ٹرمپ کے بیان نے امریکہ سمیت دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں تباہی مچا دی
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھی جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیر کے روز دیا گیا بیان تھا، جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کی تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے امریکی معیشت کساد بازاری (recession) کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس بیان کے بعد امریکی مارکیٹ میں زبردست فروخت (sell-off) دیکھی گئی، جس کے اثرات عالمی منڈیوں تک پہنچ گئے۔
وال اسٹریٹ پر شدید مندی
نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں ٹیکنالوجی سے بھرپور نیسڈیک انڈیکس کو 2022 کے بعد سب سے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ایس اینڈ پی 500 انڈیکس اپنی فروری کی بلند ترین سطح سے 8 فیصد نیچے چلا گیا، جبکہ ڈاؤ جونز انڈسٹریل ایوریج میں بھی 2 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جو نومبر 4 کے بعد اس کی کم ترین سطح ہے۔نیسڈیک کمپوزٹ انڈیکس 4 فیصد گر کر چھ ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا، جبکہ عالمی اسٹاک انڈیکس ایم ایس سی آئی 2 فیصد سے زائد کمی کے ساتھ جنوری 13 کے بعد سب سے کم سطح پر آ گیا۔ٹیکنالوجی اسٹاکس کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، جہاں ایلون مسک کی ٹیسلا کے حصص 15.
ایشیائی اور یورپی مارکیٹس بھی دباؤ کا شکار
منگل کے روز جاپان کے نکئی 225 انڈیکس میں 2.5 فیصد، جنوبی کوریا کے کوسپی میں 2.3 فیصد، اور آسٹریلیا کے ایس اینڈ پی/اے ایس ایکس 200 انڈیکس میں 1.8 فیصد کمی دیکھی گئی۔بھارتی اسٹاک مارکیٹ بھی عالمی رجحان کے زیر اثر دیکھی جا رہی ہے، جہاں نِفٹی 50 انڈیکس 14.5 فیصد کمی کے ساتھ اپنی ستمبر 2024 کی بلند ترین سطح سے نیچے چلا گیا۔یورپی اسٹاک مارکیٹ میں بھی زبردست مندی دیکھی گئی، جہاں پین-یورپی اسٹاکس 600 انڈیکس 1.29 فیصد نیچے بند ہوا۔
امریکی بانڈ ییلڈز میں کمی
ٹرمپ کے بیان کے بعد سرمایہ کار محفوظ اثاثوں کی طرف منتقل ہو گئے، جس کی وجہ سے امریکی بانڈز کی طلب میں اضافہ ہوا اور ییلڈز میں کمی دیکھی گئی۔
دو سالہ امریکی حکومتی بانڈ کا ییلڈ 10.4 بیسز پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 3.898 فیصد پر آ گیا، جبکہ 10 سالہ بانڈ کا ییلڈ 9.3 بیسز پوائنٹس کم ہو کر 4.225 فیصد پر آ گیا۔ 30 سالہ بانڈ ییلڈ 6.9 بیسز پوائنٹس گر کر 4.548 فیصد ہو گیا۔
کرنسی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال
کرنسی مارکیٹ میں بھی غیر یقینی صورتحال دیکھی گئی، جہاں امریکی ڈالر جاپانی ین کے مقابلے میں 0.5 فیصد کم ہو کر 147.29 پر آ گیا۔ تاہم، یورو معمولی 0.06 فیصد کمی کے ساتھ 1.0826 ڈالر پر ٹریڈ کر رہا تھا، جبکہ برطانوی پاؤنڈ 0.45 فیصد گر کر 1.2862 ڈالر پر آ گیا۔
خام تیل اور سونے کی قیمتوں میں کمی
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھی گئی، جہاں امریکی خام تیل 1.51 فیصد گر کر 66.03 ڈالر فی بیرل پر آ گیا، جبکہ برینٹ کروڈ 1.53 فیصد کمی کے ساتھ 69.28 ڈالر فی بیرل پر ٹریڈ کر رہا تھا۔
سونے کی قیمت میں بھی کمی دیکھی گئی، جہاں اسپاٹ گولڈ 0.86 فیصد گر کر 2,885.63 ڈالر فی اونس پر آ گیا، جبکہ امریکی گولڈ فیوچرز 0.76 فیصد کمی کے ساتھ 2,882.70 ڈالر فی اونس پر بند ہوا۔
کرپٹو کرنسی مارکیٹ میں بھی زوال
بٹ کوائن کی قیمت میں 4.88 فیصد کمی ہوئی اور یہ 79,028.58 ڈالر تک گر گیا، جو نومبر کے بعد اس کی کم ترین سطح ہے۔
ٹرمپ کا مؤقف اور سرمایہ کاروں کے خدشات
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ امریکی معیشت ایک ”منتقلی کے دور“ سے گزر رہی ہے اور مستقبل قریب میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، ہم دولت کو امریکہ واپس لا رہے ہیں، اور یہ بہت اہم ہے۔‘
وال اسٹریٹ کے ماہرین کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ بظاہر اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اور یہاں تک کہ کساد بازاری کو بھی اپنے وسیع تر اہداف کے لیے قبول کر رہی ہے۔ ماہر معاشیات راس میفیلڈ نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’یہ وال اسٹریٹ کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے، کیونکہ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ٹرمپ اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں لگتا۔‘
امریکی صدر کے غیر متوقع بیانات اور عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال کے باعث سرمایہ کار محتاط نظر آ رہے ہیں، جبکہ مارکیٹ میں مزید اتار چڑھاؤ کی توقع کی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
تبدیل ہوتی دنیا
صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیز کے تحت پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات جو وہ آزاد تجارت کو کچلنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ایسی پالیسیز ماضی میں امریکا کے کسی صدر نے نہیں لاگو کیں اور دوسری طرف ہیں ماحولیاتی چیلنجز جن کا سامنا ہم نے کرنا ہے۔
انٹارکٹیکا اور الاسکا جو دنیا کے نارتھ اور ساؤتھ پول ہیں وہاں برف کے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یقینا سمندر کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی اراضی اور اثاثے سمندر نگل رہا ہے۔ بہت سے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ تیسری مائیکرو چپ نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت سے زیادہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیز دنیا کی آزاد تجارت کو کچلنے کے مترادف ہیں، ان پالیسیز نے نہ صرف دنیا بھرکے ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پالیسیز خود امریکا کی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
امریکا کی بانڈز مارکیٹ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹ تھی۔ دنیا میں جہاں بھی سر پلس ہوا وہ امریکی حکومت کے (بانڈز) خرید کرتے تھے مگر اب ٹرمپ کی حکومت میں دنیا امریکی بانڈز خریدنے سے شش و پنج میں ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا تھا کہ سٹہ لگانے والے اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت میں ڈرٹی کیپیٹل ازم پروان چڑھے گا۔
اسٹاک ایکسچینج کو ایک دم سے گرایا بھی جائے گا اور اچانک بڑھایا بھی جائے گا اور اس اتار چڑھاؤ سے کچھ مخصوص لوگ مستفید ہوںگے۔ جب صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک جو امریکا کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے تھے، ان پر بھاری ٹیرف عائد کیے تو اسٹاک مارکیٹ نے لگ بھگ پانچ ہزار ارب ڈالرگنوا دیے۔
ان کے اثاثوں کی قیمت گر گئی۔ پھر چند ہی دنوں میں صدر ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نیو یارک اسٹاک مارکیٹ واپس چار ہزار ڈالر چڑھ گئی۔ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس کا یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی یہ اطلاعات تھیں جن سے انھوں نے اربوں ڈالرکمائے ہوںگے۔
مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر ٹرمپ کی پالیسیاں، تضادات کو تیزکررہی ہیں۔ یوکرین کی معدنیات پر ٹرمپ حکومت اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ یورپ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا، وہ امریکا سے بدظن ہوچکا ہے۔
امریکا کی اب کوشش یہ ہے کہ روس سے تعلقات بہتر کیے جائیں، روس اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ دوسری طرف یورپین یونین، امریکا کی ان غیر مستقل مزاج پالیسیزکو دیکھتے ہوئے دنیا کے اندر ایک نئے عالمی لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے اور یہ نیا لیڈر چین بھی ہو سکتا ہے۔
اس تمام منظرنامے میں ایک نئی قوت اور تیسری بڑی عالمی قیادت بہت تیزی سے ابھر رہی ہے وہ ہے بھارت۔ امریکا کی بیشترکمپنیوں نے ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کی گاڑیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ اسی طرح یورپ نے بھی جس سے ایلون مسک کو لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
مگر اس دنیا کی تیزی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا ہماری کوئی تیاری ہے؟کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا ہے، جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہم پر بھی لاگو ہوںگی۔
ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ یقینا ہم پر بھی ان پالیسیز کے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ امریکا یہ چاہے گا کہ پاکستان پر اسی طرح کے دباؤ ڈال کرکچھ شرائط عائد کی جائیں اور ان شرائط کی مد میں اپنے من پسند کام لیے جائیں۔
پاکستان کی سیاست میں جب بھی امریکا نے پالیسیز بنائیں، ان سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچااور خاص کر ان ادوار میں جب امریکا میں ری پبلیکن کا دورِ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہوگی، اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں افغانستان، امریکا سے ٹکراؤ بڑھائے گا،کیونکہ امریکا کو بٹگرام ایئر پورٹ واپس چاہیے۔
امریکا نے اس حوالے اپنی درخواست ، طالبان کے آگے پیش بھی کردی ہے۔ امریکا، ایران کے ساتھ فوجی محاذ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس منظرنامے میں دونوں ہی ممالک ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت یعنی ہندوستان بھی ہمارا پڑوسی ہے۔
اگر ہم امریکا کا جائزہ لیں تو داخلی اعتبار سے موجودہ انتظامیہ میں، پاکستان کوئی دیرینہ دوست نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ سول قیادت ایک سال گزار چکی ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو اس حکومت کو ہٹانے کے لیے زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔
بس ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جو معاشی بحران عمران خان کی حکومت میں آیا تھا، اب ملک اس بحر ان سے نکل چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ یقینا شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اس دورِ حکومت میں پارلیمنٹ اور سول حکومت اتنی آزاد نہیں جتنی آزادی بانی پی ٹی آئی کے دور میں میسر تھی۔
بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس تیزی میں اس حکومت کے خلاف آوازیں ابھر رہی ہیں۔ موجودہ بحران بانی پی ٹی آئی کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کی مداخلت ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست میں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے جیسے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں آزاد نہیں رہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے اسٹیج پر پہلی مرتبہ اتنی نمایاں اور واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان دنیا کے سات ملکوں میں شمار ہوتا ہے جو اس بحران کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی پر بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے نقل و حمل کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔
ہماری داخلی سیاست انتہائی کمزور ہے۔ کسی مضبوط سول قیادت کا وجود نہیں جو ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ٹکراؤ میں بھرپور انداز میں ہماری ترجمانی کرسکے بلکہ ایسی مضبوط سول قیادت بھی میسر نہیں جو چار یا تین صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ فیڈریشن کے حوالے سے پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہاں بلوچستان کا بیانیہ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا کا بیانیہ الگ ہے اور اب سندھ میں بھی ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔
یہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آرہی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کانگریس نے انگریز حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلائی اور ان تحاریک میں سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر تھے جنھوں نے انگریز سامراج کو کمزور دیکھتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔صرف امید کی کرن ہے ٹیکنالوجی کے اندر انقلاب ! اس انقلاب میں چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔
لاکھ بحران سہی لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پچیس سالوں سے دنیا میں آزاد تجارت کا سکہ چل رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے مزید سے مزید ترقی پائی۔صدر ٹرمپ اس وقت جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کی آزاد تجارت کو کچل دیں گے۔
دائیں بازو کی پاپولر ازم بھی اس وقت اپنی انتہا پر ہے۔ یقینا اس کا زوال بھی ہوگا مگر جانے سے پہلے جو منفی اثرات چھوڑے گا، وہ دنیا کے لیے بہت خطرناک ہوںگے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اگر اسی رفتار سے رواں رہیں تو دنیا ایک بہت بڑے بحران میں داخل ہو رہی ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے بحران کو جنم نہیں دیتیں تو دائیں بازو کے پاپولر ازم کو شکست ہوگی جو دنیا کو اس وقت تیسری جنگِ عظیم کے دہانے لے آیا ہے۔