اسلام میں ایک دوسرے کے حقوق
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
دین اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے ہم کلمہ گو مسلمان حقوق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں الحمدللہ نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ میں بھرپور فرض شناسی کی کوشش کرتے ہی ہیں لیکن حقوق العباد کے معاملے میں اکثریت اس کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کرتی حالانکہ اللہ کے بندوں پر حقوق کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ رب العالمین ذوالجلال کے اپنے سپرد ہے جو اپنی عبادات میں کمی کوتاہیوں کو پچھتاوے اور استغفار کے بعد معافی تلافی کر سکتا ہے ۔لیکن بندوں کے حقوق پورے نہ کرنے کی سزا اور پکڑ تو بڑی سخت ہو گی اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ انسان اللہ کی عبادات کو چھوڑ دے بنیادی طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے دین کا راستہ دنیا سے ہی ہوکر گزرتا ہے آج ہم صرف مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں چند باتوں کا سرسری طور پر جائزہ لیتے ہیں رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ شروع ہو رہا ہے مسلمانان عالم کی اکثریت عبادات روزہ نماز تراویح اور زکوٰۃ دینے میں مشغول ہے۔ حالت روزہ میں دل نرم ہیں دین اسلام کو جتنا پڑھا جائے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر معاملے پر اسلامی تعلیمات ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں، سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت کو قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔
اس حدیث میں ان حقوق میں سے کچھ کا بیان ہے جو مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر واجب ہوتے ہیں۔ مسلمان کے اپنے بھائی پر بہت سے حقوق لازم ہوتے ہیں لیکن نبی ﷺ بعض اوقات کچھ معین باتوں کو ان پر خصوصی توجہ دینے اور ان و شمار کرنے کے لئے صرف انہی کا ذکر فرما دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں، سلام کا جواب دینا۔ یعنی جب آپ کو کوئی شخص سلام کرے توآپ اس کے سلام کا جواب دیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: ایک یہ کہ جب تم اس سے ملو تو اس سے سلام کرو۔ جو شخص مسلمانوں کے سلسلے میں ان حقوق کی پاسداری کرے گا وہ دیگر حقوق کو پورا کرے گا۔ اس طرح سے وہ ان واجبات و حقوق کو پورا کرے گا جن میں بہت زیادہ بھلائی مضمر ہے اور بہت بڑا اجر ہے بشرطیکہ وہ اللہ سے اجر کا امیدوار رہے۔ ان حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ جب تم دوسرے مسلمان سے ملو تو اسے سلام کرو۔
دوسرا حق، جب کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے گھر میں پڑا ہوا ہو تو اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کا اپنے مسلمانوں بھائیوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس کی زیارت کریں۔
تیسرا حق، جنازے کے پیچھے چلنا ساتھ ساتھ جانا ہے۔مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے گھر سے لے کر جنازہ گاہ تک اس کے جنازے کے ساتھ ساتھ جائے چاہے جنازہ گاہ کوئی مسجد ہو یا پھر کوئی اور مقام اور وہاں سے قبرستان جائے۔
چوتھا حق، دعوت قبول کرنا ہے ۔ مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ جب وہ اسے دعوت دے تو وہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔
پانچواں حق، چھینک کا جواب دینا ہے۔ کیونکہ چھینک آنا اللہ کی نعمت ہے اس لیے کہ اس سے انسان کے اجزائے بدن میں جمع شدہ ہوا خارج ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے نکلنے کے راستے کو کھول دیتا ہے اور یوں چھینک لینے والے کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے یعنی الحمدللہ کہے اور اس کے بھائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کے جواب میں یرحم اللہ کہے اور اسے یہ حکم دیا کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہے یہدِیم اللہ ویصلِح بالم۔ جو اللہ کی حمد بیان نہیں کرتا وہ تشمیت (یرحمک اللہ کہہ کر چھینک کا جواب دینا) کا بھی حق دار نہیں ہے اور اسے چاہیے کہ وہ کسی اور کے بجائے بس اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
مسلمان کے مسلمان پر حقوق بہت زیادہ ہیں، ان میں سے کچھ عینی طور پر واجب ہیں کہ ہر شخص انہیں ادا کرے گا، اگر کوئی چھوڑ دے گا تو گناہ گار ہو گا۔ اور کچھ حقوق واجب کفائی ہیں، یعنی اگر کچھ لوگ اس حق کو ادا کر دیں تو بقیہ سب پر ادا کرنا لازم نہیں ہو گا، کچھ حقوق مستحب ہیں واجب نہیں ہیں اگر ان میں سے کوئی حق رہ جائے تو مسلمان کو گناہ نہیں ہو گا۔
مسلمان کی خیر خواہی کرنا واجب ہے.
اپنے ہاتھ اور زبان پر قابو رکھنا۔ ہم ان اختلافات کو کیسے حل کریں گے جو نادانستہ یا جان بوجھ کر پیدا ہوئے ہیں؟ ( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا جواب دینا ہے کہ وہ اس مسلمان کے بھائی پر کرے گا ہے اور اور اس
پڑھیں:
فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ ذمہ داریاں
قرآن و سنت کی نگاہ میں
مہمان تجزیہ نگار: پروفیسرڈاکٹر زاہد علی زاہدی (ڈین فکیلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ کراچی)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 20 اپریل 2024
ابتدائیہ
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً﴾
ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟ جب کہ کمزور مرد، خواتین اور بچے پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں:
یا رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی بنا دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے۔(سورہ نساء: 75)
ماہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷تاریخ سے تاحال فلسطین کے باشندوں خصوصاً اہالیانِ غزہ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔
نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے ہزار وںسے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے،
جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں،
لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔ ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
خلاصہ گفتگو، اہم نکات:
اسرائیلی مظالم تو اس کے وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے
غزہ اس صدی کا ایک انسانی المیہ بنتا رہا ہے
گزشتہ چوہتر برس میں زمینوں پہ قبضے کے بعد اب نسل کشی شروع کردی گئی ہے
صابرہ اور شتیلہ سے لے کر آج غزہ تک صیہونی مظالم کی تاریخ دنیا کے سامنے عیاں ہے
پاکستان کے علما کو اب اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ یاد آیا ہے
لیکن کیا صیہونی مظالم کے خلاف کسی فتویٰ کی بھی ضرورت ہے
سورہ نسا کی آیة 75 واضح طور پہ مسلمانوں پہ ظلم کرنے والوں سے قتال کا حکم دے رہی ہے
مسلمان علما کو تو مولا علیؑ کا خطبہ جہاد سُنانے کی ضرورت ہے
نہج البلاغہ کا خطبہ جہاد مسلمانوں کی حمایت و حفاظت کے لئے جہاد کا حکم بیان کرتا ہے
سیکورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ عضو معطل بن چکی ہے
مسلمان حکمران بھی اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مسلمان حکمران اور عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہوچکی تھیں
رہبرِ معظم نے مقاومت اور مزاحمت کو ایک نظریے کانام دیا ہے
مکتبِ مقاومت و مزاحمت اپنی نظریے سے ہٹ نہیں سکتے
جب کہ "مکتبِ مفاہمت" آج بھی اسرائیل اور امریکہ کے خوف میں مُبتلا ہے
قرآنِ مجید تو قتال و جنگ کا حکم دیتا ہے، حماس نے اسی پہ عمل کیا۔
حق کے لئے جنگ کرنے کا انحصار تعداد اور وسائل پر نہیں ہوسکتا
آبرو مندانہ اورعزت کی زندگی گزارنے کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے