— فائل فوٹو

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ جب سپریم کورٹ بیٹھ جائے تو پھر وہ مکمل انصاف کا اختیار بھی استعمال کرسکتی ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

آج وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ سلمان اکرم راجہ اور اور عزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل میں ایف بی علی کیس پر بات کی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ایف بی علی کیس کا وہ متعلقہ پیراگراف آپ کے سامنے رکھتا ہوں، ایف بی علی کیس کو جس طرح سےدوسری طرف نے اپنے دلائل میں بیان کیا وہ کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔

آرمی ایکٹ میں درج جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال نے سوال اٹھا دیا

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار لازمی نہیں ہوتا، ایف بی علی کیس میں کہا کہ آرمڈ فورسز کے ممبران پر بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی علی کیس کلاز ڈی کی بات کرتا ہے کہ اس کے تحت شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل ہوں گے، پھر ایف بی علی کیس کے تناظر میں کلاز ڈی کے ہوتے شہریوں کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے؟ یہی سوال ہے جو میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے۔

بعد ازاں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: ایف بی علی کیس جسٹس جمال نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

منگنی توڑنے اور پرانی رنجش پر قتل کرنے والے مجرم کی اپیل خارج،2 بار عمر قید کی سزا برقرار

قتل کے مجرم رِفعت حسین کی اپیل خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے دو بار عمر قید کی سزا برقرار رکھی۔

سپریم کورٹ نے دوہرے قتل کے کیس میں مجرم رِفعت حسین کی اپیل خارج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کی جانب سے سنائی گئی دو بار عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا اور ساتھ ہی پراسیکیوشن کی جانب سے سزا بڑھانے کی درخواست بھی خارج کر دی۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا درست عدالتی اختیار استعمال کیا تھا، اور پراسیکیوشن نے مجرم کے خلاف کیس شک سے بالاتر ثابت کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ مجرم کی موجودگی، کردار، اسلحہ کی برآمدگی، طبی شواہد اور طویل مفروری پراسیکیوشن کے کیس کے مطابق ثابت ہوئے ہیں۔

رِفعت حسین اور پولیس مقابلے میں مارے جانے والاشریکِ ملزم غلام عباس  یکم اگست 2003 کو محمد اشفاق اور ضیاء الحق کے قتل میں ملوث تھے، جس کی وجہ ٹوٹی ہوئی منگنی اور پرانی رنجش بتائی گئی تھی، اور مجرم رِفعت حسین کو 3 مئی 2012 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ مفرور ہونے کے باعث رِفعت حسین نے اپنے دفاع کا حق ضائع کیا اور قانون کے مطابق اس کا پہلے دیا گیا بیان اس کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: زیادتی کیس کے ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
  • منگنی توڑنے اور پرانی رنجش پر قتل کرنے والے مجرم کی اپیل خارج،2 بار عمر قید کی سزا برقرار
  • سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے آنے والا شخص چل بسا
  • سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آنے والا راولپنڈی کا رہائشی چل بسا
  • سپریم کورٹ کے استقبالیہ پر دل کا دورہ، راولپنڈی کے رہائشی عابد حسین چل بسا
  • سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے آنے والا راولپنڈی کا رہائشی چل بسا
  • بھارتی سپریم کورٹ نے شبیر شاہ کی درخواست ضمانت پر سماعت 7 جنوری تک ملتوی کر دی
  • سپریم کورٹ میں کرسمس کی مناسبت سے تقریب، چیف جسٹس نے کیک کاٹا 
  • ایمان مزاری، ہادی چٹھہ کو سپریم کورٹ سے ریلیف، حکم امتناع جاری
  • سپریم کورٹ: متنازع ٹویٹ کیس، ایمان مزاری کیخلاف ٹرائل روکنے کا حکم