جعفر ایکسپریس آپریشن کامیاب، اقتدار کی ہوس میں کچھ عناصر قومی مفاد کو بھی بھیٹ چڑھا رہے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
جعفر ایکسپریس آپریشن کامیاب، اقتدار کی ہوس میں کچھ عناصر قومی مفاد کو بھی بھیٹ چڑھا رہے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر WhatsAppFacebookTwitter 0 12 March, 2025 سب نیوز
راولپنڈی (سب نیوز)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جعفر ایکسپریس حملے پر آپریشن کے حوالے سے کہا ہے کہ تمام دہشگردوں کو ہلاک کردیا گیا، آپریشن میں آرمی، ایئرفورس، ایف سی اور ایس ایس جی نے حصہ لیا۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے دہشت گردوں نے 21شہریوں کو شہید کیا، مرحلہ وار یرغمالیوں کو رہا کرایا گیا۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ 11 مارچ کو تقریبا ایک بجے دہشت گردوں نے بولان پاک کے علاقے اوسی پور میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا، وہاں جعفر ایکسپریس ٹرین آرہی تھی، ریلوے حکام کے مطابق اس ٹرین میں 440 مسافر موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دشوار گزار علاقہ ہے، دہشتگردوں نے پہلے یہ کیا کہ یرغمالیوں کو انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کیا، جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، بازیابی کا آپریشن فوری طور پر شروع کر دیا گیا، جس میں آرمی، ایئر فورس، فرنٹیئر کور اور ایس ایس جی کے جوانوں نے حصہ لیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مرحلہ وار یرغمالیوں کو رہا کروایا گیا، یہ دہشتگرد دوران آپریشن افغانستان میں اپنے سہولت کاروں اور ماسٹر مائینڈ سے سیٹلائیٹ فون کے ذریعے رابطے میں رہے، کل شام تک 100 کے لگ بھگ مسافروں کو دہشتگردوں سے بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ آج بھی بڑی تعداد میں یرغمال مسافروں کو بشمول خواتین اور بچوں کو بازیاب کروایا گیا اور یہ سلسلہ وقتا فوقتا جاری رہا، شام کو جب فائنل کلیئرنس آپریشن ہوا ہے، اس میں تمام مغوی مسافروں کو بازیاب کروایا گیا، کیونکہ یہ دہشت گرد مسافروں کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کررہے تھے اس لیے انتہائی مہارت اور احتیاط کے ساتھ یہ آپریشن کیا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ سب سے پہلے فورسز کے نشانہ بازوں نے خودکش بمباروں کو جہنم واصل کیا، پھر مرحلہ وار بوگی سے بوگی کلیئرنس کی اور وہاں پر موجود تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہاں پر موجود تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے، اور ان کی کل تعداد 33 ہے، کلیئرنس آپریشن کے دوران کسی بھی معصوم مسافر کو نقصان نہیں پہنچا، لیکن کلیئرنس آپریشن سے پہلے جو مسافر دہشتگردوں کی بربریت کا شکار ہوئے اور شہید ہوئے، ان کی تعداد 21 ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ ریلوے پکٹ پر تعینات 3 ایف سی جوان شہید ہوئے جبکہ کل ایف سی کا ایک جوان دوران آپریشن شہید ہوا۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ موقع پر موجود تمام دہشت گرد ہلاک کیے جا چکے ہیں، تاہم علاقے اور ٹرین کی کلیئرنس اور جانچ پڑتال ایس او پی کے مطابق بم ڈسپوزل اسکواڈ کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مغوی مسافر جو آپریشن کے دوران دائیں، بائیں علاقوں کی طرف بھاگے ہیں، ان کو بھی اکٹھا کیا جارہا ہے، یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ کسی کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ وہ پاکستان کے معصوم شہریوں کو سڑکوں پر، ٹرینوں میں، بسوں میں یا بازاروں میں اپنے گمراہ کن نظریات اور اپنے بیرونی آقاں کی ایما اور ان کی سہولت کاری پر نشانہ بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، بالکل واضح کردوں کہ ان کو مارا جائے گا اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جعفر ایکسپریس کے واقعے نے گیمز کے رولز تبدیل کر دیے ہیں، کیونکہ ان دہشتگردوں کا دین اسلام، پاکستان اور بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ جو لال دائرے میں تین کالے بلاگ نظر آرہے ہیں، یہ وہ جگہ ہے، یہ تین ٹولیاں ہیں، جس میں انہوں نے معصوم مسافروں کو بٹھایا ہوا تھا، اس کے ساتھ خودکش بمبار بیٹھے ہوئے تھے، یہی وجہ تھی کہ ہم بہت محتاط تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جو فائنل کلیئرنس آپریشن ہوا، اس سے پہلے جو ہمارے جوان ہیں، انہوں نے پہلے خودکش بمباروں کا خاتمہ کیا، اس کے بعد یرغمال بنائے گئے مسافر وہاں سے بھاگے، اسی طرح جو پارٹی آپریشن کر رہی تھی، وہ بوگی میں گئی اور وہاں پر بھی پہلے خودکش بمباروں کو جہنم واصل کیا اس کے بعد بوگی سے بوگی کو کلیئر کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس لیے کلیئرنس آپریشن کے دوران کسی بھی مسافر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، اس آپریشن میں پاکستان ایئر فورس بھرپور طریقے سے شامل تھی اور ان کی پوری سپورٹ تھی اس آپریشن میں۔ان کا کہنا تھا کہ بہت ہی پروفیشنل طریقے سے آپریشن کیا گیا ہے، اور تمام 33 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔
سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ جیسے ہی واقعہ ہوتا ہے کہ تو چند منٹوں میں بھارتی میڈیا میں نہ صرف اس واقعے کی گمراہ کن رپورٹنگ شروع ہو جاتی ہے، پرانی تصاویر، پرانی فوٹیجز کے علاوہ مصنوعی ذہانت سے بنی ہوئی ویڈیوز اور تصاویر بھی نشر کرنا شروع کر دی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردوں اور ان کے آقاں کا گٹھ جوڑ پوری دنیا کے سامنے واضح ہو جاتا ہے، یہ پہلے بھی واضح ہے، جب کلبھوشن یادیو کا واقعہ ہوا کہ کس طرح وہ بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی کچھ مخصوص سیاسی عناصر بھی بڑھ چڑھ کر اپنے سوشل میڈیا کو فعال کر لیتے ہیں، اور بجائے اس کے وہ ریاست پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، وہ دہشت گردی کے اس بھیانک عمل کے لیے بے بنیاد جواز پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ کچھ ذاتی اقتدار کی ہوس میں کچھ عناصر قومی مفاد کو بھی بھیٹ چڑھا رہے ہیں، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے باشعور عوام ان تمام چیزوں کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ انتشاری سیاست کی پیچھے جو پیچیدہ ہاتھ ہیں، ان کو سمجھ آ رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر اندورنی امن عامہ اور قانون کا نفاذ کس کی ذمہ داری ہے، جو لوگ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایسے جھوٹے بیانیے بناتے ہیں، ان کو چاہے کہ پہلے خود تو اس معاملے میں قانون کا احاطہ کر لیں کہ آئین اور قانون اس معاملے میں کیا کہتا ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو دہشتگردی ہے، روزانہ کی بنیاد پر 107 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن افواج پاکستان کرتی ہے، آئے روز ہماری شہادتیں اور قربانیاں اس قوم، پوری دنیا کے سامنے مزاحمت کی علامت ہیں۔لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اصل جو سوال ہے کہ جس کی وجہ سے گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، وہ تو یہ ہے، یہ بتایا جائے کہ وہ تمام عوامل جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہیں، اور جن میں لیڈ سیاسی اور معاشرتی ایلیٹ نے لینی ہے، اس کا کیا کرنا ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جنرل احمد شریف چوہدری ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان کا کہنا تھا کہ کلیئرنس آپریشن جعفر ایکسپریس کو جہنم واصل نے بتایا کہ مسافروں کو آپریشن کے نے کہا کہ انہوں نے سے پہلے رہے ہیں کو بھی اور ان
پڑھیں:
بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور، ایف بی آر پر تجربہ کامیاب
ملک میں سول سروس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافے کیلئے بڑی اصلاحات لائی گئی ہیں اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کیلئے ایف بی آر میں ایک نئی پرفارمنس مینجمنٹ اسکیم متعارف کرائی گئی جسے سینٹرل سپیریئر سروسز کی تمام سروسز اور کیڈرز تک وسعت دی جائے گی تاکہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹس (پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹس) ’’پی ای آرز‘‘ کے موجودہ ناقص اور ہیرا پھیری پر مبنی نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سکیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے معاملے میں کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (جسے انکم ٹیکس گروپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے) کے 98 فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔گزشتہ نظام کے تحت، کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی 99؍ فیصد تعداد کو ان کی دیانتداری کے لحاظ سے بہترین (’’اے کیٹگری‘‘) قرار دیا جاتا تھا۔ نئے نظام کے تحت بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو دوسروں کے مقابلے بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔ کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے کے پیکیج کا ہر 6 ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کی دیگر تمام سروسز اور کیڈرز کیلئے ایف بی آر کے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کرے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام ملک کی سول سروسز کی کارکردگی اور اس کے موثر ہونے کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دے گا۔ نیا نظام موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا آئیڈیا ہے، جنہوں نے اپنی ٹیم کے تعاون سے پوری اسکیم کو ڈیزائن، اس کا تجربہ اور پھر کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ہر افسر کے گزشتہ 6 ماہ کے جائزے کے دوران اسے کامیابی سے نافذ کیا۔ ماضی میں تقریباً ہر افسر کو اس کی ساکھ اور کارکردگی سے قطع نظر ’’شاندار‘‘ ’’بہت اچھا‘‘ اور ’’بہت ایماندار‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب نئے نظام کے تحت، ’’اے‘‘ کیٹیگری سے ’’ای‘‘ کیگٹری تک کی ہر کیٹیگری میں 20؍ فیصد افسران ہوں گے جن کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔
نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ ایف بی آر کے معاملے میں، اے کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی ہے، بی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو تین گنا، سی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو دو گنا جبکہ ڈی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو ایک اضافی تنخواہ مل رہی ہے۔ای کیٹگری کے افسران کیلئے کوئی اضافی معاوضہ نہیں۔ اس اسکیم کا ہر 6؍ ماہ بعد انفرادی لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا۔ ایف بی آر کے افسران کے معاملے میں شاید ہی چند ارب روپے کا ہی اضافی بوجھ ہو۔ کارکردگی جانچنے کے اس نئے نظام کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے نہ اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی فرد، سینئر حتیٰ کہ حکمرانوں کی خواہشات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔ اس سسٹم کے تحت، پہلے ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجربہ کرکے اسکیم پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہر افسران کا 45 ساتھیوں (سینئرز، جونیئرز، سول سروس کے ساتھیوں اور بیچ میٹ) کے ذریعے ہر 6 ماہ بعد گمنام انداز سے فورسڈ رینکنگ سسٹم کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فورسڈ رینکنگ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 5 کیٹگریز میں ہر ایک میں20 فیصد افسران تک محدود رکھا جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سروس یا کیڈر میں 20 فیصد سے زیادہ ’’شاندار‘‘ کارکردگی والے افسران نہیں ہوں گے۔ 45 ساتھیوں کی شناخت کو مکمل طور پر گمنام رکھنے کیلئے جدید سائبر سیکیورٹی ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے اور سسٹم کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔ سسٹم تک رسائی چیئرمین ایف بی آر اور ایف بی آر کے تین ممبران کو ہو گی تاہم ان میں سے کوئی بھی شخص کسی افسر کی رپورٹ کو تبدیل یا اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ ایف بی آر کے تینوں ممبران ڈیٹا تک صرف مشترکہ انداز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اور ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے کسی بھی غیر مجاز حرکت یا سرگرمی کی اطلاع 5 مختلف افراد تک پہنچ جائے گی تاہم، رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی ممکن نہیں ہوگی۔45 افراد کو منتخب کرنے کیلئے ایک چار سطحوں پر مشتمل ایک طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اُس افسر کو ممکنہ طور پر جانتے ہیں جس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ دیانتداری پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تکنیکی ٹیم افسر کے کام کے معیار کا بھی جائزہ لے گی۔تکنیکی پینل، جس میں ایف بی آر کے ریٹائرڈ افسران اور دیگر ٹیکس پریکٹیشنرز شامل ہیں، ڈیجیٹائزڈ سسٹم کے ذریعے بے ترتیب (رینڈم) انداز سے منتخب کردہ افسران کے کام کے معیار کا جائزہ لے گا۔ ایف بی آر نے نئی حکومت کے تحت گزشتہ 6 ماہ سے اپنے تمام افسران کا جائزہ (اسیسمنٹ) کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔