بلدیاتی نظام کانیاقانون تبدیل،اختیارات کس کے پاس؟تفصیل سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے صوبے کے نئے بلدیاتی نظام کا قانون پیر کو اکثریت رائے سے منظور کر لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس نئے نظام کے تحت لاہور کا سپیشل سٹیٹس تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح پنجاب کے بڑے شہروں کی بھی اب ایک سے زیادہ ضلعی ٹاؤن کارپوریشنز کے تحت نئی حد بندی کی جائے گی۔
اسی طرح یونین کونسل لیول پر چئیرمین اور وائس چئیرمین کے عہدے بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔
نئے بلدیاتی نظام کے تحت دو لاکھ سے زائد آبادی والے شہروں میں شہری آبادی کے لیے میونسپل کارپوریشن بنا دی گئی ہے۔ اسی طرح شہر کی ملحقہ آبادیوں کے لیے میونسپل کمیٹی اور دیہی آبادیوں کے لیے تحصیل کونسل بنا دی گئی ہے۔ جبکہ تمام اختیارات ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کے پاس ہوں گے۔
مزیدپڑھیں:نہریں بنانے کے معاملے پر وفاقی حکومت اور صوبہ سندھ آمنے سامنے کیوں ہیں؟
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم ہیں، ویلج کونسلر اور بلدیاتی نمائندے ایک پیسہ اعزازیہ بھی نہیں دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں بلدیاتی حکومتیں تو قائم ہیں لیکن عملی طور پر ان کے پاس نہ فنڈز ہیں، نہ اختیارات، 3 سال گزرنے کے باوجود مقامی نمائندے ایک ایک پیسے کو ترس رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے فنڈز کو ترس گئے، نائبر ہوڈ اور ویلیج کونسلز کے چیئرمین لاکھوں روپے واجب الادا اعزازیے کے انتظار میں ہیں، جبکہ تمام چیئرمین تاحال 30 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ بھی نہیں پا سکے۔
تحصیل اور ڈسٹرکٹ مئیرز بھی حکومت کی ”قسطوں“ کے منتظر ہیں۔ 90 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کی منظوری تو ہو چکی ہے،لیکن زمین پر کام کی صورتحال صفر ہے ۔
بلدیاتی نمائندوں نے بارہا احتجاج بھی کیا لیکن صوبائی حکومت صرف باتوں سے ٹالتی رہی۔ بلدیاتی نظام کو مؤثر بنانے کے حکومتی دعوے، صرف کاغذوں کی حد تک محدود نظر آتے ہیں۔
بلدیاتی حکومتوں کا وجود صرف نام کا رہ گیا ہے۔ اختیارات کی منتقلی اور فنڈز کی فراہمی کے بغیر مقامی حکومتیں عوامی مسائل کیسے حل کریں گی؟ یہ سوال اب ہر شہری کی زبان پر ہے۔