دہشت گردوں کے عزائم کو کچل دیا جائے
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر بولان میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے اب تک سیکیورٹی فورسزکا آپریشن جاری ہے۔ آپریشن میں اب تک 155 یرغمال مسافروں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے جب کہ 27 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرایع کے مطابق دہشت گردوں نے خودکش بمباروں کو یرغمالی مسافروں کے پاس بٹھا دیا ہے۔کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
ٹرین کے معصوم مسافروں کو یرغمال بنا کر ظلم وستم کا بازارکرنا، انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے، دہشت گرد گروہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ریاست کو سرنگوں کر لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے، دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی دہشت گرد تنظیمیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان کا خاتمہ عبرتناک انجام کے ساتھ ہوا ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھرکالعدم بی ایل اے کا نام زیرِ بحث ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان میں ہونے والی متعدد کارروائیوں سمیت صوبے سے باہرکراچی میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج، چین کے قونصل خانے اور ایئرپورٹ پر ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول کرچکی ہے۔ بی ایل اے نے عسکری کارروائیوں کے لیے اپنا الگ سے یونٹ بنا رکھا ہے جسے مجید بریگیڈ کہا جاتا ہے۔
ظاہر ہے دہشت گردی کا بین الریاستی نیٹ ورک مقامی سہولت کاروں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ سہولت کارکو قانون کی زبان میں (abettor) بھی کہا جاتا ہے۔ جرم میں معاونت کرنے والا۔ ملک دشمن کو چھت فراہم کرنا، ٹرانسپورٹ دینا، مختلف جگہ اُسے متعارف کرانا، اُسے معلومات فراہم کرنا، اُس تک سرکاری راز پہنچانا، مالی لین دین کرنا، اُسے مظلوم بے گناہ ثابت کر کے بچانے کی کوشش کرنا، یہ سب سنگین جرام بھی سہولت کاری ہیں۔
البتہ یہ غلطی رہی ہے کہ صوبے میں آباد سیٹلرزکے حوالے سے جرأت مندانہ اخلاقی موقف نہیں اپنایا گیا۔گزشتہ برسوں میں ہزاروں بے گناہ نہتے، غریب پنجابی، سرائیکی اور اردو اسپیکنگ مار دیے گئے، ان کی لاشوں کا لہو لیڈروں کو نظر نہیں آیا۔ یہ جرأت نہیں ہوئی کہ پوری قوت کے ساتھ حق کی بات کہہ سکیں۔بلوچستان اور یہاں کے عوام کو خوف اور عدم تحفظ کا احساس دامن گیر رہا ہے۔ مردم کشی و بربادی کے ہولناک سانحات کا سامنا کرچکے ہیں۔
سیکڑوں ہزاروں لوگ انتقام کا نشانہ بن گئے۔ بلوچ سیاست میں تشدد اور شدت پسندی کا عنصر شامل ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے اس رجحان کو سنجیدہ ہی نہ لیا، بلکہ بعض جماعتوں اور شخصیات کی خاموشی و مبہم طرزِ عمل سیاست میں ان رویوں کے شامل ہونے پر ان کی رضا مندی ظاہرکرتی تھی۔اس خاموش حمایت کے تحت بلوچ طلبہ، سیاسی کارکن، وکیل، اساتذہ اور دانشور شدت پسندی کے رنگ میں رنگتے رہے۔ ریاست ان کی طرف متوجہ ہوئی اور مضبوط گرفت کر لی۔
مسلح گروہ نہیں چاہتے کہ بلوچ سیاسی جماعتیں پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا حصہ بنیں۔ اس بُرائی سے کئی دوسری برائیاں پیدا ہوئیں۔ ایک لمبے عرصے صوبے کے کئی علاقوں میں حکومت کی رٹ برائے نام ہو کر رہ گئی تھی۔ دہشت گرد مذہبی اور لسانی تنظیموں نے بھی اس کا فائدہ اُٹھایا اور اس آڑ میں اپنا نیٹ ورک مضبوط کرتی رہیں۔ ایک ستم یہ ہے کہ جن مذہبی جماعتوں پر پابندی عائد ہوتی ہے، وہ دوسرے نام کے ساتھ پھر سرگرم ہو جاتی ہیں۔
بلوچستان لیبر فیڈریشن کے مطابق کوئلہ کی کانوں پر حملے کے بعد کان کنوں نے بھی کام کرنے سے انکارکردیا تھا۔ اعداد وشمارکے مطابق اب تک 40 ہزار سے زائد کان کن اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ چکے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں اس سے قبل 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بھی دہشت گردی کی لہر چلی تھی جس کے نتیجے میں کئی افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس دوران بھی پنجابی بولنے والے افراد نے اپنی جائیدادیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر دیگر صوبوں کی جانب ہجرت کر لی تھی، تاہم دہشت گردی کے واقعات کے باعث ایک بار پھر بلوچستان سے لوگوں کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو مستقبل قریب میں لوگ بہت بڑے پیمانے پر صوبے سے ہجرت کر جائیں گے۔
دہشت گردی کے خلاف یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے، یہ سرحد پرکسی دشمن ملک سے نہیں بلکہ اندرکے دشمن کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ دشمن کو پہچاننا بھی مشکل ہے، اس کی وضع قطع، حلیہ وحال، زبان و بیان ہم سے مختلف نہیں۔ مزید مشکل یہ ہے کہ دشمن کو اندر سے سہولت کار بھی میسر ہیں، یہاں اسے مجاہد سمجھنے والے بھی ہیں۔
جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں، یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس جوش وخروش سے یہ جنگجو اورکلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبے سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ دراصل بلوچستان میں افغانستان اور ایران کی طویل سرحدیں ملتی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں سے دہشت گرد آسانی سے داخل ہوجاتے ہیں۔
ان دونوں ممالک میں بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اپنے تربیتی مراکز قائم کیے ہوئے ہیں جہاں سے ملک دشمن عناصر اسلحہ تربیت اور بھاری رقوم حاصل کر کے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان ان کی ہٹ لسٹ میں شامل ہے۔ جہاں مقامی سہولت کاروں کی وجہ سے انھیں پناہ گاہیں حاصل ہیں، دوسری جانب جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ افغان حکومت کی ٹی ٹی پی کی بھرپور پشت پناہی اور افغانستان کے اندر سے سہولت کاری ہے جس کے ٹھوس ثبوت پاکستان متعدد بار افغان حکومت کے حوالے کر چکا ہے۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپس کو ٹریننگ، اسلحہ اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ کھلی جارحیت ہے، جسے مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپس نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ کابل حکومت نے ان گروہوں کو تحفظ دے کر علاقے کے امن اور تحفظ کو شدید خطرات سے لاحق کر دیا ہے۔ پاکستان کے موقف کی مزید تصدیق تازہ ترین امریکی خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان تعمیر نو (SIGAR) نے 30 جنوری 2025 کو جاری ہونے والی اپنی سہ ماہی رپورٹ میں بھی کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق القاعدہ اور ٹی ٹی پی کو افغان حکومت پورا تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کو اربوں ڈالرکی فنڈنگ کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ طالبان کے اقدامات واضح دہرے معیار کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ ISIS-Khorasan (ISIS-K) کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف وہ القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) جیسے دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جو افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے لیے یہ منتخب طریقہ کار افغانستان میں انتہا پسندی اور تشدد کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے طالبان کے عزم کی کمی کو ظاہرکرتا ہے۔
افغانستان حکومت کا یہ رویہ دہشت گردی کے پھیلاؤ میں مزید معاون ثابت ہو رہا ہے جہاں عسکریت پسند گروپوں کو ملک کے اندر پناہ گاہیں اور حمایت حاصل ہے، جس سے علاقائی استحکام کو خطرہ ہے۔ انھی وجوہات کی وجہ سے امریکا کی طرف سے افغانستان کے لیے مختص تقریباً 4 بلین امریکی ڈالرکو روکنے کا فیصلہ ایک دانشمندانہ اقدام ہے۔ پاکستان میں موجود افغان باشندے بڑھتی دہشت گردی، جرائم اور امیگریشن کے ناقص نظام کے باعث وسائل پر بوجھ ہیں۔
اس تمام صورتحال میں حکومت پاکستان کو نئی امریکن انتظامیہ کے ساتھ اس معاملے کو اٹھانا چاہیے پاکستان اور امریکن حکومت دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ لڑتے رہے ہیں ۔ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کو اپنی عالمی ذمے داریوں اور وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔ دہشت گرد تنظیمیں اور گروہ کسی ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ان کا مائنڈ سیٹ جرائم پیشہ مافیا ڈانزکی طرح ہوتا ہے۔
افغان حکومت دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے اور عالمی برادری سے کیے ہوئے اپنے وعدے کی پاسداری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے لٰہذا اب وقت آگیا ہے کہ علاقے کے دوسرے ممالک چین اور روس کو کھل کر پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ متفقہ حکمت عملی کے تحت افغان حکومت کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے اور دہشت گردی میں ملوث دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے۔ دونوں ملکوں کا امن ترقی اور استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ دہشت گردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔
پاکستان کی یہ قربانیاں خطے اور عالمی امن کی خاطر اس کی ثابت قدمی کی ایک روشن دلیل ہے۔ پاکستان کے خلاف جس طرح دہشت گرد تنظیمیں اور ان کے سہولت کار متحد ہو چکے ہیں۔ یہ اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں کھل کر دہشت گرد قوتوں اور ان کے سہولت کاروں کو واضح طور پر یہ پیغام دیں کہ پاکستانی قوم اس معاملے میں پوری طرح متحد ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والی تمام قوتوں کو آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان میں دہشت گردی کے سہولت کاروں افغان حکومت کے مطابق فراہم کر کے خلاف کے ساتھ کے بعد کے لیے رہی ہے گیا ہے
پڑھیں:
مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔