جس دن اختیارات آگئے تو دما دم مست قلندر ہوگا: کامران ٹیسوری
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک) گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہےکہ اختیارات نہ ہونے کے باوجود اتنے کام ہورہے ہیں اختیارات ہوں گے تو دما دم مست قلندر ہوگا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری سحری کرنے کیلئے لیاقت آباد پہنچے جہاں پر ان کے ساتھ منتخب نمائندے اور متحدہ قومی موومنٹ کے علاقائی عہدیدار بھی تھے، اس موقع پر گورنر سندھ کا استقبال آتش بازی کے ذریعے کیا گیا۔
گورنر سندھ نے لیاقت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کو کہتا ہوں لیاقت آباد کی لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے،کل کے الیکٹرک کے ایم ڈی کے کو بلاکر کہوں گا لیاقت آباد کی لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے۔ کامران ٹیسوری نے کہا کہ پاکستان اگلے 2 سے3 سالوں میں پاؤں پر کھڑا ہوجائےگا، اختیارات نہ ہونے کے باوجود اتنے کام ہورہے ہیں اختیارات ہوں گے تو دما دم مست قلندر ہوگا، جس دن اختیار ہوگا ہر شخص کا اپنا گھر اپنی چھت اپنا روزگار ہوگا اور ہر شخص با اختیار ہوگا۔
کینیا میں صدر کے چرچ کو دیے گئے عطیے پر ہنگامے پھوٹ پڑے
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کامران ٹیسوری گورنر سندھ
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔