ترکمانستان میں پاکستانی سفیر کو امریکہ میں داخلے سے روک کر ڈیپورٹ کر دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
واشنگٹن / اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) امریکی امیگریشن حکام نے ترکمانستان میں تعینات پاکستانی سفیر " کے کے احسن واگن" کو لاس اینجلس پہنچنے پر داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور انہیں فوری طور پر ڈیپورٹ کر دیا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ " کے کے واگن" کو امریکی امیگریشن حکام نے "امیگریشن اعتراضات" کی بنیاد پر روکا اور ان کی فوری ملک بدری کے احکامات جاری کیے۔ سفیر واگن کے پاس امریکی ویزا اور تمام سفری دستاویزات موجود تھیں۔ وہ ایک نجی دورے پر لاس اینجلس جا رہے تھے لیکن امریکی حکام نے ان کے سفر پر پابندی عائد کر دی۔
:چیمپینز ٹرافی اور آدھی میزبانی کی کہانی۔۔ کیا آنیاں جانیاں تھیں۔۔ اوئے ہوئے۔ ہر کوئی خوش ۔۔حق ادا کر دیا۔۔ اپنا ٹائم آئے گا
ذرائع کے مطابق امریکی امیگریشن نظام میں "متنازعہ ویزا حوالہ جات" کی نشاندہی کے بعد کے کے واگن کو روکا گیا اور انہیں امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان کے خلاف کون سے مخصوص اعتراضات اٹھائے گئے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئےکے کے واگن کو اسلام آباد طلب کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اپنی پوزیشن واضح کر سکیں۔
پاکستان کی اعلیٰ سفارتی قیادت کو اس صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کو بھی اس معاملے پر بریفنگ دی گئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے تاحال اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا جبکہ سفیر کے کے واگن کا بھی کوئی موقف نہیں آیا۔
گرین لینڈ میں امریکہ کی اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ یہ جزیرہ 21 ویں صدی میں دنیا کا نقشہ کیسے بدل سکتا ہے؟ وہ تمام باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی نہایت پیچیدہ سفارتی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجز سے گزر رہے ہیں۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا یہ معاملہ کسی بیوروکریٹک غلطی، نئی پالیسی، یا کسی اور وجہ سے پیش آیا لیکن اس کے سفارتی نتائج ضرور ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی قونصل خانے کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرے اور اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے۔ اس واقعے کے بعد امریکی پالیسیوں اور امیگریشن قوانین پر بھی مختلف حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔
کے کے واگن پاکستان کے ایک سینئر سفارتکار ہیں اور انہوں نے مختلف اہم سفارتی عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں:
بحریہ ٹاؤن کے سب سے مہنگے بلاک میں شاندار پراجیکٹ سکائی سکوائر، رمضان آفر
2000-2004: نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پاکستانی سفارتخانے میں سیکنڈ سیکریٹری
2006-2009: لاس اینجلس میں پاکستانی قونصلیٹ میں ڈپٹی قونصل جنرل
2009-2013: عمان میں پاکستانی سفارتخانے میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن / قونصلر
2015-2019: نائجر کے دارالحکومت نیامے میں پاکستانی سفارتخانے کے نگران سربراہ
2019-2022: عمان میں پاکستان کے سفیر
2022 سے تا حال: وزارت خارجہ اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں، قونصلر امور، اور کرائسز مینجمنٹ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: میں پاکستانی میں پاکستان کر دیا
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
اسلام ٹائمز: امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریر: حمید محمد طاہری
عالمی سطح پر سالہا سال تسلط پسندی کے بعد آج یمن امریکہ کے لیے ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امریکی افواج شدید قسم کے اسٹریٹجک چیلنجز سے روبرو ہیں۔ اب تک امریکی فوج یمن کے خلاف معرکے میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امریکہ کی فوجی طاقت اور حیثیت بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں جب سابق سوویت یونین میں گورباچوف نے اصلاحات کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو دنیا میں امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ یہ سرد جنگ کا خاتمہ تھا اور دنیا پر یونی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہو چکا تھا۔ یہاں سے "امریکن پیس" کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں امریکہ نے دنیا بھر میں یکہ تازیاں شروع کر دیں۔
عالمی سطح پر امریکی طاقت کی دھاک جمانے میں ہالی وڈ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک فلم جو امریکہ کی شان و شوکت کی تصویر پیش کرتی تھی 1986ء میں بننے والی "ٹاپ گن" تھی جس میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں ایک بہادر امریکی پائلٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس فلم نے امریکی جوانوں کو متاثر کیا اور وہ دھڑا دھڑ ایئرفورس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اس فلم کے چار سال بعد عراق میں "ڈیزرٹ اسٹارم" نامی بڑا فوجی آپریشن انجام پایا جو درحقیقت امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی طاقت اور شان و شوکت کے سامنے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے جن کے تناظر میں ہالی وڈ نے 2022ء میں ٹاپ گن 2 فلم بنائی۔
اس میں بھی ٹام کروز نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور یوں امریکہ کو دشمنوں کے مقابلے میں برتر طاقت کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیس امریکانا کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب امریکہ مزید عالمی سطح پر وہ سپرپاور نہیں جس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ٹاپ گن 2 میں کہانی ایک ایسے ایٹمی مرکز کے گرد گھومتی ہے جو ایک پہاڑی علاقے میں موجود ہے اور علاقے کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی خطے میں واقع ہے۔ اس مرکز کا پیچیدہ محل وقوع اور فلم میں موجود روسی جنگی طیاروں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسا ہی خطرہ جو ان دنوں یمن کی جانب سے ہے جہاں انصاراللہ یمن نے پہاڑوں کے اندر پیچیدہ تنصیبات تعمیر کر رکھی ہیں۔
امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلحہ کے ذخائر میں قلت کے باعث ممکن ہے امریکہ کی مسلح افواج کی توجہ دیگر اہداف سے ہٹ جائے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اب تک انصاراللہ کے زیر زمین ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یمن میں ایسی پہاڑی دلدل کا شکار ہو گیا ہے جو اس کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی حکام پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یمن کی جنگ جاری رہتی ہے تو ممکن ہے امریکہ کو اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کرنی پڑ جائے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت اور عزت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے پہاڑ امریکہ کے فوجی ذخائر ختم ہو جانے کا باعث بنے ہیں؟
امریکہ کے فوجی ذخائر کم ہونے کے باعث اس کی عالمی سپرپاور کے طور پر حیثیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یمن میں جنگ کی پیچیدگیوں اور انصاراللہ تحریک کی شدید مزاحمت کے پیش نظر ممکن ہے امریکہ مستقبل قریب میں یمن کے مقابلے میں مزید شکست اور ناکامیوں کا شکار ہو جائے۔ یہ امر عالمی سطح پر درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوالات جنم دے سکتا ہے۔ یمن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں بہترین منظرنامہ یہ ہے کہ یمن کے پہاڑ نہ صرف امریکی بم بلکہ امریکہ کی فوجی شہرت اور شان و شوکت بھی اپنے اندر دفن کر دیں۔ ایسے میں ہالی وڈ کی فلمیں شاید پروپیگنڈے کے میدان میں موثر واقع ہوں لیکن حقیقی امتحان یمن کے پہاڑوں میں جاری ہے۔