UrduPoint:
2025-04-22@06:12:15 GMT

دہلی کے پاکستان ہاؤس میں سِمٹی تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

دہلی کے پاکستان ہاؤس میں سِمٹی تاریخ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) انڈیا گیٹ سے سپریم کورٹ کی طرف تلک مارگ پر گزرتے ہوئے جب بھی میں ایک مخصوص عمارت کے صحن میں پاکستانی پرچم لہراتا دیکھتی، حیرانی ہوتی۔ یہ عجیب تھا کہ پاکستانی سفارت خانہ تو چانکیہ پوری کے ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع ہے، مگر دہلی کے قلب میں، ایک مکان پر پاکستانی پرچم کیوں؟ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پاکستان کے سفیر یا ہائی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔

حال ہی میں پاکستانی مشن نے اس تاریخی عمارت کے دروازے میڈیا اور دیگر افراد کے لیے کھول دیے، اور مجھے بھی وہاں جانے کا موقع ملا۔ پتا چلا کہ یہ محض ایک رہائش گاہ نہیں، بلکہ متحدہ ہندوستان کی ایک تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ عام طور پر پاکستانی مشن کی تقریبات سفارت خانے کے وسیع و عریض لان میں منعقد ہوتی ہیں، لیکن اس بار میڈیا اور معزز شخصیات کو پاکستانی سفیر کے نجی گھر میں مدعو کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس دعوت میں پاکستانی کھانوں اور ثقافتی ورثے کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔

یہ دو منزلہ عمارت پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی رہائش گاہ تھی، جو انہوں نے اپنی اہلیہ گل رعنا کے نام پر خریدی تھی۔ اگرچہ اس عمارت کے باہر "پاکستان ہاؤس" کی تختی لگی ہے، مگر اب بھی اسے گل رعنا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بنگلے کی ساخت، سرسبز لان اور اندرونی حصے کو اسی حالت میں رکھا گیا ہے جیسے لیاقت علی خان اور گل رعنا اسے چھوڑ کر گئے تھے۔

دیواروں پر آج بھی ان کے اہلِ خانہ کی خوشگوار یادیں تصاویر کی صورت میں ثبت ہیں۔

یہ بنگلہ برصغیر کی تقسیم کے ہنگامہ خیز سالوں کا خاموش گواہ ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں لیاقت علی خان نے متحدہ ہندوستان میں جواہر لال نہرو کی عبوری حکومت میں بطور وزیر خزانہ پہلا بجٹ پیش کیا تھا۔ 1947 کے پُرتشدد فسادات کے دوران یہ گھر مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ بن گیا تھا، جن کے گھر نذرِ آتش کر دیے گئے یا جو جان کے خوف سے بے سروسامانی کی حالت میں نکلے تھے۔

کئی مہینوں تک یہ عمارت دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دفتر کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی۔ بعد ازاں، 1960 کی دہائی میں پاکستانی سفارت خانہ چانکیہ پوری منتقل ہونے کے بعد اسے ہائی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ بنا دیا گیا۔

لیاقت علی خان نے بطور وزیر خزانہ سرکاری رہائش گاہ اختیار کرنے کے بجائے اسی گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ساتھی محمد علی بوگرا اکثر یہاں آتے اور گھنٹوں ان کے ساتھ بجٹ کی تیاری میں مصروف رہتے۔

بانیِ پاکستان، محمد علی جناح بھی یہاں باقاعدگی سے تشریف لاتے تھے۔

جب تقسیم کا اعلان ہوا اور فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے، تو ہزاروں بےگھر مسلمان یہاں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ سابق بھارتی سفارت کار سجاد حیدر، جو بعد میں پاکستان میں سفارتی خدمات انجام دینے چلے گئے، اپنی کتاب فارن پالیسی آف پاکستان: ریفلیکشنز آف این ایمبیسیڈر میں لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس بنگلے میں دس ہزار سے زائد افراد نے پناہ لی۔

یہاں تک کہ اس دوران کم از کم بیس بچوں کی پیدائش بھی ہوئی۔ کبھی ایک نجی رہائش گاہ رہنے والا یہ مکان، مہاجر کیمپ میں بدل گیا۔ لان میں مردوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، جبکہ خواتین اور بچوں کے لیے اندرون عمارت اور چھت مخصوص کی گئی تھی۔ نوجوان اس کے چاروں طرف پہرہ دیتے تھے تاکہ فسادی عناصر عمارت پر حملہ نہ کر سکیں۔

مورخین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے بعد لیاقت علی خان اور جناح نے دہلی میں رہائش کے لیے مکانات خریدے۔

لیاقت علی خان نے یہ مکان 8 ہارڈنگ لین (موجودہ تلک مارگ) پر خریدا، جبکہ جناح نے 10 اورنگزیب روڈ پر سکونت اختیار کی۔ جناح کی ایک بڑی کوٹھی ممبئی میں بھی تھی، جبکہ لیاقت علی خان کی وسیع جائیدادیں اتر پردیش کے مظفر نگر میں تھیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کی اہلیہ، گل رعنا، جو شادی سے پہلے مسیحی تھیں اور بعد میں اسلام قبول کر کے ان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، نے پناہ گزینوں کے لیے اس گھر کے دروازے کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

دہلی یونیورسٹی کے اندر پرستھ کالج میں انگریزی کی پروفیسر گل رعنا، خواتین کی تعلیم کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ چاندنی چوک اور کشمیری گیٹ میں شراب کی دکانوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بھی پیش پیش رہیں۔

تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان منتقل ہوئیں، تو انہوں نے اپنے کالج سے دو ماہ کی چھٹی کے لیے درخواست دی تھی، کیونکہ انہیں امید تھی کہ وہ دہلی واپس آ سکیں گی۔

انہوں نے اپنی پرنسپل، ڈاکٹر وینا داس، کو خط لکھا کہ وہ ستمبر کے آخر تک تدریس میں واپس آجائیں گی۔ مگر یہ واپسی کبھی ممکن نہ ہو سکی۔

وقت کا ستم دیکھیں کہ جناح کا ممبئی والا گھر اب زبوں حالی کا شکار ہے اور قانونی تنازعات میں الجھا ہوا ہے، مگر لیاقت علی خان کی دہلی کی رہائش گاہ آج بھی محفوظ اور شاداب ہے۔ جناح نے دہلی چھوڑنے سے پہلے اپنا مکان بھارتی تاجر رام کرشن ڈالمیا کو ڈھائی لاکھ بھارتی روپوں میں فروخت کر دیا تھا، جو بعد میں ہالینڈ کے سفارت خانے کو فروخت کر دیا گیا۔

آج بھی دہلی میں وہ جائیداد "جناح ہاؤس" کے نام سے معروف ہے۔

مورخین کا قیاس ہے کہ جناح کے پاس وقت اور خریدار دونوں موجود تھے، اس لیے وہ اپنی جائیداد فروخت کر سکے، جبکہ لیاقت علی خان کے پاس نہ تو اتنا وقت تھا، نہ ہی فوری خریدار۔ یا شاید ان کے خاندان کو دہلی واپسی کی امید تھی۔

آج، دہلی کی ہنگامہ خیز زندگی کے بیچ یہ تاریخی "پاکستان ہاؤس" جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک زندہ باب بن کر کھڑا ہے۔

اس شام، جب میں اس مکان کے سرسبز لان میں کھڑی تھی، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے لیاقت علی خان کی پاٹ دار آواز کسی بھی لمحے گونجنے والی ہو، اور گل رعنا مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑی ہوں۔ مہمانوں کی ضیافت کے لیے بریانی، چپلی کباب اور کڑاہی کا اہتمام تھا، جبکہ کوک اسٹوڈیو کی مدھر دھنیں فضا میں ایک دلکش سماں باندھ رہی تھیں۔ میرے سمیت کئی مہمانوں کے لیے یہ لمحہ برصغیر کے مشترکہ ورثے کی جیتی جاگتی علامت تھا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لیاقت علی خان کی میں پاکستانی میں پاکستان رہائش گاہ گل رعنا کے لیے

پڑھیں:

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس 4 روزہ دورے پر بھارت پہنچے، جہاں ان کا مقصد دہلی کے ساتھ ابتدائی تجارتی معاہدے پر پیشرفت کرنا اور امریکی محصولات سے بچاؤ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ وینس کا یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب 2 ماہ قبل بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی کے شدید گرم موسم میں جب وینس اپنے طیارے سے باہر آئے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ روایتی اعزازی گارڈ اور لوک رقص کرنے والے فنکاروں نے نائب صدر کو خوش آمدید کہا۔ وینس اس دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔

مزید پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز

نائب صدر کا یہ دورہ آگرہ کے تاریخی تاج محل کے سفر کا احاطہ بھی کرے گا۔ وینس اپنی اہلیہ اوشا وینس جو بھارتی تارکین وطن کی بیٹی ہیں اور اپنے بچوں کے ہمراہ بھارت آئے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس دورے کو نیم نجی قرار دیا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق، مودی اور وینس کے درمیان ملاقات میں دو طرفہ تعلقات میں پیشرفت کا جائزہ اور علاقائی و عالمی امور پر باہمی دلچسپی کے معاملات پر تبادلہ خیال متوقع ہے۔ امریکا اور بھارت اس وقت تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر مذاکرات کر رہے ہیں، جسے بھارت ٹرمپ کی جانب سے رواں ماہ اعلان کردہ 90 روزہ محصولات کے وقفے کے دوران مکمل کرنے کا خواہاں ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے گزشتہ ہفتے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ نائب صدر وینس کا دورہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا۔ وینس کا نئی دہلی ایئرپورٹ پر بھارتی وزیر برائے ریلویز، اطلاعات و نشریات، اشونی ویشنو نے استقبال کیا۔

واضح رہے کہ امریکا بھارت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سروسز انڈسٹری کے لیے ایک اہم منڈی ہے، جبکہ حالیہ برسوں میں واشنگٹن نے نئی دہلی کو اربوں ڈالر کا عسکری سازوسامان بھی فروخت کیا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ صدر ٹرمپ رواں سال بھارت کا دورہ کریں گے، جہاں کواڈ (Quad)  ممالک آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکا کے سربراہان کی کانفرنس متوقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی نائب صدر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت تاج محل ٹرمپ جے ڈی وینس مودی

متعلقہ مضامین

  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • مریم نواز کی گندم خریداری کیلئے الیکٹرونک ویئر ہاؤس ریسیٹ نظام کی منظوری
  • واہ کیا مینٹور ہے لیگ کے درمیان مالدیپ گھوم رہا ہے
  • محسن نقوی اور طلال چوہدری کا لیاقت بلوچ سے ٹیلیفونک رابطہ، غزہ مارچ سے متعلق گفتگو
  • نئی دہلی میں عمارت گرنے سے کم ازکم 11 افراد ہلاک
  • حکومت کو کوئی حق نہیں کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی مارچ کو روکے: لیاقت بلوچ
  • ایم کیو ایم صبح حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے کر شام میں پرانی تنخواہ پر کام پر راضی ہوتی ہے، سریندر ولاسائی
  • ایم کیو ایم صبح حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے کر شام میں پرانی تنخواہ پر کام پر راضی ہوتی ہے: سریندر ولاسائی
  • پاکستان کی آئی ٹی برآمدات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں