WE News:
2025-04-22@06:12:25 GMT

فیصلے کا وقت آ پہنچا

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

صاحبو اس میں کوئی کلام نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی ایک حکومت کا بگاڑا نہیں بلکہ ہر ایک نے اس میں حصہ ڈالا ہے، خاص کر جنرل پرویز مشریف کے دور سے جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان کا تیر بہدف علاج کوئی نہ ڈھونڈ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں حالات جس قدر بگڑگئے ہیں، ان کا کوئی ایک سادہ حل ممکن نہیں، بیک وقت کئی پہلوؤں پر کام کرنا ہوگا۔

یہ بھی درست کہ بلوچستان میں بہت سے مسائل جینوئن ہیں، وہ دور کرنے ہوں گے، لوگوں کی محرومیاں، شکایات کو سننا ہوگا، ان کا حل نکالنا ہوگا، وہاں روزگار کے مواقع ہوں، معیشت ترقی کرے، خوشحالی آئے، عام آدمی کی زندگی میں آسانی ہو تو خود بخود شدت پسندی کمزور پڑے گی۔

یہ سب باتیں بجا۔ ہم ہر قسم کے ان اقوال زریں، دل خوش کن باتوں کے حامی ہیں، ان پر ضرور عمل کیا جائے۔ اس وقت مگر سب سے اہم اور ترجیحی کام دہشتگردوں کا خاتمہ ہے۔ یہ وقت ہے کسی بھی قسم کے اگر، مگر، چونکہ چناچہ کے بغیر دہشتگردی کی غیر مشروط مذمت کرنے کا، ان شدت پسند درندوں کے خاتمے، ان کے نیٹ ورک کو توڑنے، جڑیں اکھاڑنے اور مکمل قلع قمع کرنے کا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بی ایل اے کے دہشتگردوں نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ کسی قسم کے مذاکرات نہیں چاہتے، وہ پرامن حل چاہتے ہی نہیں۔ وہ شاید یہی چاہتے ہیں کہ ان کی گردنیں مار دی جائیں، ورنہ زومبیز کی طرح وہ عام آدمی پر حملہ آور ہوکر اسے کاٹ کھائیں گے، اس کا خون کر دیں گے۔ اس لیے یہ سروائیول کی جنگ ہے۔ دہشت گرد بچیں گے یا پاکستان اور اس کے عوام۔

یہ حقیقت ہے کہ بلوچ شدت پسند تنظیموں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ بی ایل اے ہو یا ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف ان دونوں نے ایک بڑی غلطی یہ کی ہے کہ ہر قسم کے مذاکرات اور امن کی کوشش کا دروازہ بند کردیا ہے۔

دنیا بھر میں شدت پسند تنظیمیں، حتیٰ کہ علیحدگی پسند گروہ بھی اپنا سیاسی ونگ بناتے ہیں جو مسلح کارروائیوں سے الگ تھلگ رہ کر صرف سیاسی جدوجہد کرتا ہے۔ برطانیہ میں آئرش ری پبلک آرمی نے ایسا کیا تھا، حل بھی ان کے اسی سیاسی ونگ نے نکالا۔ افغان طالبان قابض امریکی افواج سے لڑ رہے تھے، مگرقطر میں دفتر کھول کر سیاسی مذاکرات کی آپشن دے رکھی تھی جو آخرکار کامیاب بھی ہوئی۔ خود غزہ میں برسرپیکار حماس کا سیاسی ونگ بالکل الگ کام کرتا رہا ہے، دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔

البتہ سری لنکا کے تامل ٹائیگرز نے بھی یہی غلطی کی تھی۔ وہاں تامل ٹائیگرز کے سربراہ پربھاکرن کی طاقتور شخصیت یوں غالب ہوئی کہ سیاسی ونگ اپنا کام ہی نہیں کر پایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسئلے کا حل ڈھونڈنے والوں کو آخرکار پربھاکرن کا خاتمہ کرکے تامل ٹائیگر کے پورے نیٹ ورک کا صفایا کرنا پڑا، تب علاقے میں امن قائم ہوا۔

ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تامل ٹائیگرز کی جدوجہد کسی نظریے سے زیادہ ایک نسل پرستانہ سوچ پر استوار تھی۔ ان کے لیے سنہائی آبادی ہر حال میں ناقابل قبول تھی۔ یہی بلوچ شدت پسند دہشت پسند تنظیمیں کر رہی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ نسل پرست گروہ ہے ۔ ان کے نزدیک صرف بلوچ ہی انسان ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر تمام آبادیاں اور گروہ خدانخواستہ کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر۔ یہ بات انہوں نے پاکستانی عوام کو بار بار بتائی اور ابھی جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے میں ایک بار پھر زوردار طریقے سے واضح کردی۔

اس حملے میں انہوں نے بلوچ مسافروں کو تو جانے دیا، جبکہ پنجابی، سندھی، پشتون، سرائیکی مسافروں کو الگ الگ دائروں میں بٹھا کر باری باری انہیں گولیاں ماری گئیں۔ انہوں نے پشتونوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ ان کی درندگی اور سفاکی ایسی تھی کہ روزے داروں تک کو نہیں چھوڑا گیا، لوگ چوبیس گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہے اور ان نہتے عام آدمیوں کو یوں درندگی سے مارا گیا کہ عینی شاہدوں کے بیان کے مطابق پورا پورا برسٹ ان کے جسم پر خالی کیا گیا۔

لوگ منت سماجت کرتے رہے کہ وہ کئی بچوں کے اکیلے کفیل ہیں اور لیبر کا کام کرتے ہیں، مگر جنونی قاتلوں نے نہایت سفاکی اور وحشت کے ساتھ انہیں گولیاں مار کر شہید کردیا۔

یہ قطعی طور پر ناراض بلوچ نہیں۔ یہ سفاک، بے لحاظ اور ظالم دہشت گرد ہی ہیں۔ ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے گزشتہ روز کہا کہ ہم امن جرگہ کرنے کو تیار نہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ بیان بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ اور ازحد کمزوری لیے ہوئے ہے۔ جن دہشتگردوں نے صوبائی حکومت کی رٹ کی دھجیاں آڑا دیں، دن دیہاڑے ٹرین یرغمال بنالی۔ مسافروں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اتنا بڑا بحران کھڑا کردیا، ہمارے دشمن ممالک میں اس ایشو کو اچھالا گیا، ان کے میڈیا نے اسے بے پناہ کوریج دی۔ پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ ایسا کرنے والے کیا کسی قسم کے امن جرگے کے مستحق ہیں؟

یہ بات کہنا بھی اپنی کمزوری ظاہر کرنا ہے۔ ان کے خلاف سخت ترین اور تباہ کن آپریشن کی ضرورت ہے۔ ان کا نیٹ ورک توڑا جائے، ان کی اعلیٰ قیادت اور صف اول و دوم کے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے، ان کا صفایا ہو اور تامل ٹائیگرز کی طرح یہ بھی قصہ پارینہ بن جائیں۔

بلوچستان میں عام آدمی کی بھلائی اور ویلیفیئر کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، وہ سب اپنی جگہ ہوتا رہے، مگر دہشتگردوں کا ہر حال میں خاتمہ ہو۔ انہیں اب چھوڑنا بدترین بزدلی، کمزوری اور شرمناک پسپائی ہوگا۔ ان پر پلٹ کر وار کرنے اور کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔

آخری تجزیے میں جعفر آباد ٹرین پر حملے کرنے والے دہشتگرد درندوں سے بھی بدتر تھے۔ ان کی قید سے بھاگ جانے والے مسافروں کی روداد ایسی ہولناک اور تکلیف دہ ہے کہ یقین نہیں آتا۔ نہایت درندگی، بے شرمی اورسنگدلی سے انہوں نے نہتے مسافروں کو گولیا ں ماریں۔

یہ بدبخت جنونی، نسل پرست، ریسسٹ اور جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ ایسے کہ ان کے خلاف قانون کو پوری قوت سے حرکت میں آنا چاہیے۔ جو ایسے درندوں کی حمایت میں کچھ لکھے یا بات کرے، اس پر تف ہے۔

بی ایل اے کا خاتمہ اب وقت کی ضرورت بن گیا۔ کسی کو یہ بات بری لگتی ہے تو لگتی رہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اب یہ دہشتگرد بچیں گے یا پاکستان کے عوام۔ محرومی اور شکایات کا حل یا مداوا دہشتگردی سے نہیں ہوسکتا، یہ بات ہر ایک کو سیکھنا ہوگی۔

فیصلے کا وقت آ پہنچا، فیصلہ کن وار کا وقت بھی، یہ وقت دہشتگردوں کے خلاف ایک بڑے، ہمہ گیر، وسیع اور دہشتگردی کے اس عفریت کی جڑیں تک کاٹ دینے والے آپریشن کا ہے۔ بھرپور انٹیلی جنس ورک کے بعد ایک مؤثر ترین آپریشن کرنے کا وقت۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تامل ٹائیگرز مسافروں کو سیاسی ونگ کی ضرورت انہوں نے کرنے کا کا وقت بی ایل یہ بات قسم کے

پڑھیں:

تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔

پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔

پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔

یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط ​​طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔

پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔

اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • چین اور گبون نے سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، چینی صدر
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
  • اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
  • جے یو آئی (ف) کا تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے، آنے والے دنوں میں بجلی مزید سستی ہوگی، اعظم تارڑ
  • امریکا، سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو بیدخل کرنے سے روک دیا
  • صوابی، ژالہ باری، تیز بارش، آسمانی بجلی گرنے سے کشتی بان جاں بحق، 2 افراد زخمی
  •    دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں ہی بچے کی کسٹڈی کی حق دار ہے، لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنا دیا
  • تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی