Express News:
2025-12-13@23:07:20 GMT

ادب : کیسی کیسی کہانیاں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

اسٹرابیری

قاسم کی طبیعت کئی روز سے سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ گیارہ سالہ قاسم بیماری کے باعث ایسا لاغر و کم زور ہوا کہ زیادہ تر غشی کی سی کیفیت میں رہتا۔ محلے کے ڈاکٹر سے مکسچر اور رنگ برنگی گولیاں لاکے قاسم کو پابندی سے کھلائی جاتیں لیکن قاسم کی حالت میں فرق نہیں پڑا۔

رقیہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کے خود ادھ موئی سی ہوگئی تھی۔ اس کی تینوں بیٹیاں بھی جو قاسم سے چھوٹی تھیں، اپنے اکلوتے بھائی کی حالت سے غم گین تھیں۔ مولوی غُلام حسین کو بھی بیٹے کی بیماری تڑپاتی تھی۔

کئی مرتبہ لوگوں نے انھیں مشورہ دیا کہ سڑک پار صاحبِ حیثیت لوگوں کی آبادی میں جاکر کسی سے مدد طلب کریں لیکن انھوں نے قطعیت سے انکار کردیا۔ وہ اللّہ پر توکل کرنے والے قانع انسان تھے اس لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس دن قاسم نے ذرا سی آنکھیں کھولیں تو رقیہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔

’’امّاں!‘‘

’’ہاں میرے لعل!‘‘

’’امّاں بھوک لگی ہے۔‘‘

’’میں ابھی کھانا لائی۔‘‘

یہ کہہ کر رقیہ باورچی خانے میں گئی اور جلدی سے پتلی کھچڑی اُبال کے لے آئی۔ قاسم کو سہارا دے کر بٹھایا اور اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی۔ تھوڑا سا کھانے کے بعد اس نے منھ ہٹالیا۔

’’کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہے؟‘‘

’’بس امّاں۔ کھالیا۔ ایک بات کہوں؟‘‘

’’ہاں بیٹے! کہو۔‘‘

’’امّاں میرا جی چاہ رہا ہے میں اسٹرابیری کھاؤں۔‘‘

یہ کہہ کر قاسم پُرامّید نظروں سے ماں کو دیکھنے لگا۔ اُس کی مختصر سی زندگی میں ایسے لمحات بہت کم آئے تھے جب اُس نے پیٹ بھر کے کچھ اچّھی چیز کھائی ہو۔ رقیہ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بولی:

’’ہاں ہاں کیوں نہیں، تُم ذرا اچّھے ہوجاؤ۔‘‘

قاسم نے لیٹ کے آنکھیں موند لیں۔ جیسے اسے بھی علم ہو کہ ماں اسے صرف بہلارہی ہے۔ بھلا جس گھر میں ایک سے دوسرے وقت کھانے کا آسرا نہیں ہوتا وہاں مہنگے پھلوں کا کیا تصور۔

ظہر کی نماز پڑھا کر مولوی غلام حسین گھر آئے تو رقیہ نے دبے دبے لفظوں میں قاسم کی خواہش کا ذکر کِیا۔ مولوی صاحب ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے۔

’’نیک بخت! تم تو جانتی ہو یہاں کھانے کا پورا نہیں پڑرہا۔ پھل کیسے خرید سکتے ہیں، وہ بھی اتنا مہنگا پھل۔ آج شاید رمضان کا چاند نظر آجائے۔ پھل پہلے ہی مہنگے تھے اب تو اور بھی مہنگے ہوجائیں گے۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے لیکن میں کیا کروں۔ میرا بچہ کبھی کچھ نہیں مانگتا۔ بیماری کے دنوں میں اس نے پہلی مرتبہ کوئی خواہش کی ہے۔‘‘

’’اللہ سے دعا کرو۔ وہ مسبب الاسباب ہے ضرور کوئی سبیل نکالے گا۔‘‘

رقیہ کچھ نہ بولی۔ مولوی صاحب کا دل بھی اندر سے کٹ گیا تھا لیکن مجبور تھے کچھ کر نہیں سکتے تھے سو وہ بھی خاموش ہی رہے۔ اسی دن مغرب کے بعد رمضان کے چاند کا اعلان ہوا۔ رمضان کا چاند دیکھ کے مولوی غلام حسین نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو مسنون دعائیں پڑھ کے ان کے دل سے ایک ہی دعا نکلی ’’اے پروردگار! میں تجھ سے اپنے لِیے کُچھ نہیں مانگتا لیکن میرے بیٹے کی خواہش پوری کردے۔‘‘ نہ جانے کیوں اُن کا دل بھر آیا اور بے تحاشا آنسو بہنے لگے۔ اگلے دن پہلا روزہ تھا۔ افطار سے ذرا پہلے، ایک بہت شان دار سی گاڑی، جس کے پیچھے ایک ٹرک تھا، آکے مسجد کے دروازے پہ رُکی۔ ایک خوش پوش شخص اس میں سے اترا اور مسجد کے اندر آیا۔ اس وقت مسجد میں مؤذن محمد صابر تھے۔ اس شخص نے مسجد کے پیش امام کے بارے میں پوچھا، محمد صابر مولوی صاحب کو بلا لائے۔ اس شخص نے مولوی صاحب سے کہا:

’’آپ نے مشہور صنعت کار سیٹھ ابراہیم کا نام تو سُنا ہوگا جو کاٹن کنگ کہلاتے ہیں، میں ان کا مینجر افتخارعالم ہوں۔ سیٹھ صاحب کے والد کے دل کا آپریشن تھا۔ انھوں نے منّت مانی تھی کہ اگر آپریشن کام یاب رہا تو وہ پورا رمضان اس بستی کے مکینوں کو افطار کروائیں گے۔ آج سے بستی والوں کا افطار سیٹھ صاحب کی طرف سے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھ آنے والوں کو دیکھا۔ انھوں نے افطار اور کھانے کا سامان ٹرک سے اُتارنا شروع کیا۔ پھر اس نے ایک شخص کو اشارہ کیا۔ وہ دو بڑے بڑے خوان، جو کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے، اٹھائے مولوی صاحب کی طرف بڑھا۔ افتخار عالم نے کہا:

’’مولوی صاحب یہ خوان آپ کے لِیے سیٹھ صاحب نے بھجوائے ہیں۔‘‘

ہوا سے ایک خوان سے ذرا سا کپڑا ہٹا۔ پھلوں کا ایک انبار تھا جس میں اسٹرابیری کا ایک بڑا سا ڈبّا بھی نظر آرہا تھا۔

۔۔۔

ریٹ

’’صاحب صاحب! یہ ذرا میری فائل دیکھ لیں۔ روز چکّر لگارہا ہوں۔ آپ نے جتنے پیسے کہے میں وہ بھی لے آیا ہوں۔ اب تو میرا کام کردیں۔‘‘

 پریشان حال ضعیف العُمر شخص نے افسر سے کہا جس کے پیشانی پہ بل پڑے ہوئے تھے۔ افسر نے اُس کے ہاتھ میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھا اور تُرش روئی سے کہا:

’’جاؤ یہاں سے ابھی ٹائم نہیں ہے بعد میں آنا۔‘‘

 بوڑھا گڑگڑانے لگا کلرک نے اسے جھڑک دیا:

’’تم سے کہا ہے ناں ابھی میرے پاس ٹائم نہیں ہے جاؤ یہاں سے۔‘‘

 وہ ناامید ہوکر پیچھے ہوا اور دفتر کے دروازے سے باہر نکل کے احاطے میں دیوار کے ساتھ لگی ہوئی بینچ پہ بیٹھ کے پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تب صاحب کا منہ چڑھا پیون اس کے قریب ا کے بیٹھ گیا اور کہا:

 ’’بابا جی کیا مسئلہ ہے؟‘‘

’’صاحب کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے میرا کام اٹکا ہوا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ فائل میں پہیے لگا دو تو تمھارا کام ہوجائے گا اب میں پیسے لے کر آیا ہوں لیکن صاحب نے میرا کام پھر بھی نہ کیا۔ اللّہ جانتا ہے میں کس کس سے قرض لے کے یہ رقم اکٹھی کرکے لایا ہوں۔‘‘

 پیون نے پوچھا:

’’کتنی رقم ہے؟‘‘

 بوڑھے نے مُٹھی میں دبے ہوئے نوٹ اس کے سامنے کردیے۔ پیون نے ادھر ادھر دیکھ کر چھپا کے نوٹ گننا شروع کیے اور پھر اسی طرح بوڑھے کی مٹھی میں تھما دیے۔

’’بابا تمھیں پتا نہیں ہے رمضان میں ہر چیز کا ریٹ ڈبل ہوجاتا ہے اور تم اسی پرانے ریٹ پہ کام کروانا چاہ رہے ہو۔ اب یہ ریٹ پرانے ہوگئے، تمھیں اپنی فائل کو پہیے لگانے ہیں تو یہ رقم ڈبل کرنا ہوگی۔‘‘

بوڑھا نااُمّیدی سے مٹھی میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھنے لگا

۔۔۔

کمائی کا مہینہ

’’یہ دکھائیں۔‘‘

گاہک نے شیلف پہ رکّھے ہوئے ایک تھان کی طرف اشارہ کیا۔ شیخ صاحب نے ملازم لڑکے کو اشارہ کیا۔ اس نے وہ کپڑا گاہک کے سامنے لا رکھا۔ چند مزید تھان کھلوانے کے بعد ایک کپڑا گاہک کو پسند آیا لیکن قیمت سن کر وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔ بس لڑائی ہوتے ہوتے بچی۔ گاہک کا کہنا تھا اسی برانڈ کا کپڑا اس نے ڈیڑھ مہینے پہلے آدھی قیمت پہ خریدا تھا۔ بہت مشکل سے پانچ سو پہ بات بنی۔ دن بھر گاہکوں سے قیمت پر تکرار ہوتی رہی۔ یہ کسی ایک دکان کا معاملہ نہیں تھا بلکہ مارکیٹ کی ہر دکان پہ یہ ہی صورت حال تھی۔ شام کو شیخ صاحب کے پڑوسی دکان دار نے ان سے پوچھا:

’’شیخ صاحب! کتنی سیل ہوئی؟‘‘

’’اللہ کا کرم ہے۔ رمضان کی برکت سے اچّھا منافع ہوگیا۔‘‘

شیخ صاحب کا جواب سُن کر ملازم لڑکے نے دل میں سوچا واقعی رمضان کی برکت ہے کہ دُگنے داموں پہ مال فروخت ہورہا ہے۔

۔۔۔

حصّہ

’’امرود کیا حساب دیے؟‘‘

’’دو سو روپے کلو۔‘‘

’’دو سو روپے؟؟؟ اور سیب؟‘‘

’’ڈھائی سو روپے۔ مشہدی سیب ہے۔‘‘

’’تم لوگوں نے تو حد کردی ہے اتنی مہنگائی۔ ہر چیز کے دام دُگنے۔‘‘

’’صاحب کیا کریں، قیمت ہم نے نہیں بڑھائی۔ ہمیں بھی یہ پھل مہنگے پڑ رہے ہیں جبھی اِس دام بیچ رہے ہیں۔‘‘

عبدالرحیم نے بہت رسان سے کہا، لیکن گاہک کا غصہ کم نہ ہوا۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے پھل لے کے پیسے دیے اور چلا گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ رمضان میں ہر دن قیمت پہ خریدار اور دکان دار کی یوں ہی تکرار ہوتی تھی۔ افطار سے کُچھ پہلے جب بازار بند ہونے لگا تو عبدالرحیم نے بھی اپنا سامان سمیٹا اور ٹھیلا بند کرنے لگا۔ تبھی ایک سپاہی اُس کے قریب آیا۔

’’ہاں بھئی! نکالو میرا حصہ۔‘‘

عبدالرحیم نے ایک بڑے سے تھیلے میں پھل اور ایک نیلا نوٹ اُس کی طرف بڑھادیا۔

’’یہ کیا؟ مجھے اتنے کم پیسے نہیں چاہییں۔ اس کو ڈبل کرو۔‘‘

عبدالرحیم نے لجاجت سے کہا:

’’آج یہ رکھ لو۔ زیادہ پھل نہیں بِکے۔ کل سے پھل اور زیادہ قیمت پہ بیچوں گا تو تمھارا حصہ بھی بڑھادوں گا۔‘‘

۔۔۔

اب کیا ہوگا

فضلو کے گھر میں سوگ کا سا عالم تھا۔

’’ارے رحیم کے ابا اب کیا ہوگا۔‘‘

’’مجھے کیا پتا کیا ہوگا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مجھے اور نہ تنگ کر۔‘‘

’’ارے تو میں نے تجھے تھوڑا ہی پریشان کیا ہے میں تو یہ پوچھ رہی ہوں کہ اب کیا ہوگا۔ ابھی تو ہمیں نجو کی شادی بھی کرنا تھی اور اشرف کو بھی کاروبار کروانا تھا نجو کے بعد پھر ہمیں رضیہ کا بھی جہیز جوڑنا تھا لیکن اب کیا ہوگا۔‘‘

’’دیکھ چپ ہوجا میرا سر نہ کھا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ میں کیا جانوں کیا ہوگا۔‘‘

 ’’ارے تو میں نے کیا کہا ہے۔ تجھ سے پوچھا ہی تو ہے کہ اب ہم کیا کریں گے۔ تُو مجھ سے کیوں لڑ رہا ہے۔‘‘

’’تو چپ نہیں ہوگی۔ آگے سے بکواس کِیے جائے گی۔‘‘

یہ کہتے کہتے فضل دین اپنی جگہ سے اُٹھا اور بشیراں کے چہرے پہ ایک تھپڑ جڑدیا۔ بشیراں پلٹ کے گری اور یوں چلانا شروع کردیا جیسے اسے ذبح کِیا جارہا ہو۔ جوابی کارروائی کے طور پر وہ بھی برتن پھینک کے مارنے لگی۔ اتنا شورشرابا ہوا کہ محلے کے گھروں تک آوازیں پہنچیں۔ برابر والے گھر سے صابر نے آکے دروازہ پر پڑا ٹاٹ کا پردہ اُٹھایا اور اندر داخل ہوگیا۔

’’او بھائی فضل دین! خیریت تو ہے، شور کی آوازیں آرہی ہیں۔‘‘

 بشیراں نے کچھ نہ کہا اور منہ پھیرلیا۔ فضل دین موڑھے پہ بیٹھ گیا۔ صابر دونوں کی شکلیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا فضل نے اسے بھی چارپائی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بیٹھ گیا اور بولاؒ:

’’ہاں بھائی! اب تو بتادو آخر کیا بات ہے جو اتنی رات گئے تم لوگ اتنے زور زور سے لڑ رہے ہو، پورے محلے میں آوازیں گونج رہی ہیں۔‘‘

 فضل دین نے بہت افسردگی سے کہا:

’’بھائی تمھیں تو پتا ہی ہے سعودی عرب اور امارات میں پاکستانیوں کے ویزے بند ہوگئے ہیں تو پھر یہ کہ رمضان کے مہینے میں وہاں جاکے اللّہ کے نام پہ ہم لوگ اتنا مانگ لاتے تھے کہ پورا سال عیش کی زندگی گزارتے تھے لیکن اب تو ویزے ہی بند ہوگئے۔ ہم اس ایک مہینے میں اتنا کماتے تھے جو پورے سال کی کمائی سے زیادہ ہوتا تھا لیکن اب کیا کریں گے ہم یہ ہی سوچ سوچ کے پریشان ہورہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔‘‘

۔۔۔

عبادت کا مہینہ

’’حرا! پکوڑے تلنا شروع کردو، افطار میں زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘

صفیہ بیگم نے اپنی بہو سے پکار کے کہا۔ جی اچّھا کہہ کے حرا اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ اس کے سسرال میں افطار میں بہت اہتمام ہوتا تھا۔ انواع و اقسام کی چیزوں کے علاوہ دو تین طرح کے شربت، افطار کے بعد کھانا اور چائے۔ حرا عشاء کے بعد تک بھی فارغ نہیں ہوپاتی تھی۔ اُن کے ہاں آئے دن افطار پہ لوگ مدعو ہوتے۔ اس دن بھی حرا کی ساس صفیہ بیگم کی دو بہنوں اور ایک بھائی کے گھر والے افطار پہ مدعو تھے، لہٰذا افطار کا دسترخوان خاصا وسیع تھا۔ پھر کھانے میں بھی دو تین پکوان تھے۔ نماز اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکے سب لوگ گپ شپ کرنے لگے۔ حرا سب کو چائے دے کے کچن میں آگئی۔ برتن دھونا اور کچن کی صفائی باقی تھی اور سحری کے کھانے کی تیّاری بھی ابھی سے کرنا تھی۔ حرا کی ساس نے حرا کو سُنانے کے لیے زور سے کہا:

’’رمضان کے مہینے میں جتنی بھی عبادت کرو، کم ہے لیکن ہماری بہو بیگم کو نفل نماز یا تلاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ قرآن پاک پڑھنے کو کہو تو انھیں کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا ہے۔ ارے گھر کے کام بھلا ہوتے ہی کیا ہیں۔‘‘

حرا نے ایک تلخ مُسکراہٹ کے ساتھ ان کی بات سنی اور برتن دھونے لگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عبدالرحیم نے اب کیا ہوگا مولوی صاحب اشارہ کیا انھوں نے نہیں ہے کے بعد سے کہا ہے میں کی طرف وہ بھی کچھ نہ

پڑھیں:

بادشاہ بھی چور ہو سکتا ہے!

مصر 1922 میں برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔بادشاہت بدستور قائم تھی۔ شہنشاہ فہد اول حکمران تھا۔شاہی خاندان میں فاروق نام کا شہزادہ پیدا ہوا۔ جو صرف سولہ سال کی عمر میں شہنشاہ بن گیا۔ اس کی تعلیم و تربیت برطانیہ کے اول درجے کی تعلیمی درس گاہوں میں مکمل ہوئی تھی ۔ رکھ رکھاؤ اور ادب آداب میں شہنشاہ فاروق بالکل مستند تھا۔عرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ دنیا کے دولت مند ترین لوگوں میں شامل تھا۔ خزانہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا ۔ بیش قیمت بلکہ خیرہ کن محلات میں قیام کرتا تھا ۔

دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں تھی جوفاروق کے پاس نہ ہو ۔ مگر قدرت کا ستم دیکھیے کہ بادشاہ چھوٹی چھوٹی چیزیں چوری کرنے کی علت میں مبتلا تھا۔ اس عادت کو ایک بیماری کا نام دیا گیا ہے ۔ جسے kleptomania  کہا جاتا ہے ۔ شاہی دعوتوں میں سونے کے چمچ اور کانٹے اپنی جیب میں ڈال لیتا تھا۔ پھر اس سامان کو ایک خفیہ کمرے میں چھپا کر رکھ دیتا تھا ۔ جس کی چابی صرف اور صرف اس کے پاس تھی۔ شروع شروع میں لوگوں کو بالکل معلوم نہ ہو پایا کہ ان کا بادشاہ کس منفی رجحان کا مالک ہے۔ اندازہ کیجیے کہ قیمتی ترین گاڑیوں پر سوار ہونے والا انسان ‘ بیش قیمت ترین بحری جہازوں کا مالک چھوٹی چھوٹی اشیاء چوری کرتا تھا۔ اس کو اپنا کارنامہ گردانتا تھا۔

ایک دن اٹلی کا سفیر دربار میں ملاقات کے لیے آیا ۔ انتہائی پروٹوکول کے اندر کھانے کی ٹیبل سجائی گئی۔ بادشاہ اور سفیر کی نشستیں ساتھ ساتھ تھیں ۔ موقع پا کر فاروق نے سفیر کی جیب سے بٹوا چوری کر لیا۔ قیامت یہ ہوئی کہ سفیر نے یہ چوری اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ۔ مگر وہ خاموش رہا۔واپسی پر سفیر نے یہ تمام واقعہ ایک خط کی صورت میں اپنی حکومت کو لکھا ۔ سرکاری سطح پر یہ بات پہلی بار عیاں ہوئی کہ مصر کا شہنشاہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہتھیا لیتا ہے ۔

دیکھنے میں ہر درجہ وجیہہ انسان اندر سے اتنا کھوکھلا ہو گا ۔ اس بات کا آہستہ آہستہ لوگوں کو پتہ چلنا شروع ہو گیا۔ فاروق نے پورے ملک میں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کا حکم دیا جو فن ِجیب تراشی میں یکتا ہو۔ معلوم ہوا ‘ کہ مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا چور زندہ ہے مگر جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔ بادشاہ کے حکم پر اسے پیش کیا گیا۔ مکالمہ کچھ یوں ہوا کہ بادشاہ نے اس جیب تراش سے اس فن کو سیکھنے کی خواہش کی جس سے وہ اپنے کام میں مزید بہتر ہو جائے۔

یعنی ایک پختہ ترین چور یا جیب کترا بن جائے۔ اس کے عوض شہنشاہ نے چور کی سزا معاف کرنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ کے چیزیں چوری کرنے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے متعدد تربیتی سیشن ہوئے ۔ اور وہ ایک کائیاں ترین چور بن گیا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا ۔ بادشاہ مختلف چوروں اور جیب کتروں کو محل میں طلب کر کے ان سے لیکچر لیتا رہتا تھا تاکہ غلطی کا کوئی امکان نہ رہے ۔ یہ ذہنی بیماری تمام اخلاقی اور قانونی حدود توڑ گئی۔ ایک رات فاروق نے خواب دیکھا کہ ایک شیر نے اس پر حملہ کیا ہے اور زخمی کرنے کی کوشش کی ہے۔ صبح شاہی فرمان جاری کیا کہ قاہرہ کے چڑیا گھر میں موجود تمام شیروں کو گولی مار دی جائے۔

مصر کے دارالخلافے یعنی قاہرہ کے چڑیا گھر میں دنیا کے نایاب ترین شیر موجود تھے۔ جن کو دیکھنے کے لیے ہر طرف سے لوگ آتے تھے۔ شیروں کو بڑی محنت اور احتیاط سے رکھا گیا تھا ۔ ان کی خوبصورتی کی دھاک پوری دنیا پر تھی۔ مگر بادشاہ کے احمقانہ حکم کو کوئی بھی رد نہیں کر سکتا تھا۔ تعمیل میں چند فوجی چڑیا گھر بھجوائے گئے۔ انھوںنے وہاں موجود تمام شیر گولیوں سے بھون دیے۔ ظلم ‘ جبر اور وہم کا اندازہ لگایئے کہ کوئی بھی درباری ‘ فاروق کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا تھا کہ خواب میں شیر کو دیکھنا اور اس کے جواب میں تمام شیروں کو مار دینا مکمل طور پر نامناسب ہے۔ لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی مگر فاروق کو اس کی کوئی فکر نہیں تھی۔ 

ایک سرکاری دورے پر شہنشاہ فاروق کو برطانیہ جانا پڑا ۔ سیکڑوں خادم اور قیمتی ترین گاڑیاں قافلے کی ہم رکاب تھیں۔ لندن کے ایک شاہی محل میں ٹھہرایا گیا ۔ سرکاری نہیں بلکہ شاہی مہمان کا درجہ دیا گیا۔ اس دورے میں برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل سے بھی ملاقات طے تھی۔ مہمان کو لاؤ لشکر کے ساتھ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر بڑے اہتمام سے لایا گیا۔ ونسٹن چرچل نے باہر آ کر اسے خوش آمدید کہا اور دونوں کی ملاقات شروع ہو گئی۔

اس اہم ترین ملاقات کے دوران چرچل نے محسوس کیا کہ بادشاہ کی انگلیاں اس کے کوٹ کی جیب میں کچھ تلاش کر رہی ہیں۔ دراصل چرچل کوٹ کی جیب میں گھڑی رکھتا تھا۔ مہمان بادشاہ نے چرچل کی جیب سے گھڑی چوری کر لی۔ اپنی پتلون میں چھپا لی۔ چرچل کو فوری طور پر پتہ چل گیا کہ بادشاہ نے اس کی گھڑی چوری کر لی ہے۔ مگر وہ خاموش رہا ۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد چرچل نے ایک ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ جب شہنشاہ جائے تو اسے بتا دیں کہ چوری کی ہوئی گھڑی واپس کر دے۔

میٹنگ کے بعد جب بادشاہ روانہ ہوا تو ملازم نے وہی کیا جو وزیراعظم نے اسے حکم دیا تھا۔فاروق نے مکمل لا علمی کا اظہار کیا اور واپس چلا گیا ۔ چند دنوں کے بعد چرچل کو یہ گھڑی ایک پارسل کی صورت میں نامعلوم شخص نے واپس بھجوا دی ۔ پارسل پر بھیجنے والے کا نام اور پتہ بالکل غلط لکھا ہوا تھا۔ سفارتی سطح پر جب چرچل نے اپنی کابینہ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو اس کے وزیر ششدر رہ گئے۔ کہا ں ایک شہنشاہ اور کہا ایک اہم سرکاری میٹنگ میں چوری کی واردات ۔ بہرحال یہ واقعہ اخبارات کی زینت بنا ۔ مگر فاروق نے کسی قسم کا اقرار یا انکار نہیں کیا۔ 

 حیران نہ ہوں۔ اس سے اگلا واقعہ اور بھی ادنیٰ ہے ۔ 1944میں ایران کے بادشاہ رضا شاہ فوت ہوا۔ اس کے جنازے پر پوری دنیا سے وزراء اعظم ‘ صدور اور بادشاہ افسوس کے لیے آئے۔ ان میں شہنشاہ فاروق بھی شامل تھا۔رضا شاہ کے تابوت پر سونے کے تمغے اور بیش قیمت تلواریں پڑی ہوئی تھیں۔ حکمران بڑے احترام سے رضا شاہ کی آخری رسومات پوری کر رہے تھے۔ فاروق نے تابوت پر پڑی ہوئی ایک بیش قیمت تلوار کامیابی سے چوری کر لی۔ اسے اپنے ساتھ مصر لے گیا۔ یہ واقعہ بھی ایرانی حکومت کو پتا چل گیا۔

تلوار فاروق کے خفیہ کمرے سے اس کی جلا وطنی کے بعد برآمد ہوئی۔ شاہ فاروق فرانس یا کسی بھی ملک میں شاپنگ کرنے جاتا تو مارکیٹ سے چیزیں خریدتے خریدتے کچھ نہ کچھ چوری کر لیتا تھا۔اس کی سرشت میں شامل ہو چکا تھا۔ کہ وہ لوگوں کو اپنے چوری کے جوہر دکھائے ۔ بعد میں فاروق قہقہے لگاتا تھا کہ کتنی کامیابی سے اپنے اردگرد کے لوگوں اور ملنے والوں کو بیوقوف بنایا ہے۔ 

ذرا اندازہ فرمائیں کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل انسان اپنی چوری کی عادت پر قابو نہ پا سکا ۔ اور مرتے دم تک وہ یہی کام کرتا رہا۔ مجھے یہ عادت پاکستان کے ہر مقتدر طبقے کے اندر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مصر کا بادشاہ تو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہتھیا کر ذہنی تسکین حاصل کرتا تھا۔ مگر ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں مقتدر طبقہ نے ڈھٹائی ‘ عیاری اور مکاری سے ملک کو پاؤں تلے روندا۔ ہمارا مقتدر طبقہ کرپشن کے کھیل میں مصر کے بادشاہ کا بھی استاد ہے۔

عجیب بات ہے کہ حکومتی خزانہ تو ہمیشہ خالی رہتا ہے ۔ مگر چند خاندانوں کے خزانے اتنے بھر جاتے ہیں کہ انھیں اپنے گھروں کے اندر تہہ خانے بنانے پڑتے ہیں تاکہ ناجائز دولت چھپائی جا سکے۔ گزشتہ سیاسی تاریخ میں اگر مقتدر طبقے کے مالیاتی رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ شدید ذہنی بیماری کا شکار رہی۔ اپنی دولت کا بذات خود انھیں اندازہ نہیں رہا۔ مگر ان کے بعد ان کی اولادیں بھی اسی ہوس زر میں مبتلا نظر آئیں ۔ دراصل دولت کمانے کی اور ناجائز دولت جمع کرنے کی کوئی حد نہیں۔ بلکہ مقتدر طبقے میںتو یہ بیماری اپنے عروج پر ہے ۔

گمان تھا کہ پہلی نسل بے پناہ کرپشن کر لے تو اس سے اگلی نسل کی طمع بھر جاتی ہے اور وہ مالیاتی لوٹ مار کو کبھی اپناتے نہیں ہیں۔ پاکستان کا قیامت خیز سچ یہ ہے کہ یہ کلیہ بھی فیل ہو چکا ہے۔ کسی بھی فرد یا خاندان کا نام نہیں لینا چاہتا ۔ مگر ہر باشعور پاکستانی کو علم ہے کہ ان کی نظروں کی سامنے ‘ گزشتہ کئی دہائیوں سے لوٹ مار کر کے چند لوگ قارون کے خزانے تک پہنچنے کی تگ و دو کرتے رہے ہیں۔

حالت اتنی دگر گوں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہماری ہر حکومت سے کہتے رہے ہیں کہ خدارا کرپشن کو کم کیجیے۔ مگر بالائی طبقہ مکمل طور پر لالچ کی دلیل میں ڈوبا رہا۔ ضمیر نام کی کوئی چیز معلوم نہیں پڑتی۔ مجھے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ ہمارا ملک کبھی خوشحال اور مستحکم ہو سکتا ہے ۔ اس کی واحد واجہ وہ مقتدر طبقہ ہے جس کے سامنے مصر کا سابقہ بادشاہ فاروق ‘ طفل مکتب ہے!
 

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط
  • پروفیسر خیال آفاقی
  • میں نہیں ہم
  • ایک عام سی بات
  • بادشاہ بھی چور ہو سکتا ہے!
  • بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
  • فیض حمید کی سزا فوج کا اندرونی معاملہ ہے‘صاحب اختیار کی پالیسی عمران خان کو مائنس کرنا ہے ‘وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا
  • قوم برسوں فیض حمید صاحب اور جنرل باجوہ کے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی: وزیر دفاع
  • مستقبل کس کا ہے؟
  • جھگڑے کے مقاصد