Daily Ausaf:
2025-04-22@05:55:42 GMT

چلتی پھرتی کہانیاں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

جماعت اسلامی ہیرے تراشنے میں کمال رہی ہے،پروفیسر غفور احمد سے موجودہ امیر انجینئرحافظ نعیم الرحمان تک ایک ایک ہیرا تراش کر دھرتی کی نذر کیا۔مگر اس حوالے سے جماعت کے مقدر میں سیاسی کامیابیاں بہت کم آئیں کہ مولانا کوثر نیازی سے مخدوم جاوید ہاشمی تک جو سیاست کے آسمان کا ستارہ بنا وہ ٹوٹ کر کسی اور کے آنگن میں اترگیا ۔
دراصل ایک قاری نے مولانا کوثر نیازی مرحوم کی مشہور زمانہ کتاب ’’ اور لائن کٹ گئی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کی بھی لائن کٹ گئی کہ سیاست پر سے یکسر ہاتھ اٹھا لیا ہے اور قلم مذہبی شخصیات کو معنون کردیا ہے‘‘ انہیں کیا عرض کروں کہ سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے چالیس برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ،مجال ہے میرے یا مجھ ایسے دشت سیاست میں آبلہ پائی کرنے والے کسی ایک شخص کے بھی سیاست یااہل سیاست پر اثرات مرتب ہوئے ہوں ، ہم نے راہ سیاست کے کانٹے بہت چنے مگر کانٹے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے گئے مگر ہم بھی وہ ٹھہرے کہ بقول شاعر۔
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو سبزہ زار کا
پالا ہوا ہے یہ بھی نسیم بہار کا
مارشل لا ء یا نیم مارشل لا ء ادوار میں تو جو سہا سو سہا ،جمہوری ادوار میں تو سانس تک لینا دشوار رہا کہ کہیں سے عملی دبائو آیا یا نہیں اپنے ضمیر نے اس قدر کچوکے لگائے کہ الامان الحفیظ ۔اکثر شکیب جلالی کا یہ شعر پڑھ کر روپڑے یا ہنس دیئے کہ
جو بھی حساس ہے زمانے میں
اس سے کہہ دو گھٹ کے مرجائے
شکیب تو بہت ہی حساس نکلے کہ ریل گاڑی سے سر ٹکرا کر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اورہم تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کیا کریں ،حکمرانوں ہی کی مہربانیوں سے نہیں شہر کے دوست نما دشمنوں کے ہاتھوں بھی رسوا ہوئے مگر گلانہیں کیا کہ مروت بھی کوئی شے ہوتی ہے اور اب جوسیاسی حالات سے روگردانی کی ٹھانی ہے تو ابھی تک یکسر فیصلہ نہیں کرپائے ،کبھی پانی سر تلک پہنچ جاتا ہے تو ایک ذرا سی دیرکو سیاسی حالات پر لکھنا اندر کی مجبوری بن جاتا ہے ۔
یوں بھی بنیادی طور پر کہانی گر ہوں اور ملک کے مشہور سرجن (ماہر میل انفرٹیلیٹی) معروف مصور و مجسمہ ساز دوست ڈاکٹر خلیق الرحمان سال ہا سال سے ایک ہی شکوہ کرتے رہے ہیں کہ ’’اندر کا کہانی کار مارنے پر تلے ہو پروہ بھی اتنا سخت جان ہے کہ مرنے نہیں پارہا‘‘ اور اب تو میرے گھر میں اس تحریک کا زور ہے کہ اخبار سے رشتہ توڑدوں اور اپنی بچھڑی ہوئی کہانیوں کو پھر سے گلے لگالوں کہ اسی میں پناہ اور اسی میں عافیت ہے ۔جب سے بڑے بیٹے حسن سرمد کے سر میں کہانی گری کا سودا سمایا ہے اپنے ساتھ ساتھ اس پر بھی ترس آنے لگا ہے کہ یہ راستہ کا نٹوں بھرا ہے اب اسے بھی یہ چننے پڑیں گے پھر کسی دن کسی ’’ماہ نو‘‘ جیسے ادبی جریدے سے کوئی کہانی اس جملے کے ساتھ واپس آئے گی کہ ’’اپنے پاس رکھو یہ کہانی کہ ہم آئینہ دیکھنے کے موسم میں پیدا نہیں ہوئے تھے‘‘ ۔
(کشور ناہید) اظہاریئے کا آغاز مولانا کوثر نیازی کے ذکر سے ہوا تھا ،اتفاق سے ان کی وفات بھی اسی ماہ یعنی مارچ کی انیس تاریخ(1994) میں ہوئی تھی ،سیاسی زندگی کی ابتدا جماعت اسلامی سے ہوئی ،مولانا مودودی کی فکر کے متاثرین میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔جتنا عرصہ جماعت میں رہے سرگرم کارکن رہے ،پائے کے مقرر تھے اور بہت ہی عمدہ صحافی بھی مگر انہوں نے اپنا اندر کا صحافی پاکستان پیپلزپارٹی کی بھینٹ چڑھا دیا ،سیکولر مزاج اپنایا تو جماعت سے فاصلے بڑھتے چلے گئے آخر کار جماعت کی سخت گیر پالیسیز اور رجعت پسندانہ نظریات سے گریز پا ہوئے اور 1950 ء میں اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرلیا اور پی پی پی میں شامل ہوگئے پھر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو سے قربت پیدا کر لی ۔ پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو وزارت اطلاعات کا قلمدان مولانا کوثر نیازی کے حصہ میں آیا ،تب خطابت سے سیاست چمکائی اور رواں نثر سے صحافت میں نام پیدا کیا ۔عملی سیاست میں جماعت اسلامی سے وابستگی کا مرثیہ ہی پڑھتے رہے اور جب پھر جب پیپلزپارٹی پر برا وقت آیا تو ایک بار پھر ان پر موقع پرستی کا الزام لگا کہ انہوں نے پارٹی کے ڈوبتے ہوئے سورج کے پیش نظرنئے آنے والے حکمرانوں کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردیں ۔
بہر حال جو کچھ بھی تھے ان کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار رہا ، جسے بھلایا نہیں جاسکتا اور رہے ہم تو چلتی پھرتی کہانیاں ہیں کبھی ہم بھی قصہ پارینہ ہوجائیں گے کہ۔
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی

پڑھیں:

 کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ 

ٹوبہ ٹیک سنگھ  (اے پی پی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ اتحادیوں کے تحفظات دور کرنا ہمارا فرض ہے۔ آئین و قانون کے مطابق کسی صوبے کا پانی کسی دوسرے صوبے کو نہیں جا سکتا، پانی کی تقسیم انتظامی معاملہ ہے اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ ملکی معاشی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ تحریک انصاف نے انتشار اور تباہی و بربادی کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے بھی میڈیا سے گفتگو میں افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرنے کی بات کی جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کا تقاضا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر معاملات کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1991ء کا معاہدہ، 1992ء کا ارسا ایکٹ اور آئین و قانون بھی موجود ہے،آئین و قانون کے مطابق کسی صوبے کا پانی کسی دوسرے صوبے کو نہیں جا سکتا، پانی کی منصفانہ تقسیم کا نظام موجود ہے۔ ہماری لیڈر شپ سمجھتی ہے کہ بات چیت سے تحفظات دور کئے جائیں۔ اتحادیوں کے تحفظات دور کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، اوورسیز پاکستانیز کی جانب سے مارچ کے مہینے میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ترسیلات زر آئیں، ایس آئی ایف سی اور آرمی چیف کی محنت کی بدولت ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا، ایک سال پہلے پاکستان کے دشمن شرطیں لگا رہے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا، آئی ایم ایف کو خط لکھے جا رہے تھے، آج عالمی ادارے پاکستان کی معاشی ترقی کو سراہ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاست تقسیم کا شکار ہو چکی ہے، پی ٹی آئی کے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، تحریک انصاف نے قوم کو تقسیم کیا اور لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کیا، آج وہی فصل خود کاٹ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے انتشار اور تباہی و بربادی کے سوا  قوم کو کچھ نہیں دیا۔ شہباز شریف کی قیادت میں ہماری پرفارمنس نظر آرہی ہے، آج پنجاب میں ترقی کا سفر جاری ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، انشاء اللہ ملک ترقی کرے گا۔ تحریک انصاف نے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کی ہے، آج بھی تحریک انصاف ملک کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے، آرمی چیف نے حال ہی میں اپنی تقریر میں دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کو دو ٹوک پیغام دیا جبکہ تکلیف پی ٹی آئی کو ہوئی، پی ٹی آئی کو ملک میں امن و امان اور ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔

متعلقہ مضامین

  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات واپس اسی سطح پر لانا چاہتے ہیں جہاں مشترکہ امور پر بات ہوسکے، فضل الرحمان
  • لاہور، جماعت اہلحدیث کی غزہ کے مظلوموں کے حق میں ریلی
  • لگتا تھا طلاق ہوگئی تو مرجاؤں گی، عمران خان کی سابق اہلیہ کا انکشاف
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • شادی کی تقریب سے واپسی پر چلتی کار میں جنسی زیادتی کی کوشش، مزاحمت پر 26 سالہ مہندی آرٹسٹ قتل
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ 
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ
  •  سیاست میں دشمنی کا ماحول پی ٹی آئی نے پیدا کیا : طارق فضل چوہدری