Islam Times:
2025-04-22@06:27:36 GMT

 آہ۔۔۔۔۔ قاضی غلام شبیر علوی

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

 آہ۔۔۔۔۔ قاضی غلام شبیر علوی

اسلام ٹائمز: جب قاضی صاحب مقررہ تاریخ پر تشریف لائے اور انکی زیارت ہوئی تو وہ ڈیل ڈول، ریش، لباس اور حلیے سے کسی طرح بھی ایک شیعہ عالم نہیں لگتے تھے، لیکن مجلس سے پہلے اور بعد جتنی دیر ہمارے پاس رہے، اپنی گفتگو اور انتہائی مشفقانہ رویئے کیوجہ سے محفل میں بیٹھے افراد کے دل و دماغ پر چھاتے چلے گئے۔ ایک ایک جملے کیساتھ دس دس دعائیں دیتے تو پاس بیٹھے افراد کا دل چاہتا کہ کاش محفل جمی ہی رہے اور قاضی صاحب بولتے اور دعائیں دیتے ہی رہیں۔ 1996ء کی یہ مجلس قاضی صاحب کو ہمارے گاؤں کی سالانہ مرکزی مجلس کا حصہ بنا گئی اور وہ ایک طویل عرصے تک پڑھتے رہے۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر

سرو صنوبر شہر کے مرتے جاتے ہیں
سارے پرندے ہجرت کرتے جاتے ہیں
گذشتہ کل سے پیوستہ شب میں ملتان سے گلستانِ گلاب سے قبلہ علامہ سید علی رضا نقوی کی موت کی خبر ملی کہ جن کی۔ نماز جنازہ کل سہ پہر ملتان میں ان کے بھائی جناب علامہ سید محمد تقی نقوی کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد جامعہ محزن العلوم جعفریہ شیعہ میانی ملتان میں ان کے والد بزرگوار کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ابھی ان کی تدفین کی پہلی رات تھی کہ ملتان سے ہی ایک اور افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ قبلہ علامہ قاضی غلام شبیر علوی بھی اس دارالافتاء سے کوچ کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاضی غلام شبیر علوی صاحب نہ صرف ایک بزرگ عالم دین، ایک شفیق انسان، ڈوب کر دعا کرنے والے مخلص مربی اور بہترین استاد تھے بلکہ وہ روانی سے مدلل اور بھرپور گفتگو کرنے والے انتہائی شیریں بیاں ایسے مقرر بھی تھے، کہ جن کی گفتگو سننے والوں کو خود میں جذب کر لیتی تھی۔

قبلہ قاضی غلام شبیر علوی صاحب کا ہر مجلس کی ابتدا میں بولا جانے والا یہ بہت خوبصورت، ٹھوس اور مدلل جملہ نہ صرف ان کی پہچان بن چکا تھا بلکہ ان کے سامعین میں زباں زدِ عام بھی تھا فرمایا کرتے تھے "ابتدائے کلام میں قاضی غلام شبیر حسین نے قرآن مجید کی آیت مبارکہ اور نبی رحمت کے فرمان ذیشان کو اس لیے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے، تاکہ اپنے شیعہ سنی بھائیوں کو بتا دے کہ مذہب شیعہ، اثناء عشریہ، خیرالبریہ کسی کے تصورات و تخیلات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ عظیم مذہب ہے، جس کی بنیاد اللہ کے قرآن پر ہے یا مصطفیٰ کے فرمان پر ہے۔؟" میرا قبلہ قاضی غلام شبیر علوی صاحب سے پہلا تعارف اس وقت ہوا، جب وہ 1996ء میں ہمارے گھر میری ہمشیرہ مرحومہ کی برسی پر ایصال ثواب کی مجلس پڑھنے تشریف لائے۔ ان کو مجلس کی دعوت جنڈ سے ہمارے مرحوم دوست ملک غلام شبیر کے توسط سے دی گئی تھی۔

جب قاضی صاحب مقررہ تاریخ پر تشریف لائے اور ان کی زیارت ہوئی تو وہ  ڈیل ڈول، ریش، لباس اور حلیے سے کسی طرح بھی ایک شیعہ عالم نہیں لگتے تھے، لیکن مجلس سے پہلے اور بعد جتنی دیر ہمارے پاس رہے، اپنی گفتگو اور انتہائی مشفقانہ رویئے کی وجہ سے محفل میں بیٹھے افراد کے دل و دماغ پر چھاتے چلے گئے۔ ایک ایک جملے کے ساتھ دس دس دعائیں دیتے تو پاس بیٹھے افراد کا دل چاہتا کہ کاش محفل جمی ہی رہے اور قاضی صاحب بولتے اور دعائیں دیتے ہی رہیں۔ 1996ء کی یہ مجلس قاضی صاحب کو ہمارے گاؤں کی سالانہ مرکزی مجلس کا حصہ بنا گئی اور وہ ایک طویل عرصے تک پڑھتے رہے۔ میرے والد محترم جو سنی العقیدہ تھے، قاضی صاحب ان کے بھی پسندیدہ عالم بن گئے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں باقاعدہ پوچھتے کہ قاضی صاحب کو بلا رہے ہو یا نہیں، یوں ان کی خواہش پر قبلہ قاضی صاحب ایک طویل عرصے تک ہمارے ہاں 5 محرم الحرام کی سالانہ مجلس سے خطاب فرماتے رہے۔

پھر ایک طویل وقفہ یوں آگیا کہ قاضی صاحب کچھ تو مدرسے کے کاموں میں مصروف ہوگئے اور کچھ عشرہ محرم الحرام کی مجالس ہمارے علاقے سے دور پڑھنے لگے تو ہمارے ہاں نہ آسکے۔ ابھی چند سال پہلے ایک بار پھر میں نے رابطہ کیا تو فرمانے لگے کہ میں بیمار بھی ہوں اور مجھے رات 12 بجے مجلس کے بعد لگاتار سفر بھی کرنا پڑے گا، لیکن آپ کی محبت ہے، میں ان شاء اللہ آنے کی پوری کوشش کروں گا اور پھر تشریف لائے، یہ آخری ملاقات تھی۔ دورِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد بین المسلمین ہے اور قبلہ صاحب جیسے انتہائے شفیق اور محبت کرنے والے انسان اس مقدس کام کے لیے ہروقت میدان عمل میں موجود رہتے۔ جب تک صحت ٹھیک تھی تو حج و عمرہ اور زیارات پر قافلے لے کر جاتے تھے تو ان کے قافلوں میں برادران اہل سنت بھی اسی چاہ اور محبت سے ہمسفر بنتے۔

جس کی ایک مثال ہمارے قریبی گاؤں ناڑہ (ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی کا آبائی گاؤں ہے) سے محترم جناب عطا رسول صاحب اور ان کے ساتھیوں کا قافلہ تھا، جو کئی سالوں بعد ابھی بھی اس سفر کے دوران قاضی صاحب کی محبت و شفقت کو یاد کرتے ہیں۔ پچھلے سال سوشل میڈیا امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ڈویژنل کنونشن میں دیکھا اور گفتگو سنی تو حوصلہ ہوا کہ ماشاء اللہ قبلہ صاحب کی صحت ٹھیک ہے، لیکن پھر وقتاً فوقتاً ملی جلی خبریں آتی رہیں، کبھی ہسپتال کبھی گھر اور بالآخر آج بارگاہ خداوندی میں منتقل ہوگئے۔
خاموش ہوگیا اک چمن بولتا ہوا
یہ درویش صفت انسان صرف کہنے کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں فقیر انسان تھے اور مجالس میں بھی کہا کرتے تھے کہ مجھ فقیر کی نیاز دو نعرے ہیں، کتنا جچتا تھا۔

ان کی زباں پر یہ جملہ کہ امیر المومنین، امام المتقین، لنگرِ آسمان و زمیں علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور کبھی کبھی جھومتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ
کیسے کہہ دوں میں علی (ع) کو مولائے کائنات
بڑا ہے نامِ علی کائنات چھوٹی ہے
اور آج جب آخری لمحات کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے کہ جس میں مطمئن چہرے کے ساتھ اپنے چاہنے والوں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کر رہے ہیں تو بالکل ایسے لگ رہا ہے کہ اپنے مولا علیہ السلام کی زیارت کرتے ہوئے اپنے گرد موجود عزیز و اقارب کو کہہ رہے ہیں خدا حافظ
میں چلا ہوں علی (ع) سے ملاقات کو
جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئی

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قاضی غلام شبیر علوی دعائیں دیتے بیٹھے افراد تشریف لائے ایک طویل اور ان ہے اور

پڑھیں:

کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے

اس بلاگ کی تحریک سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک تحریر اور ویڈیو بنی ہے۔ پہلے ہم تحریر پر بات کرلیتے ہیں۔ تحریر کچھ یوں تھی کہ ایک پاکستانی صاحب رمضان المبارک کے مہینے میں کسی غیر مسلم ملک کے دورے پر گئے۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو ان کے میزبان نے کہا کہ چلیے لنچ پر چلتے ہیں۔ ان پاکستانی صاحب نے کہا کہ وہ لنچ نہیں کرسکتے۔ میزبان کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ وہ روزے سے ہیں۔

میزبان نے پوچھا کہ یہ روزہ کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے روزے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ہم اللہ کے حکم سے سورج طلوع ہونے سے پہلے کھانا بند کر دیتے ہیں اور پھر سورج غروب ہونے پر اللہ کے نام سے افطار یا کھانا کھاتے ہیں۔

میزبان نے کہا کہ میں کھانا یہاں منگوا لیتا ہوں یہاں تمہیں کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا۔ اس پر بھی ان صاحب نے کہا کہ یہاں مجھے کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا مگر اللہ تو ہر جگہ ہے اور چونکہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس لیے میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس پر میزبان نے پوچھا کہ کیا تمھارے ملک کے تمام لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں؟ اس پر ان صاحب نے سینہ پھلا کر فخریہ انداز میں بتایا کہ ان کے ملک کا کیا بچہ کیا بڑا سب ہی ایسا سوچتے ہیں۔ 
میزبان نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ پھر تو تمھارے ملک میں کوئی جرم نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ اللہ تو ہر جگہ ہے اور وہ یقیناً دیکھتا ہوگا؟ وہ صاحب دورہ مکمل کرکے پاکستان واپس آگئے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے میزبان کی اس بات کا جواب نہیں دے پائے۔

دوسری تحریک جو ایک ویڈیو بنی وہ کچھ یوں تھی کہ ایک صاحب خریداری کےلیے دکان پر جاتے ہیں لیکن دکان پر دکاندار نہیں ہوتا۔ وہ کچھ چیزیں چرا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ یکایک ان کی نظر اوپر کیمرے پر پڑتی ہے جو دکاندار نے نصب کروایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ فوراً تمام چیزیں واپس اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ اتنے میں دکاندار واپس آجاتا ہے اور وہ اس کی سمجھداری کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے دکان سے چیزوں کی چوری سے بچاؤ کےلیے کیمرہ نصب کروا لیا ہے۔

دکاندار انھیں بتاتا ہے کہ کیمرہ تو لگوا لیا ہے پر ابھی وہ کارآمد نہیں کیونکہ ابھی تک اسے وقت نہیں ملا کہ وہ اس کا کنکشن کروا سکے۔ اس کے بعد اس گاہک کے ذہن پر کیا گزری ہوگی یہ میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔

ہم اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں یا کیمرے کی آنکھ سے؟ اس کا جواب کسی کے تخیل پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ ہمارا جواب دراصل ہمارے عقائد کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ من حیث القوم ہم چوری کرنے سے نہیں ڈرتے بلکہ چوری کرکے پکڑے جانے سے ڈرتے ہیں۔

یہ بات بھی کچھ لوگوں کےلیے ہی کہی جاسکتی ہیں۔ ہماری اشرافیہ تو چوری کرکے دو انگلیوں سے فتح کا نشان بھی بناتے ہیں اور ضرورت پڑے تو بیماری کی اداکاری کرکے اسپتال میں داخل بھی ہوجاتے ہیں۔ ملک میں کرپشن کے مقدمات اس کا عملی ثبوت ہے۔

ہم چاہیں زبانی طور پر چوری کی جتنی بھی مذمت کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے قول اور ہمارے افعال ایک نہیں اور بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

ہمارے بچپن میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی گناہ یا جرم کرنا ہے تو وہاں جاکر کروں کہ جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی تو کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا اس طریقے سے لوگوں کو گناہ اور جرم سے روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ آج کل ویسے بھی یہ سب باتیں کتابی لگتی ہیں۔ لوگوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہر جگہ جرم و گناہ کرو ماسوائے اس جگہ کے جہاں کیمرے لگے ہوں۔

ان دنوں جرائم کو بھی دو وسیع معنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نیلے کالر والے جرائم اور سفید کالر والے جرائم۔ نیلے کالر والے جرائم جیسے فون چھیننا، موٹر سائیکل یا گاڑی چوری کرنا وغیرہ۔ سفید کالر جرائم تو باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ جس میں بہت قابل اور تعلیم یافتہ لوگ آپ کےلیے کام کرتے ہیں۔ اس کام میں ایسا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی جمع پونجی خود ان کے حوالے کردیں یا لوگوں کی جیب سے اس طرح پیسے نکلوائے جائیں کہ لوگوں کا اس کا پتہ بھی نہ چلے اور اگر پتہ چل بھی جائے تو انگلی ان تک نہ پہنچ پائے۔ اسٹاک ایکسچینج اور جائیداد کی خرید و فروخت کے سودے اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اس سے زیادہ مثالیں آپ کےلیے نہ سہی مگر میرے لیے یقیناً مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے اس بات کو یہی روک دیتے ہیں۔

ہم لوگوں کو اس سے ڈر کیوں نہیں لگتا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے؟ اس کی وجہ وہ بے شمار وظائف، روایات اور رسومات ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرکے ہم اپنے تئیں گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جس طرح موٹر وے پر رفتار زیادہ ہونے کی ریکارڈنگ دکھا کر جرمانہ کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے تمام افعال بھی ریکارڈ ہورہے ہیں اور یوم الدین پر ہمارے اپنے اعضاء ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے اور اس وقت لوگوں کے حق کو کھانے والے کی سزا کی تلافی کسی عبادت کے وسیلے سے ممکن نہ ہوگی۔ لیکن ہاں عبادت کے بدلے شاید ممکن ہوں لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ اگر اس شخص کی رضا یا منشا ہو جس کا حق غصب کیا گیا تھا۔ اگر یہ سب کچھ کرکے آخر میں تہی دامن ہی ہونا ہے تو پھر آخرت میں کیوں اور دنیا میں کیوں نہیں کہ جہاں شاید اس کا ازالہ بھی ممکن ہے۔ 

اگر وقت ملے تو ضرور سوچیے گا ورنہ اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ جس کی من حیث القوم نہ ہم نے پہلے کبھی پروا کی تھی اور نہ آئندہ کی کوئی امید ہے کیونکہ اگر ہم نے پروا کی ہوتی تو آج اقوام عالم میں ہماری یہ عزت افزائی نہ ہورہی ہوتی اور آخرت میں کس کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • سپیکر خیبر پی کے کرپشن الزامات سے بری کمیٹی میں اختلافات
  • بجلی
  • اسپیکر بابر سلیم کو کرپشن الزامات میں کلین چٹ دینے پر پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی میں اختلافات
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے، آغا رفیق
  • سوشل میڈیا سے خوفزدہ لوگ اپنے غصے کو ٹھنڈا کریں، عارف علوی کا مشورہ
  • شہید علامہ عارف حسین الحسینی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، علامہ غلام حُر شبیری 
  • عمران خان جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کیلئے بات کریں گے، اعظم سواتی
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے
  • سیاسی سسپنس فلم کا اصل وارداتیا!