’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے بددعائیں دے رہا تھا‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا‘ بھائی تم مجھے بددعائیں کیوں دے رہے ہو‘ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر بولا‘ میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو میں پہلے سب پاکستانیوں کے لیے بددعا کرتا ہوں‘ تم بھی پاکستانی ہو لہٰذا اﷲ تمہیں بھی ۔۔۔کرے‘ میں دکھی ہو گیا‘ اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور جا کر برآمدے میں بیٹھ گیا‘ وہ جب دعا کے بعد برآمدے کی طرف آیا تو میں اٹھا اور زبردستی اس سے بغل گیر ہو گیا‘ وہ اپنا آپ مجھ سے چھڑاتا رہا لیکن میں نے اسے دبوچ رکھا تھا‘ میں اس سے معافی بھی مانگ رہا تھا اور ساتھ ساتھ پوچھ رہا تھا بھائی تم مجھ سے کیوں ناراض ہو‘ وہ چھڑانے کی کوشش کرتا رہا مگر میری گرفت زیادہ مضبوط تھی‘ بہرحال وہ تھک گیا۔
اس کا سانس چڑھ گیا اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا‘ میں اسے لے کر حرم شریف کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا‘ اس نے بڑی مشکل سے اپنی سانس درست کی اور پھر بولا‘ مجھے تم سے کوئی گلہ‘ کوئی تکلیف نہیں‘ میں دراصل ہرپاکستانی سے نفرت کرتا ہوں‘ میں نے وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا‘ ہم افغانی پاکستان کی وجہ سے تباہ وبرباد اور دربدر ہو گئے‘ افغانستان اگر آج قبرستان ہے تو اس کا واحد ذمے دار پاکستان ہے‘ افغانستان ایک ماڈرن اور نارمل ملک تھا‘ ہم امن سے رہ رہے تھے لیکن پھر تم لوگوں نے برہان الدین ربانی اور گل بدین حکمت یار جیسے لوگوں کو پناہ اور ٹریننگ دی اور پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ یہ خانہ جنگی دیکھتے ہی دیکھتے سوویت یونین اور امریکا کی جنگ میں تبدیل ہو گئی اور اس نے ہنستے کھیلتے ماڈرن ملک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا‘‘۔
وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور پھر بولا ’’ یہ جنگ ختم ہوئی تو تم لوگوں نے طالبان بھجوا دیے‘ وہ جنگ سے زیادہ ہول ناک دور تھا‘ وہ ختم ہوا تو تم لوگوں نے امریکا کے ساتھ مل کر رہا سہا افغانستان بھی قبرستان بنا دیا اور اب تم نے ایک بار پھر طالبان بھجوا دیے ہیں‘ ہم تم سے نفرت نہ کریں تو کیا کریں‘ وہ مسلسل بول رہا تھا اور میں اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا‘ وہ رکا تو میں نے اس سے کہا‘ میرے بھائی پاکستان افغانستان سے زیادہ نارمل‘ ماڈرن اور پرسکون ملک ہوتا تھا‘ ہم نے افغانستان کو بچاتے بچاتے اپنا بیڑا غرق کر لیا‘ ہمارے ملک میں جہادی سوچ آئی‘ فرقہ واریت آئی‘ ہیروئن اور کلاشنکوف آئی اور آخر میں بم دھماکے اور خودکش دھماکے بھی آ گئے‘ ہماری معیشت کا جنازہ بھی نکل گیا اور ہم دنیا میں اکیلے بھی ہو گئے اور ہمیں یہ سزا صرف اور صرف افغانستان کی محبت میں ملی‘ ہم آپ لوگوں کو کمیونسٹ روس سے بچانا چاہتے تھے۔
آج اگر آپ لوگوں میں تھوڑا سا اسلام بچ گیا ہے تو اس کا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے اگر روس رہتا تو افغانستان میں مسجدیں ہوتیں اور نہ نمازی‘ آپ تاجکستان بن چکے ہوتے‘ ہم پچاس لاکھ افغانیوں کو بیس سال پالتے بھی رہے‘ اس وقت بھی بیس لاکھ سے زائد افغانی پاکستان میں ہیں لیکن آپ اس کے باوجود ہم سے نفرت کرتے ہیں‘ کیا یہ احسان فراموشی نہیں؟ وہ مسکرایا اور پھر ہنس کر بولا‘ کون سا احسان! آپ لوگ یہ سب ڈالرز کے لیے کرتے رہے‘ 1980کی دہائی میں ڈالر لیے‘ پھر 1996کی دہائی میں ڈالر لیے پھر 2001میں ڈالر لیے اور اب ایک بار پھر ڈالرز کی تیاری کر رہے ہیں‘ میں آپ کی عزت کیوں کروں؟ یہ سن کر میری برداشت جواب دے گئی‘ میں اٹھا اور چپ چاپ حرم شریف سے نکل گیا جب کہ وہ مجھے مسلسل طعنے دیتا رہا‘‘۔
یہ واقعہ میرے ایک جاننے والے کے ساتھ چند دن قبل پیش آیا‘ وہ اس پر بہت دکھی تھا‘ میں نے یہ سن کر اسے تسلی دی اور اس کے بعد اسے مشورہ دیا تم کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل تاریخ کا مطالعہ ضرور کرو‘ تم چند لمحوں میں وجوہات سمجھ جاؤ گے‘ وہ حیران ہو کر بولا‘ کیسے؟ میں نے عرض کیا’’ پاکستان کے موجودہ علاقوں اور ہندوستان میں ہزاروں سال سے سینٹرل ایشین حملہ آور ہوتے رہے ‘ افغانستان کے راستے یہاں آرین بھی آئے‘ ہن بھی اور منگول بھی‘ ان کے بعد ایرانی اور افغانی لگاتار آتے رہے‘ محمود غزنوی ہو‘ شہاب الدین غوری ہو‘نادر شاہ درانی ہو یا پھر احمد شاہ ابدالی ہو یہ سب افغانی (نادرشاہ کے علاوہ) تھے لہٰذا پاکستان اور ہندوستان پر حملہ افغانیوں کا ڈی این اے ہے۔
یہ لوگ پہلے لشکر کی شکل میں ہم پر حملہ آور ہوتے تھے اور اب یہ خودکش حملوں اور نفرت کی شکل میں حملہ آور ہیں‘ دور کوئی بھی ہو انھیں جہاں بھی ہم نظر آئیں گے‘ یہ ہم پر حملہ کریں گے‘ دوسرا ہم ہزاروں سال سے افغانوں کی مہمان نوازی کر رہے ہیں‘ یہ ہمارا ڈی این اے ہے اور تیسرا برصغیر کا مزاج دفاعی ہے‘ ہم پر ہزاروں سال سے حملے ہو رہے ہیں چناں چہ ہمارا ڈی این اے دفاعی ہو گیا ہے‘ ہم صرف اپنے آپ کو بچاتے ہیں‘ ہم کبھی کسی پر حملہ نہیں کرتے‘ ہماری لڑائیاں بھی ذاتی اور مقامی ہوتی ہیں‘ جاٹ راجپوتوں سے لڑ پڑتے ہیں اور راجپوت ایک دوسرے کے سر کھول دیتے ہیں اور بس‘ آپ دیکھ لیں پاکستان اور بھارت بھی پچھلے 76 برسوں سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔
ہماری لڑائی کبھی ہندوستان سے باہر نہیں گئی‘ بھارت بھی اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود آج تک چین سے نہیں لڑ سکا اور ہم افغانوں اور ایرانیوں سے نہیں‘ ہم جب بھی لڑیں گے انڈیا سے لڑیں گے اور انڈیا بھی جب پنگا کرے گا یہ پاکستان سے کرے گا‘ سرحد سے نکل کر یہ بھی چین میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا‘ جارحیت افغانوں کا ڈی این اے ہے اور افغانیوں سے مار کھانا پاکستانیوں کا چناں چہ چپ چاپ برداشت کرو‘ یہ آج کا ایشو نہیں‘ یہ صدیوں کی لڑائی ہے اور یہ صدیوں تک چلے گی‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا‘ میں نے اس کے بعد عرض کیا ’’ اور احسان فراموشی اور محسن کشی بھی افغانوں کے ڈی این اے میں ہے‘ آپ تاریخ میں دیکھ لیں جس ملک‘ قوم اور گروپ نے ان پر احسان کیا افغانوں نے نفرت‘ دشمنی اور ظلم سے اس کا بدلہ دیا‘ روس بیس سال افغانوں کو پالتا رہا‘ اسے اس کا کیا صلہ ملا؟ امریکا نے 12 سال افغان جہاد کے لیے رقم‘ اسلحہ اور سفارتی مدد دی‘ اسے کیا ملا؟ یہ 2001میں ایک بار پھر افغانستان آیا‘ 20 سال اس نے کھربوں ڈالر افغانی تنور میں جھونکے‘ پورا ملک دوبارہ بنایا‘افغانستان کو سڑکوں سے لے کر آرمی تک بنا کر دی لیکن اسے کیا صلہ ملا؟ پاکستان نے بھی ہر دور میں افغانوں کی مدد کی‘ برہان الدین ربانی اور حکمت یار سے لے کر طالبان کی موجودہ قیادت تک تمام افغان لیڈر پاکستان میں رہے یہاں شادیاں کیں‘ جائیدادیں بنائیں‘ سرکاری گاڑیوں میں سفر کیا اور پاکستانی پاسپورٹ استعمال کیے‘ ہم نے ان کے لیے پوری دنیا کی مخالفت بھی برداشت کی لیکن ہر دور میں ہمیں نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہیں ملا‘ طالبان کی موجودہ کابینہ کے تمام وزراء پاکستان میں پناہ گزین رہے ہیں‘ ہم نے امریکا سے دشمنی مول لے لی مگر انھیں بش سے لے کر ٹرمپ تک سب سے بچاتے رہے‘ ہمیں اس کا کیا صلہ ملا؟ بنوں کینٹ پر حملہ اور جعفر ایکسپریس پر قبضہ‘ یہ ہے اس کا صلہ‘‘ میں خاموش ہوگیا۔
میرا دوست دیر تک خاموش بیٹھا رہا اور پھر بولا ’’اس کا حل کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس کے تین حل ہیں‘ ایک‘ ہم انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کر لیں‘ ایٹم بم کے بعد ہم انڈیا سے لڑ سکتے ہیں اور نہ انڈیا ہم سے لہٰذا ہمیں اب اچھا ہمسایہ بن جانا چاہیے‘ سرحدیں نرم کریں اور تجارتی تعلقات میں اضافہ کریں‘ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے‘ تعلقات میں بہتری کے بعد بھارت یہ بند کر دے گا یوں افغانوں کو بھارتی پیسے کی سپلائی بند ہو جائے گی اور ان کی بلیک میلنگ رک جائے گی‘ دوسرا ہمیں اندرونی لڑائیاں ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوں گی‘ سیاست دان‘ فوج اور عدلیہ اکٹھی بیٹھے‘ آئین میں جوترامیم کرنی ہیں ایک ہی بار کر دیں اور اس کے بعد فیصلہ ہو جائے اب کوئی بندوق علی خان آئین اور سسٹم کو نہیں چھیڑے گا‘ الیکشن وقت پر ہوں گے اور جسے ووٹ ملے گا وہ حکومت بنا لے گا۔
اسٹیبلشمنٹ کسی کو لائے گی اور نہ نکالے گی‘ ملک میں اس سے استحکام آجائے گا اور ہمارا آگے کا سفر شروع ہو جائے گا اور تیسرا دنیا میں کوئی برادر اسلامی ملک نہیں‘ یہ سب مفاد اور بزنس کا کھیل ہے لہٰذا ہمیں اسلامک برادر ہڈ سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھنا چاہیے‘ سرحدیں مضبوط بنانی چاہییں اور کسی ملک کے لیے کسی قسم کی قربانی نہیں دینی چاہیے‘ طالبان جانیں اور امریکا جانے‘ ہمیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔
ہم پر اگر کوئی حملہ کرے تو ہم اسے منہ توڑ جواب دیں اور خودکسی دوسرے ملک میں دراندازی نہ کریں‘ ہمارا کوئی بھائی یا دشمن نہیں ہونا چاہیے‘ ہم نے اگر فوری طور پر یہ فیصلے کر لیے تو ہم بچ جائیں گے ورنہ ہم فیصلوں کے قابل نہیں رہیں گے‘ انسان ہوں یا قومیں یہ بیک وقت اندر اور باہر نہیں لڑ سکتیں اور ہم نے بدقسمتی سے باہر اور اندر دونوں جگہوں پر محاذ کھولے ہوئے ہیں اور یہ دوطرفہ جنگ ہمیں تیزی سے نگلتی چلی جا رہی ہے چناں چہ سنبھلنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں‘‘۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں ڈی این اے سے لے کر پر حملہ اور پھر رہے ہیں رہا تھا ہیں اور اور اس کے بعد کے لیے اور ہم
پڑھیں:
معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کا روز خاصا مصروفیت میں گزارا۔ جمعہ کو ان کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا اور پھر اسی روز انھوں نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کا بھی دورہ کیا۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم دہشت گردوں کو ایسی عبرتناک شکست دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے، ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں اور صوبوں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ وفاقی حکومت اس ضمن میں تمام صوبوں کی استعداد بڑھانے کے لیے بھرپور تعاون کرے گی۔
دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ ہے، اس حوالے سے فیصلہ ساز ہی ہیں بلکہ عام پاکستانی تک حقائق سے آگاہ ہے۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کی لعنت کا سامنا نہ ہوتا تو آج پاکستان ایشیا میں ایک اہم معاشی قوت ہوتا۔
بہرحال بدترین دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے معاشی اور سائنسی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان اور افسر دن رات اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اردگرد کے حالات ایسے ہیں، اس قسم کے حالات کا سامنا اگر دنیا کے کسی اور ملک کو ہوتا تو شاید اس کی حالت صومالیہ یا کانگو جیسی ہوتی۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ حقائق کو سامنے رکھا جائے تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔
پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ غیرقانونی تجارت اور ڈرگز کی اسمگلنگ ہے۔ اسمگلنگ نے پاکستان کی مالیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر ریونیو کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ نقصان ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے اور پاکستان کے اندر بلیک منی ہولڈرز سسٹم کو کرپٹ کر کے پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ اسمگلنگ کے خلاف تمام اداروں کو اپنی کوششیں مزید تیز کرنے، اہم شہروں میں سیف سٹی منصوبوں کو جلدازجلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وفاقی اور وفاقی اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ضلعی اداروں کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اپنے حصے کی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک شہروں، قصبوں اور دیہات میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔
سیف سٹی کیمرے جرائم پر قابو پانے کے لیے اہم ہتھیار ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی اور سرکاری عملے کی جوابدہی کے لیے بھی تمام سرکاری دفاتر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور ان کیمروں کا کنٹرول مرکزی کنٹرول سسٹم میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کی ساری کارروائی سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہونی چاہیے۔ اس سے سرکاری مشینری کی کارکردگی میں خاطرخوا اضافہ ہو گا اور عوامی مسائل میں کمی ہو گی جب کہ جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کے دورہ کے دوران ٹیکس نظام میں بہتری، شفافیت، اور افسران کی کارکردگی کی جانچ کے لیے مکمل خودکار نظام کے اجرا کی منظوری دی، جس کے تحت افسران کو ترقی اور مالی مراعات کارکردگی کی بنیاد پر دی جائیں گی۔
نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دہانی کرائی کہ نئے نظام کے تحت شاندار کارکردگی دکھانے والے افسران کو30 لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہیں دی جائیں گی، ساتھ ہی ناقص کارکردگی اور کرپشن میں ملوث افسران کو نہ صرف ایف بی آر بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی۔
وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم بات ٹیکس لاز میں تبدیلیاں بھی لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس قوانین واضح اور ابہام سے پاک ہونے چاہئیں۔ اسی طرح افسران کے اختیارات کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کے حوالے سے بھی قوانین واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
افسران اور دیگر عملے کو یکطرفہ اختیارات دینے سے ممکن ہے ریونیو کے اہداف تو حاصل کیے جا سکیں لیکن ان اختیارات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی حق تلفی بھی ہو سکتی ہے اور ان سے ناانصافی ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری افسروں کو حاصل قواعد وضوابط کے اختیارات کو بھی واضح طور پر ان کے آفس کے باہر آویزاں کرنا چاہیے تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ افسر کے پاس کس قسم کے اختیارات موجود ہیں اور اگر وہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف کن کن قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ افسروں کے کمروں کے اندر اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں تاکہ پتہ چل سکے کہ وہاں کون کون آیا اور کتنا کام ہوا۔ اس طریقے سے سرکاری کام میں شفافیت پیدا ہو گی۔
وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ قرضوں اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا ہے تو محصولات کو بڑھانا ہوگا، قرضوں کی زندگی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے، عدالتوں میں زیرالتوا کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں، ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التوا ہیں اور دوسری طرف ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرارہے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس، کسٹم، سیلزٹیکس، جعلی رسید وں کی دردناک کہانیاں بھی ہم سن چکے ہیں، ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرناہے،محصولات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27فیصد اضافہ لائق تحسین ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے،افسران محنت کریں اور قوم کی تقدیر بدلیں۔
عدالتوں سے23ارب روپے کا اسٹے آرڈر خارج ہوا توشام کو وہ پیسہ خزانے میں آگیا،البتہ ابھی گڈزکی مس ڈکلیئریشن سے متعلق کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا۔چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس میں کمپنی کی خطاہے یا اس نظام کا موثر استعمال نہیں کیا گیا؟ وزیرِ اعظم نے مالی سال2025 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.828 ارب ڈالر تک پہنچنے اور گزشتہ سال کے مقابلے 23فیصد اضافے کا خیر مقدم کیا۔
انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے آئی ٹی شعبے کو بروقت سہولیات کی فراہمی سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے۔انھوں نے کہا سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں ، انھیں ہر ممکن سہولیات دیں گے۔وزیراعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے اچھا رویہ رکھیں، سرمایہ کار ہمارے سرکا تاج ہیں، انھیں عزت اور ہر ممکنہ سہولت دینی ہے۔
پاکستان کی معیشت میں خاصی بہتری آئی ہے لیکن اگر ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے تو ٹیکس کولیکشن میں اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن شعبوں کو مختلف قسم کے ٹیکسز میں استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے نام پر جو مراعات یا ٹیکسز میں چھوٹ دی جاتی ہے، اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے یا عام عوام سے چندہ وصول کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جو سرمایہ دار یا خوشحال شخص کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ذاتی آمدنی سے کرے۔ سرکار سے مراعات لینا یا عام آدمی سے چندہ لینا بند ہونا چاہیے۔ کسی ٹرسٹ، وقف یا فلاحی ادارے کو زکوٰۃ اکٹھی کرنے، فطرانہ یا صدقات کے نام پر چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
اگر کسی کو کوئی مدد دینی بھی ہے تو وہ بذریعہ حکومت ہونی چاہیے تاکہ پورا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی قوانین کو دو ٹوک اور واضح بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے بااثر لوگوں کو مزید نوازنا ملک کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ قبائلی وڈیروں، گدی نشینوں اور بڑے بڑے جاگیرداروں سے ان کی طرززندگی کی مناسبت سے ٹیکس وصولی کا راستہ نکالنے کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔