال بھی یہی مسئلہ سامنے آیا تھا، عدالتوں تک بات گئی، میڈیا نے اُٹھایا، احتجاج ہوئے، مگر اصلاحات نہ ہوئیں اور اس سال دوبارہ وہی معاملہ سامنے آ گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ لینے والے اس وقت تو بڑے دعوے کرتے ہیں جب ووٹ چاہیے ہوتا ہے، مگر جب شہر کا مستقبل لٹ رہا ہو تو سب اپنی ذمے داریوں سے نظریں چرا لیتے ہیں۔

کراچی کے طلبہ آج دہائی دے رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کے بچوں کے ساتھ ایک منظم ظلم کیا جا رہا ہو، اور ان کی محنت کو کسی منفی نظام کے نیچے روند دیا جاتا ہو۔ طلبہ نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ سندھ، اور پی ایم ڈی سی سے فوری شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کراچی کے بچوں کو ان کا حق مل سکے۔ یہ صرف داخلوں کا مسئلہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر اس شہر کے بچوں کے ساتھ یہ ناانصافی اسی طرح جاری رہی تو کراچی کی محنتی نسل مایوسی، بیگانگی، اور عدم اعتماد کا شکار ہوتی چلی جائے گی، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کا ازالہ صرف بہتر پالیسیوں سے نہیں بلکہ مضبوط اور منصفانہ نظام سے ہی ہو سکے گا۔ کراچی صرف احتجاج نہیں چاہتا، کراچی انصاف چاہتا ہے اور وہ بھی اب، اسی وقت، بغیر کسی تاخیر کے۔

دلشاد عالم سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی فضا میں حرم مولا عباسؑ کا مقدس پرچم لہرا دیا گیا، ویڈیو
  • پی ٹی آئی کے ساتھ اب کوئی فیض حمید نہیں، منفی سیاست چھوڑ دے، طارق فضل
  • فیض حمید کی سزا کسی حکومت کی فتح نہیں: طارق فضل چوہدری
  • پی ٹی آئی کے ساتھ اب کوئی فیض حمید نہیں، منفی سیاست چھوڑ دے، طارق فضل چوہدری
  • کراچی، امام جماعت حرم مولا عباسؑ کی اقتداء میں نماز مغربین و پرچم کشائی کی تقریب کا انعقاد
  • میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟
  • کیا ٹام ہالینڈ اور زینڈایا کی منگنی ٹوٹ گئی؟ رابرٹ کے ساتھ تصویر وائرل
  • خیبر پختونخوا میں گونر راج نافذ کرنے  پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی
  • فیض حمید کے ساتھ اگر کوئی اور ملوث ہوگا تو ان کو بھی سزا ملے گی، گورنر کے پی
  • نیب قانونی تقاضوں کے ساتھ لوگوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھے: گورنر