بیوی پر لازم ہے کہ دوسری شادی کیلئے شوہر کی مدد کرے، پروفیسر جامعہ الازہر
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
کراچی(نیوزڈیسک)مصر کی جامعہ الازہر میں “فقہِ مقارن” کے پروفیسر ڈاکٹر احمد کریمہ نے باور کرایا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ایک مباح عمل ہے اور بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو بد کاری میں پڑنے سے روکنے کے لیے دوسری شادی کے حوالے سے شوہر کی معاونت کرے۔ڈاکٹر احمد ایک سیٹلائٹ چینل کے ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دوسری شادی کرنا ہر مرد کا حق ہے جس کے لیے اسے کوئی جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔مصری پروفیسر کے مطابق ایک سے زیادہ شادیاں کرنا نہ تو واجب ہے، نہ تجویز کردہ، نہ حرام، نہ مکروح بلکہ یہ ایک مباح عمل ہے یعنی جس کی اجازت دی گئی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔
جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں کہا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے، اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی، غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کی بہتری کےلیے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے، صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی، والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ دائر کیا، والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعوا نہیں دائر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کی خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعوا دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔