غزہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 مارچ ۔2025 ) اسرائیلی آبادکاروں نے اسلحہ کے زور پر وادی اردن میں بدو برادری کی15سو بھیڑیں اٹھاکرلے گئے وادی اردن میں یہ حالیہ سب سے بڑے واقعات میں سے ایک ہے جس میں علاقے میں بدوﺅں پر حملہ کیا گیا اور انہیں ہراساں کیا گیا.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق غزہ کی لڑائی شروع ہونے کے بعد سے علاقے میں اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے شہر جیریکو کے شمال میں عین العوجا کے قریب ہونے والے واقعے کی شدت اس سے کہیں زیادہ ہے متاثرہ عرب بدوہانی زاید نے بتایا کہ یہ اب تک کا سب سے بڑا واقعہ تھا ہم لوگوں نے حملے میں 70 بھیڑیں کھو دی ہیںقانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ برسوں کے تجربے کے بعد پولیس سے مدد کی اپیل کرنے کے خیال کا بھی کوئی فائدہ نہیں.

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کچھ نہیں کرتی کبھی بھی کسی کام میں ہماری مدد نہیں کی اگر آپ انہیں بتائیں کہ آباد کار آپ کی بھیڑوں کو لے جا رہا ہے تو وہ پوچھیں گے کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ آپ کی ہے؟ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور پولیس کی نگرانی میں تقریباً 1500 بھیڑ بکریوں کویہودی آبادکار اپنے ساتھ لے گئے مقامی باشندوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ وادی اردن جو دریائے اردن کے قریب نسبتاً کم آبادی والا علاقہ ہے وہاںآباد کاروں کے دباﺅ میں اضافہ ہورہا ہے بہت سے بدو چرواہوں کے لیے بھیڑ کھونے کا مطلب معاش کمانے کا ذریعہ کھو دینے کے مترادف ہے بہت سے فلسطینیوں کی طرح عین العوجا کے نیم خانہ بدوش چرواہوں کا خیال ہے کہ یہودی آباد کاروں کا بڑا مقصد انہیں زمین سے بے دخل کرنا ہے تاکہ اسرائیل کا مکمل قبضہ ہوجائے.

قبائیلوں کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ تقریباً 40 سال پہلے قائم کیا گیا تھا اور اس میں موبائل سولر پینلز سے پیدا ہونے والی بجلی کے علاوہ کوئی بجلی نہیں ہے پانی ٹینکروں کے ذریعے لایا جاتا ہے حالانکہ چند سو میٹر کی دوری پر ایک بڑا چشمہ ہے جو صرف آباد کاروں کے استعمال کے لیے مختص ہے بتایا گیا ہے کہ بھیڑیں چھیننے اور چوری کرنے کا یہ واقعہ رات 9 بجے کے قریب اس وقت شروع ہواجب اسرائیلی آباد کاروں نے اپنی ہی کچھ بھیڑوں کو بدو کیمپ میں دھکیلا اور بدوﺅں پر چوری کا الزام لگاتے ہوئے پولیس کو بلالیا انہوں نے بتایا کہ پک اپ ٹرکوں میں سوار کئی مسلح آباد کار پولیس اور فوجیوں کے ساتھ پہنچے جو لوگوں کے گھروں میں گھس آئے اور بھیڑ بکریوں کو لے گئے.

اسرائیلی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ”مسٹاکلیم“ کے کارکنوں نے بھیڑ بکریوں کو رات کے وقت بھگانے کی ویڈیو بنائی اس گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک اسرائیلی رضاکار گیلی ایویڈور نے کہا کہ یہ سب کچھ بہت تیزی سے ہوا تھا انہوں نے کہا کہ تقریباً ایک درجن گاڑیوں میں نقاب پوش آباد کار پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ کیمپ میں داخل ہوئے آباد کاروں کو گھروں میں داخل ہوتے دیکھا اور بعد میں سینکڑوں بھیڑوں کو باہر نکال کر لے گئے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ آباد کاروں وادی اردن لے گئے

پڑھیں:

گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟

یقین کریں… آپ نے بھی ہماری طرح یہ حرکت تو ضرور کی ہوگی، کہ چپس، چاکلیٹ یا شاید گرما گرم سموسہ نیچے گرا… اور آپ نے فوراً نظریں دوڑائیں، تیزی سے اسے اٹھایا، اور منہ میں ڈال لیا!
کیوں؟ کیونکہ آپ نے دل ہی دل میں کہا ہوگا: ’پانچ سیکنڈ نہیں ہوئے… ابھی کھایا جا سکتا ہے!‘۔

لیکن… اگر ہم آپ سے کہیں کہ یہ پانچ سیکنڈ والا رول صرف ایک جھوٹ ہے؟ جی ہاں، آپ برسوں سے ایک غلیظ فسانے کے ہاتھوں بےوقوف بن رہے ہیں!

”خان رول“ — جرم کی ابتدا!
پانچ سیکنڈ کا یہ عجیب قانون آخر آیا کہاں سے؟

1995 میں پہلی بار یہ اصول چَھپ کر سامنے آیا، مگر اس کا اصل قصہ تو بارہویں صدی میں، چنگیز خان کے زمانے سے جُڑا ہے۔

جی ہاں! افسانوی منگول فاتح چنگیز خان کے دربار میں ایک اصول تھا: ”جو کھانا خان کے لیے بنایا گیا ہے، وہ اتنا پاک ہے کہ اگر زمین پر بھی گر جائے، تب بھی کھانے کے قابل ہے!“

چاہے کھانے کے ذرے فرش پر کتنی دیر بھی پڑے رہیں — بس آنکھوں دیکھی مٹی جھاڑو، اور کھا جاؤ!

اس زمانے میں جراثیم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ صفائی کا مطلب تھا: ”جو نظر آئے، اسے صاف کرو… باقی اللہ مالک!“

لیکن پھر سائنس بولی: ”خان صاحب، آپ غلط تھے!“
انیسویں صدی میں لؤی پاسچر نے سائنس کی دنیا کو چونکا دیا۔

انہوں نے بتایا کہ جراثیم نہ صرف موجود ہیں، بلکہ وہ ہر جگہ ہیں! ہوا میں، ہاتھوں پر، کپڑوں میں، اور زمین پر بھی!

مگر اس کے باوجود، پانچ سیکنڈ والا یہ جھوٹ صدیوں تک زندہ رہا۔

اور پھر آئی تباہ کن تحقیق!
2016 میں ایک امریکی سائنسدان، پروفیسر ڈونلڈ شیفر نے پانچ سیکنڈ رول کی دھجیاں اُڑا دیں۔

انہوں نے دو سال ایک تحقیق کی، جس میں کھانے کی مختلف اشیاء مثلاً مکھن لگی بریڈ، بغیر مکھن کی بریڈ، سٹرابری کینڈی اور تربوز کو مختلف سطحوں پر گرایا: لکڑی، ٹائل، اسٹیل، اور یہاں تک کہ کارپٹ پر بھی۔

اور ہر بار وقت بدلا گیا: ایک، پانچ، تیس، اور تین سو سیکنڈ۔ کُل 2560 تجربے کیے گئے۔

نتیجہ؟
جتنی بھی جلدی کھانے کو زمین سے اٹھا لیں — وہ جراثیم سے بچ نہیں سکتا!

کچھ دلچسپ حقائق:

حیرت انگیز طور پر کارپٹ پر جراثیم کی کھانے ممیں منتقلی سب سے کم تھی۔ کیونکہ اُس کی سطح اونچی نیچی ہوتی ہے، اور کھانے کو کم چھوتی ہے۔

سب سے زیادہ جراثیم چوسنے والی چیز نکلی تربوز! کیونکہ وہ گیلا ہوتا ہے، اور جراثیم کو نمی چاہیے ٹرانسفر ہونے کے لیے۔

خشک چیزوں جیسے ٹافی یا روٹی پر تھوڑے کم جراثیم چپکتے ہیں، لیکن ”کم“ کا مطلب ”صفر“ نہیں!

تو، اگلی بار کیا کریں؟
جب ٹافیاں، چپس یا فرائز نیچے گریں تو ”پانچ سیکنڈ“ گننے کی بجائے، سیدھا اسے کوڑے دان میں ڈالیں۔

کیونکہ جراثیم نظر نہیں آتے، مگر آپ کا پیٹ، آپ کی صحت، آپ کی ذمہ داری ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • وفاقی دارالحکومت میں نجی سیکورٹی کمپنیز اور گارڈز کی انسپکشن ، نجی سیکورٹی کمپنی کا منیجر ،بغیر لائسنس اسلحہ استعمال کرنے والے گارڈزگرفتار
  • عمران خان سے ملاقات نہ کرنے دینا بچگانہ جبر ہے، سلمان اکرم راجہ
  • خواتین کے ذریعے شہریوں کو ہنی ٹریپ کرنے والے 2 گینگ گرفتار، تہلکہ خیز انکشافات
  • بنگلہ دیش کا انٹرپول سے حسینہ واجد سمیت 12افراد کیخلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کا مطالبہ
  • دیامر پولیس کی کارروائی، بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد، ایک ملزم گرفتار
  • پنجاب غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ اور پرکشش مقام ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھا لیا
  • وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں "بین المسالک بیداری کانفرنس" کا اہتمام
  • گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
  • مسیحی برادری آج ایسٹر منائے گی، سیکیورٹی کے سخت انتظامات