’پہلی بیوی خود شوہر کا دوسرا نکاح کرائے‘، دوسری شادی کے خواہشمندوں کے لیے بڑی خوشخبری
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام نے مرد کو ایک وقت میں چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے لیکن برصغیر میں دوسری شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں مرد دوسری شادی کی استطاعت اور خواہش رکھنے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کرپاتا۔
یہ بھی پڑھیں اداکارہ سلمیٰ ظفر نے اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت کیوں دی؟
جہاں ایک طرف معاشرے میں دوسری شادی کو معیوب سمجھا جارہا ہے وہیں مصرف کی معروف درسگاہ جامعہ الازہر کے عالم نے ایک سے زیادہ نکاح کو مرد کا حق قرار دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر احمدکریمہ نے ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پہلی بیوی کو چاہیے کہ وہ خود دوسرے نکاح میں شوہر کی معاونت کرے اور اسے ایسا کرنے کی ترغیب دے۔
انہوں نے کہاکہ دوسری شادی کرنا مرد کا حق ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بیویوں کے درمیان انصاف قائم رکھ سکے۔
یہ بھی پڑھیں ملتان: دوسری شادی کی اجازت نہ دینے پر شوہر نے 15لاکھ روپے کے عوض بیوی کو قتل کروادیا
پروفیسر ڈاکٹر احمدکریمہ نے کہاکہ اب ہر شخص اپنے حوالے سے خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر چل سکتا ہے یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انصاف برابری پروفیسر ڈاکٹر احمد کریمہ خواتین خوشخبری دوسری شادی زیادہ بیویاں شرعیت مرد مصر وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انصاف پروفیسر ڈاکٹر احمد کریمہ خواتین زیادہ بیویاں شرعیت وی نیوز
پڑھیں:
دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔
جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں کہا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے، اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی، غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کی بہتری کےلیے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے، صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی، والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ دائر کیا، والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعوا نہیں دائر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کی خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعوا دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔