رمضان المبار ک کاپہلا عشرہ اختتام پزیر ہو گیا ہے، لیکن اس ایک عشرے میں ہی ہمارے ہم مذہب تاجروں اور پھل فروشوں میں روزہ دار مسلمانوں کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی کھانے پینے کی بہت سی چیزوں (پھلوں’ سبزیوں’ گوشت’ کھجوروں’ بیسن’ چینی اور دوسری اشیا) کی قیمتیں بے قابو ہو گئی ہیں۔
دکانداروں نے ہر چیز کی قیمت میں پچاس سے سو روپے اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے عام پاکستانی کی قوتِ خرید مزید محدود ہو چکی ہے’ یوں لوگوں کے لیے افطاری یا سحری کا معقول انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عام آدمی کی پہلے ہی چیخیں نکل رہی تھیں’ رمضان المبارک میں چیزیں مزید مہنگی ہوئی ہیں تو گویا بے وسیلہ طبقے کی تو کمر ٹوٹ گئی ہے۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے آلو، پیاز، ٹماٹر سمیت کئی اشیاکے نرخ از خود بڑھا دیے ہیں، جبکہ وزیر خزانہ نے مارچ میں مہنگائی بڑھنے کاپہلے ہی امکان ظاہر کرکے منافع خوروں کو گویا قیمتوں میں اضافے کا جواز مہیا کردیاتھا ۔
اس طرحمضان کا مہینہ سپرمہنگائی کا مہینہ نظر آنے لگا ہے،مہنگائی میں اضافے کی بسم اللہ وفاقی حکومت نے چینی مزید مہنگی کر کے کر دی تھی۔
انتظامیہ کی جانب سے رمضان بازاروں اور پیکیجز کا اہتمام ہمیشہ کیا جاتا ہے اور ان کو مؤثر بنانے کے لیے عملی اقدامات کے اعلانات بھی کیے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجودزیادہ تر رمضان بازاروں میں دکانداروں کی من مانیاں عروج پر ہیں اور وہ غیر معیاری اشیا منہہ مانگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔
مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اوپر سے گیس کی لوڈشیڈنگ بھی ان کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ اگر ماہ رمضان میں افطار و سحر کے وقت بھی گیس کی عدم دستیابی کا سلسلہ جاری رکھاجائے تو یہ عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہی تصور کیاجائے گا اور اس پر شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز رمضان پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ رمضان پیکیج کے تحت رواں برس 40 لاکھ خاندانوں کو ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے 5 ہزار روپے فی گھرانہ دیے جائیں گے۔
اس پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ رواں برس رمضان المبارک میں مہنگائی ماضی کے مقابلے میں کم ہے لیکن مہنگائی میں کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے انھوں نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی اس رمضان المبارک میں عام آدمی کی ضرورت کی کس چیز کی قیمت میں کمی ہوئی ہے ،
یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ غالباً یہ بھی بھول گئے کہ رمضان المبارک سے چند روز قبل ہی خود ان کی وفاقی حکومت نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرکے مہنگائی میں اضافے کے معاملے میں بسم اللہ کی تھی اور اس طرح گراں فروشوں کو من مانی کا جواز فراہم کردیاتھا۔
مہنگائی کم ہونے کا یہ گھسا پٹا دعویٰ کرتے ہوئے وزیراعظم نے شاید کوئی اخبار اپنا پسندیدہ مدح سرا اخبار بھی دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ہوگا کیونکہ اس میں بھی انھیں کم از کم یہ تو پتہ چل ہی جاتا کہ ملک بھر کی میں بھی رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سبزیوں، پھلوں سمیت دیگر کھانے پینے کی اشیا کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا ہر سال کی رواں برس بھی رمضان المبارک کا آغاز مہنگائی کی نئی لہر سے ہوا ہے اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 10 سے 50 فیصد تک اضافہ کیاجاچکا ہے۔
ملک کے کسی شہرکے پوش متوسط یا پھر پسماندہ کسی بھی علاقے میں چلے جائیں ہر علاقے کے بازاروں میں مہنگائی کا جن بے قابو ہی نظر آتا ہے جبکہ انتظامیہ ہر سال کی طرح اس سال بھی وزیراعظم کی طرح مہنگائی پر کنڑول کے دعوے کررہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ناجائز منافع خور ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے مبینہ طور پر مارکیٹوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے، دنیا بھر میں مذہبی اور قومی تہواروں پر لوگوں کو ریلیف دیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں رمضان جیسے اہم ترین مہینے میں مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔
رمضان المبارک کی آمدپرجہاں کچھ بدبختوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے بیچاری عوام کومہنگائی کاجوتحفہ دیاہے اورحکومت نے جس طرح ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے وہاں ان ظالم ذخیرہ اندوزوں سے کڑے ہاتھوں سے نمٹنے اوران کی بیخ کنی کرکے غریب اور بیکس عوام کومہنگائی کی لعنت سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔
برطانیہ میں ہربڑے ا سٹورمیں رمضان المبارک کی آمدپرروزمرہ کی خوردو نوش کی قیمتوں کونصف قیمت تک سستاکر دیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستانی عوام آسمان کی طرف دیکھ کربڑی بے بسی کے ساتھ کسی ایسے مسیحا کی طرف دیکھ ر ہے ہیں جوان ظالموں اوربدعنوانوں سیان کو نجات دلوائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیں رمضان کریم کی برکتوں اوررحمتوں سے مستفیض ہونے کاسلیقہ اورتوفیق عنائت فرمائے۔ہمیں رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ہماری خطاؤں کومعاف فرمائے اوراس ماہِ رمضان کااحترام نصیب فرمائے۔
روزے اس لئے فرض کئے گئے کہ تقویٰ پیدا ہو لیکن ہم شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ تقویٰ نمود و نمائش کو کہتے ہیں اسی لئے ہمارے ارباب اختیار اس تقویٰ کا اظہار پرتکلف افطار پارٹیوں کے ذریعے کرتے ہیں یہ افطار پارٹیاں، پکنک پارٹی کی طرح ہوتی ہیں اور کثرت سے ہوتی ہیں۔
ایک غریب اور بے مایہ آدمی افطار کیلئے 50 روپے خرچ کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتا جبکہ ان افطار پارٹیوں پر فی کس 5 سے 10 ہزار روپے تک خرچ کر دئیے جاتے ہیں۔ لوگ بن ٹھن کر ان پارٹیوں میں آتے ہیں۔ لباس اور کروفر کی نمائش، کھانے کی میز پر اشیائے خورد و نوش کی ‘‘سرپلس’’ بہاریں، یہ ہے ہمارے ایلیٹ، سیمی ایلیٹ کلاس کا تقویٰ۔
پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں مقدس تہواروں کے آتے ہی ذخیرہ اندوز اور ناجائزمنافع خور حرکت میں آجاتے ہیں۔ مگرحکومت قانون شکن عناصر پر رٹ قائم کرنے میں ناکام رہتی ہے حکومت اپنے استحکام اقتدار کے مسائل میں الجھ کر عوام کے مسائل سے مکمل طور پر لا تعلق نظر آ تی ہے جس سے فائدہ اٹھا کر عوام کیلئے رفاعی پیکجز کے ضمن میں مختص کی گئی رقوم خوشامدی اور قرابت دار کھا جاتے ہیں۔
اگرچہ دکھانے کیلئے ان شکایات پر نوٹس لیا جاتا ہے مگر یہ سب کچھ کاغذوں تک محدود ہوتاہے’۔ حق دار کو حق نہیں ملتا اور ذمہ داران کو سزا نہیں ملتی۔ مفاد پرستی کا غلبہ اتنا ہوگیا ہے کہ ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی مثال قائم ہو چکی ہے جس سے ہرذی شعور آگاہ ہے۔اب تو صرف امدادی رقم (رمضان نگہبان پیکج)کا اعلان کر کے جان ہی چھڑوا لی گئی ہے جس کے حصول کے لیے شرائط بھی ہیں۔
تاریخ کی بد ترین مہنگائی میں اسے ریلیف کہنا دانشمندی نہیں ہے جبکہ وزرا و مشیران اور قصیدہ گو دانشوران کے مطابق حکومت کا یہ اقدام مثالی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس پیکیج کے تحت پورے ملک کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے؟ کیا اس ایجنڈا کے ثمرات سے عوام واقعی
مستفید ہو رہے ہیں۔ جب تک گورننس بہتر نہیں کی جاتی، عام بازاروں اور مارکیٹوں میں حکومتی رٹ قائم نہیں کی جاتی، اور ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی، عوام کو ان حکومتی اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔
حکومت کو کم از کم ماہ رمضان میں مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف مل سکے۔ اس ماہ مقدس میں بجلی اور گیس کی بلاتعطل ترسیل کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ افطار و سحر کے وقت عوام کو مزید ذہنی اذیت کا سامنا نہ ہو۔
وزیراعظم کو کسی دن خود اپنے چند مصاحبوں اور جی حضوریوں کو بتائے بغیر ملک کی کسی بھی مارکیٹ میں نکل کر اشیائے صرف کی قیمتیں معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس طرح انھیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ کاغذی رپورٹوں اور حقیقت میں فرق کتنا ہے۔ انھیں معلوم ہوجائے گا کہ مہنگائی پاکستان کا مستقل مسئلہ بن چکی ہے۔
گھی، کنگ آئل، دالیں، چینی، چاول اور ادویات جیسی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس نے عام شہری کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور وزیراعظم اپنے مشیروں اور وزیروں کی جعلی رپورٹوں کی بنیاد پر مہنگائی میں کمی کے غیرحقیقی دعوے کر رہے ہیں جو عوامی مشکلات اور زمینی حقائق کے منافی ہیں۔
وزیراعظم یقینا اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ مہنگی بجلی اور ناسازگار ماحول کے باعث روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں۔ رہائش، بجلی، گیس، پانی کے بل، اشیا خورد و نوش، زندگی بچانے والی ادویات اور تعلیمی اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ کھانا، پینا، علاج معالجہ، تعلیم اور رہائش بنیادی ضروریات ہیں، جن کی عدم دستیابی کسی بھی انسانی معاشرے کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔
ملک میں مزدور اور غریب طبقے کی اکثریت ہے جو اس وقت زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ مزدور رات دن مزدوری کرنے کیلئے تیار ہیں، لیکن روزگار کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی آمدنی بڑھانے سے قاصر ہیں۔
وزیراعظم خود بھی بار بار اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اضافی ٹیکس اور بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے موجودہ حالات میں کاروبار کرنا اور کارخانے چلانا مشکل ہو چکا ہے۔ یعنی حکمران حقیقت حال سے بے خبر نہیں ہیں کہ پاکستان میں مہنگی بجلی ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے، جس کے منفی اثرات نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ ملکی معیشت اور صنعتوں پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔
شعبہ زراعت اور صنعتی ادارے توانائی کے اضافی اخراجات کے سبب پیداوار پر اضافی لاگت اور مارکیٹ کے درمیان توازن قائم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے چھوٹے بڑے کاروباری ادارے بند ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مہنگی بجلی کی وجہ سے کاروباری ادارے اپنی پیداواری صلاحیت کو محدود کرنے پر مجبور ہورہے ہیں یا پیداواری عمل بند کر رہے ہیں، جس سے روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔وزیراعظم مہنگی بجلی اور اضافی ٹیکسز کے متعلق کئی مرتبہ اعتراف کر چکے ہیں اور یہ بھی کہا کہ جب تک بجلی سستی نہیں ہوتی، ٹیکس میں کمی نہیں آتی، کاروبار کرنا مشکل ہو گا۔ نائب وزیراعظم بھی حالات ٹھیک ہونے میں 15 سال کا عرصہ لگنے کا کہہ چکے ہیں۔
مہنگائی میں کمی کی خبریں بھلی لگتی ہیں، لیکن حقیقت میں گھی، آئل، دال، چاول، پٹرول، بجلی، گیس، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔
کاروباری مشکلات حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو رہی ہیں۔ صنعتی اداروں کے لیے مہنگی توانائی استعمال کرکے پیداوار جاری رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔
دیگر کئی ممالک میں بجلی سستی ہونے کے سبب وہاں کی پیداواری لاگت کم ہے، جس کی وجہ سے پاکستانیوں کے لیے عالمی مارکیٹ میں کاروبار کرنا ممکن نہیں رہا ہے اس صورت حال میں وزیر اعظم کو سب اچھا کی رٹ لگا کر ریت میں سر چھپانے اور عوام سے حقائق چھپا کر انھیں اندھیرے میں رکھنے کے بجائے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرکے انھیں اعتماد میں لینا چاہئے اور پھر عوام کے تعاون اور اشتراک سے اصلاح احوال کی کوشش کرنی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: مہنگائی میں کمی رمضان المبارک میں مہنگائی کا اعلان کر مہنگی بجلی قیمتوں میں کے ساتھ ہی ہو رہے ہیں میں اضافے کرتے ہوئے کی قیمتوں کی وجہ سے کہ رمضان کرنے کی نہیں کی ہیں اور عوام کو چکا ہے چکی ہے ہے اور کر دیا ہے ہیں گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
بجلی
ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔
ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔
اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔
پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔
لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔
بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔