زندگی مختصر ہے، معاف کرنا سیکھیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ )
رمضان کہنے کوتومہمان ہے،مگریہ ماہِ رحمت درحقیقت ہمیں یہ احساس دلانے آتاہے کہ پوراسال اللہ تبارک وتعالیٰ ہم پرجواپنی بے شمارنعمتوں کی بے حساب بارشیں کرتارہتاہے،ہمیں ان کی صحیح قدرنہیں ہوتی اورمحض ایک مہینہ صرف دن کے اوقات میں ان نعمتوں سے دوری ہمیں ان کی اہمیت بتا دیتی ہے ،کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر اس چیزکی قدر کرتا ہے، جواس کی پہنچ سے دورہو۔پھریہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ کچھ افراد، بالخصوص نوجوان رمضان کا پورا مہینہ تو باقاعدگی سے نمازوں اوردیگرعبادات کااہتمام کرتے ہیں، مگرعیدکاچاندنظرآتے ہی ایسے غافل ہوتے ہیں، جیسے شیطان ان ہی کے انتظارمیں تھا ۔ یادرکھیے! رمضان رحمتیں،برکتیں،گناہوں کو بخشوانے،اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا تو مہینہ ہے ہی،لیکن یہ’’ماہِ تربیت‘‘ بھی ہے، یعنی اس ماہ جتنے نیک اعمال اورعبادات کی جاتی ہیں، اگروہ سال کے گیارہ مہینے ہمارے معمولات میں شامل نہیں ہوتیں،تویہ افسوس کامقام ہے۔ رمضان المبارک میں اپنائے گئے اچھے اعمال کااثرہماری روزمرہ زندگیوں پرنہیں پڑ رہا ،تویہ لمحہ فکریہ ہے۔ہمیں رمضان کریم کی اصل روح کو پہچاننا ہوگا۔ اپنامحاسبہ کرناہو گا کہ اس جیساپاکیزہ مہینہ بھی اگرہماری زندگیوں میں مستقل تبدیلی نہیں لاپارہا توکمی کیااور کہاں ہے۔رمضان تواپنی بہاریں ویسے ہی لئے ہوئے آتا ہے، مسئلہ توہم میں ، ہماری سمجھ اور ہمارے کردارمیں ہے۔ انسان چونکہ مادی اور جسمانی پہلو کے علاوہ معنوی اور روحانی پہلو کا بھی حامل ہے توان پہلوئوں کے کمال تک پہنچنے کے لئے خاص طریقہ کار ہیں،معنوی پہلو کی پرورش اورطاقت کاایک طریقہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے،یعنی اگرانسان اپنے آپ کو معنوی پہلوکے لحاظ سے ترقی دینا چاہے اورمطلوبہ طہارت وکمال تک پہنچناچاہے ، تواسے اپنی نفسانی خواہشات پرغالب ہوناپڑے گااور کمال کے راستے میں موجودہ رکاوٹوں کویکے بعددیگرے ہٹانا ہو گا اورجسمانی لذتوں اور شہوتوں میں مصروفیت سے بچناپڑ ے گا۔
تقویٰ ہراس آدمی کی زندگی کالازمہ ہے جو عقل کے حکم کے تحت زندگی بسرکرتاہواسعادتمندانہ حیات تک پہنچناچاہتاہے۔دینی اور الہٰی تقویٰ یہ ہے کہ انسان ان اصول پرعمل پیر ا ہوجن کودین نے زندگی کے لئے مقررکیاہے اورگناہ سے اپنے آپ کو بچائے۔ انسان کو اپنی روح میں ایسی کیفیت اور طاقت پیدا کرنی پڑے گی جواسے گناہ سے سامنا ہوتے ہوئے، گناہ سے محفوظ کرلے یہاں تک کہ تقویٰ کی طاقت کے ذریعے اپنے نفس اورنفسانی خواہشات پرغلبہ پالے اور اپنے دامن کواللہ کی معصیت اورگناہ کرنے سے آلودہ نہ کرے۔ قرآن مجیدکی نظرمیں ہرعبادت کی قبولیت کی شرط تقوی اورپرہیزگاری ہے، جہاں ارشادالٰہی ہے،اللہ صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال کوقبول کرتاہے۔روزہ اورتقویٰ کاآپس میں گہراتعلق ہے،جس کی وضاحت قرآن وحدیث میں تفصیل سے کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول قرار دیا ہے۔تقویٰ کے لئے مؤثراورمفیدایک عمل،روزہ ہے جس کی مشق کرتے کرتے انسان اس بات کوسیکھ لیتاہے اورسمجھ جاتا ہے کہ اپنی لگام کوہواوہوس کے ہاتھوں میں نہ تھمادے اوریہ بالکل عین تقویٰ ہے۔روزہ کامقصد تقویٰ کاحصول ہے،قرآن کریم میں پروردگار کا ارشاد ہے: صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پرلکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ۔
(لعلم تتقون تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو) اس آیت میں روزے کی فرضیت کابنیادی مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے۔تقویٰ کامطلب ہے اللہ کا خوف گناہوں سے بچنا، اورنیکیوں کی طرف رغبت اوراحکامات الہی کی پابندی ہے۔ روزے کے ذریعے انسان اپنی نفسانی خواہشات، لالچ، اورغلط عادات کوکنٹرول کرتااور عملی تربیتی نظام فراہم کرتاہے اوراپنی روحانی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتاہے، جوکہ تقویٰ کی بنیادہے۔نبی اکرم ﷺنے بھی روزے کو تقویٰ کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔(صحیح بخاری:1894، صحیح مسلم: 1151 ) روزہ (گناہوں سے بچنے کیلئے)ایک ڈھال ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ روزہ انسان کوبرے اعمال،خواہشاتِ نفس اورشیطانی وسوسوں سے بچاتا ہے، جوتقویٰ کی علامت ہے۔
چونکہ روزہ کامقصدتقویٰ حاصل کرناہے تو انسان روزہ رکھنے سے کچھ چیزوں سے پرہیز کرنے اوربعض لذتوں سے محروم رہنے کی مشق کرتے ہوئے حرام سے پرہیزکرنے اوراللہ کے احکام کوبجالانے پرتیار ہو جاتاہے۔جب انسان کاگناہ سے سامناہوتاہے تووہاں تقویٰ اختیارکرنا چاہیے اورتقویٰ اختیارکرنا پختہ ارادہ کے بغیرممکن نہیں،روزہ کاہدف چونکہ تقویٰ کاحصول ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ایسی چیزہے جوانسان کوگناہ سے بچاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، روزہ (جہنم کی)آگ کے سامنے ڈھال ہے۔
روزہ تقویٰ کی عملی تربیت کابہترین ذریعہ ہے۔یہ انسان کواللہ کے قریب کرتاہے،نفس کو پاکیزہ بناتاہے،اورمعاشرے میں رحم دلی پھیلاتا ہے۔قرآن وحدیث میں اس ربط کوبار بارواضح کیاگیا ہے تاکہ مومن روزے کوصرف ایک رسم نہ سمجھے،بلکہ اسے اپنی زندگی میں تقویٰ کی روشنی پھیلانے کاذریعہ بنائے۔تقویٰ کی تعریف تویہ ہے کہ ہرحال میں اللہ کی ناراضگی سے ڈرنا، ہر حال میں اس کی رضا کو ترجیح دینا،ہر قسم کے گناہوں (چھوٹے ہوں یا بڑے)سے بچنا،اورروزہ انسان کو بھوک، پیاس،اورجنسی خواہشات جیسی بنیادی ضرورتوں پرقابوپاناسکھاتاہے۔یہی قابوتقویٰ کی پہلی سیڑھی ہے اور روزہ ان تمام پہلوئوں کومضبوط کرتاہے۔پھریہی نہیں روزہ روحانی پاکیزگی کا بہترین زینہ ہے۔اسی لیے ارشاد ربانی ہے،اے لوگوں جوایمان لائے ہو،اللہ سے ڈروجیساکہ اس سے ڈرنے کاحق ہے،تم کوموت نہ آئے مگراس حال میں کہ تم مسلم ہو۔رسول اللہﷺنے فرمایا : جوشخص روزہ دار کو افطارکرواتاہے،اسے بھی روزہ دارکے برابراجر ملتا ہے۔ (سنن ترمذی:807) روزہ تقویٰ کی عملی تربیت کابہترین ذریعہ ہے۔یہ انسان کواللہ کے قریب کرتاہے،نفس کو پاکیزہ بناتاہے،اورمعاشرے میں رحم دلی پھیلاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس ربط کوباربارواضح کیا گیا ہے تاکہ مومن روزے کوصرف ایک رسم نہ سمجھے،بلکہ اسے اپنی زندگی میں تقویٰ کی روشنی پھیلانے کاذریعہ بنائے۔تقویٰ اورروزے کاآپس میں اتناگہراتعلق ہے کہ تقویٰ کے معنی اپنے آپ کوبچانا اور روکنا ہے، اور روزہ کامطلب بھی امساک اورایک طرح کااپنے آپ کوبچاناہے ۔ ان کا آپس میں فرق یہ ہے کہ تقوی،ہراس چیزسے نفس کوبچاناہے جوانسان کے نفس اورتقویٰ کو نقصان پہنچاتی ہے،لیکن روزہ خاص مقررکردہ چیزوں سے پرہیز ہے جوروزہ کے باطل ہونے کاباعث ہیں اور روزہ دارکوتقویٰ تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔اس تعریف کے مطابق تقویٰ اوراس کے مصادیق کی حد،روزہ کی حدسے زیادہ وسیع ہے۔لہذاان چیزوں سے بچناجوروزہ کو باطل کرتی ہیں،تقویٰ تک پہنچنے کاسبب ہے۔اس بات کے پیش نظرکہ روزہ کے ذریعے انسان کوتقویٰ حاصل کرناہے تواگرروزہ کی حالت میں ایک طرف سے انسان کوکھانے پینے اوردیگرکچھ کاموں سے منع کیا گیا ہے تو دوسری طرف سے ایسے اعمال بجا لانے کاحکم بھی دیا گیا ہے جوایمان وعمل کی مضبوطی کا باعث ہیں،جیسے واجب ومستحب نمازیں پڑھنا، قرآن کریم کی تلاوت، صلوات ، استغفار، دعاو مناجات، غریبوں کی مدد،صلہ رحمی،اخلاق کواچھا کرنا اورکئی دیگر اعمال ۔ہم انسان ہیں۔ خطاکار ہیں۔ہم لاکھ چاہیں کہ دل آزاری نہ کریں۔کسی کی عزت نفس پامال نہ کریں۔کسی کودکھ نہ دیں۔ لیکن ہوجاتی ہے غلطی۔لیکن انسان وہ ہے جواپنی غلطی مانے اورجس کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے معذرت کرے ۔ آپ سب بہت خوش رہیں۔ میر ارب آپ کی زندگی سکون وآرام سے بھر دے۔ آپ سدا مسکرائیں، آپ کی زندگی میں کوئی غم نہ آئے۔بہار آپ کامقدر بن جائے۔ہر شب شبِ برات بن جائے۔
میں شیشہ گر نہیں، آئینہ سازی تو نہیں آتی
جو دل ٹوٹے تو ہمدردی سے اس کو جوڑ دیتا ہوں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انسان کو کہ روزہ کہ تقوی ہے اور
پڑھیں:
کوہ ہندوکش و ہمالیہ میں برف باری کم ترین سطح پر پہنچ گئی، دو ارب انسان خطرے سے دوچار
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایشیا کے سلسلہ کوہ ہندوکش-ہمالیہ میں برف باری کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس سے تقریباً دو ارب افراد کی زندگی خطرے میں ہے۔
یورپی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی پیر کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایشیا کے سلسلہ کوہ ہندوکش-ہمالیہ میں برف باری 23 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس سے برف پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر انحصار کرنے والے تقریباً دو ارب افراد کی زندگی خطرے میں ہے۔
ہندوکش-ہمالیہ کا سلسلہ کوہ، جو افغانستان سے میانمار تک پھیلا ہوا ہے، آرکٹک اور انٹارکٹکا کی حدود سے باہر برف اور پانی کے سب سے بڑے ذخائر کا حامل ہے اور تقریباً دو ارب افراد کے لیے تازہ پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ ( آئی سی آئی ایم او ڈی ) نے کہا کہ محققین نے اپنی اسٹڈی کے دوران ’ ہندوکش ہمالیہ کے خطے میں موسمی برف میں نمایاں کمی پائی ہے، جہاں برف کے جمے رہنے کا دورانیہ (زمین پر برف کے موجود رہنے کا وقت) معمول سے 23.6 فیصد کم ہوگیا ہے۔ یہ شرح 23 سال میں سب سے کم ہے۔
برف کی صورتحال کی رپورٹ میں ادارے نے کہا کہ ’ مسلسل تیسرے سال سے ہمالیہ میں برف باری میں کمی کا رجحان ہے جس سے تقریباً دو ارب افراد کے لیے پانی کی قلت کا خطرہ پید اہوگیا ہے۔ ’
تحقیقی مطالعے میں’ دریائی بہاؤ میں ممکنہ کمی، زیر زمین پانی پر بڑھتا ہوا انحصار، اور خشک سالی کے خطرے میں اضافے’ کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا ہے۔
آئی سی آئی ایم او ڈی کی رپورٹ کے مصنف شیر محمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سال جنوری کے آخر میں برف باری دیر سے شروع ہوئی اور موسم سرما میں اوسطاً کم رہی۔
خطے کے کئی ممالک پہلے ہی خشک سالی کی وارننگ جاری کر چکے ہیں، اور آنے والی فصلوں اور ان آبادیوں کے لیے پانی کی فراہمی میں کمی کا خطرہ ہے جنہیں پہلے ہی گرمی کی طویل اور بار بار آنے والی لہر کا سامنا ہے ۔
بین الحکومتی تنظیم آئی سی آئی ایم او ڈی رکن ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان پر مشتمل ہے۔
آئی سی آئی ایم او ڈی نے خطے کے 12 بڑے دریائی طاسوں پر انحصار کرنے والے ممالک پر زور دیا کہ وہ ’ پانی کے بہتر انتظام، خشک سالی کی بہتر تیاری، بہتر ابتدائی انتباہی نظام اور علاقائی تعاون میں اضافے پر توجہ دیں۔’
تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ میکونگ اور سالوین طاس ، جنوب مشرقی ایشیا کے دو طویل ترین دریا جو چین اور میانمار کو پانی فراہم کرتے ہیں ، اپنی تقریباً نصف برف کی تہہ کھو چکے ہیں۔
آئی سی آئی ایم او ڈی کے ڈائریکٹر جنرل پیما گیامٹسو نے برف کی کم سطح سے نمٹنے کے لیے پالیسیوں میں طویل مدتی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم ( ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن) کے مطابق، ایشیا موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے گزشتہ ماہ اطلاع دی تھی کہ پچھلے چھ میں سے پانچ سالوں کے دوران گلیشیئروں کے پگھلنے کی رفتار تیز ترین رہی ہے۔
مزیدپڑھیں:سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ، نرخ نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے