اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) سول سوسائٹی تنظیموں اور کارکنوں کے عالمی اتحاد سیویکس (CIVICUS) کی تازہ ترین مانیٹر واچ لسٹ کے مطابق ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، اٹلی، پاکستان، سربیا اور امریکہ میں شہری آزادیوں سے متعلق سنگین خدشات پائے جاتے ہیں۔

آئندہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران سیویکس مانیٹر ان ممالک میں سے ہر ایک میں ہونے والی پیش رفت کا قریب سے جائزہ لے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان ممالک کی حکومتوں پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان معاشروں میں شہری آزادیوں کے استعمال کی صورتحال کو بہتر بنائیں۔

سیویکس کا ان حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے ہاں جاری کریک ڈاؤن کو فوری طور پر ختم کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کریں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ ان ممالک میں شہری آزادیوں کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مجرموں کا ہر ممکن محاسبہ کیا جائے۔

(جاری ہے)

انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث سکیورٹی اہلکار امن مشن پر؟

جمہوریہ کانگو میں شہری آزادیوں کو کچلا جا رہا ہے

ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو یا DRC میں 'سوک اسپیس‘ یا شہری آزادیوں کے دائرے کو تیزی سے تنگ کیا جا رہا ہے۔

اس ملک میں شہری آزادیوں کی صورتحال بہت خراب ہو گئی ہے کیونکہ مسلح گروپ M23، جسے اقوام متحدہ کے ماہرین کے بقول روانڈا کی حمایت حاصل ہے، نے جنوری 2025 ء کے اواخر میں شمالی کیوو صوبے کے دارالحکومت گوما پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی فوجی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔ بعد ازاں جنوبی کیوو صوبے کے بوکاوو شہر پر 15 فروری کو قبضہ بھی کر لیا گیا۔

اس افریقی ملک میں آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کو بری طرح پامال کیا گیا ہے جبکہ وہاں صحافیوں کو دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا اور حکام نے تنازعات کی رپورٹنگ سے متعلق سنسرشپ کا لیول بھی بڑھا دیا۔

13جنوری 2025ء کو DRC کے میڈیا ریگولیٹر ''ہائر کونسل فار آڈیو ویژؤل اینڈ کمیونیکیشنز (CASC) نے الجزیرہ ٹی وی کو باغی لیڈر کے انٹرویو نشر کرنے پر 'احتیاطی تدبیر‘ کے طور پر 90 دنوں کے لیے معطل کر دیا تاکہ 'جمہوریہ کے اداروں کو غیر مستحکم کر دیے جانے‘ سے بچایا جا سکے۔ ساتھ ہی M23 مسلح گروپ کے حامیوں کو نشریات کے لیے ایئر ٹائم دینے کے جرم میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو بندش اور پابندیوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔

مشرقی جمہوریہ کانگو میں بڑھتے ہوئے مسلح بحرانوں کے دوران ہیومینیٹیرین ایڈ ورکرز ہلاک بھی ہوئے۔

اٹلی میں شہری آزادیوں کی درجہ بندی: تنگ

ستمبر 2024 ء میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی منظوری کے بعد اطالوی سینیٹ متنازعہ ''گاندھی مخالف بل‘‘ (بل 1236) پر غور کر رہی ہے، جو ایک وسیع قانونی پیکج ہے جس میں درجنوں نئے فوجداری جرائم اور عوامی تحفظ کے بہانے سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں بشمول ہیومن رائٹس واچ، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اور کونسل آف یورپ نے تاہم اس تجویز کی مذمت کی ہے۔ بیس سے زیادہ یورپی تنظیموں نے اسے ''حالیہ دہائیوں میں احتجاج کے حق پر سب سے سنگین حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو یہ اٹلی میں شہری آزادیوں کو مزید محدود کر دے گا۔

اس ملک میں پہلے ہی صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں، خاص طور پر جو ماحولیاتی تحفظ اور پناہ گزینوں کے حقوق سے وابستہ ہیں، کو بڑھتی ہوئی قانونی ہراسانی، استغاثہ کی کارروائیوں اور حراست تک کا سامنا ہے۔ یہ بل براہ راست غیر متشدد احتجاج اور سول نافرمانی جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والوں کو سخت سزاؤں کا حقدار ٹھہراتا ہے۔

یہاں تک کہ ٹریفک بلاک کرنے والے مظاہرین کو بھی دو سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

جیلوں اور تارکین وطن کے حراستی مراکز میں، جہاں خراب حالات اور بدسلوکی کی وجہ سے اکثر مظاہرے ہوتے ہیں، قیدیوں کی طرف سے کسی بھی قسم کی غیر فعال مزاحمتوں، بشمول بھوک ہڑتال یا کام سے انکار کا نتیجہ سخت سزا ہے۔ دریں اثنا یہ بل ریاستی نگرانی کو بھی وسعت دیتا ہے اور سکیورٹی سروسز کے اختیارات میں توسیع کرتا ہے۔

پاکستان میں شہری آزادیوں کی ریٹنگ: پوری طرح دباؤ میں

پاکستان کو تازہ ترین CIVICUS مانیٹر واچ لسٹ میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس ملک میں انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیاں، انسانی حقوق کی تحریکوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور احتجاج اور ڈیجیٹل پابندیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

عمران خان کو قید میں رکھنا بین الاقوامی قانون کے منافی، اقوام متحدہ

اکتوبر 2024 ء میں حکام نے انسانی حقوق کی ممتاز محافظ اور بلوچ رہنما ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کو نشانہ بنایا، جنہیں علیحدگی پسند گروپوں کی مدد کرنے کے بے بنیاد الزامات کا سامنا ہے۔

یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب مہرنگ بلوچ کو ساتھی کارکن سمیع دین بلوچ کے ساتھ بیرون ملک سفر کے لیے ایک مسافر پرواز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا۔ اسی ماہ انسانی حقوق کی وکیل ایمان زینب مزاری اور ان کے شوہر پر بھی 'دہشت گردی کی کارروائیوں‘ کے الزامات عائد کیے گئے۔ انسانی حقوق کے محافظ ادریس خٹک نے اپنے کام کے بدلے میں اب پانچ سال حراست میں گزارے ہیں جبکہ حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جو کہ پشتون عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ملک بھر میں فعال تحریک ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے احتجاج کے خلاف بھی شدید نوعیت کا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اکتوبر 2024 ء میں مبہم اور حد سے زیادہ قوانین کے تحت مظاہروں سے قبل سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور ان پر الزامات عائد کیے گئے۔ نومبر 2024 ء میں حکام نے مظاہرین کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اسلام آباد جانے والی اہم شاہراہوں اور راستوں کو بند کر دیا۔

ملک بھر میں مظاہروں سے قبل ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ کراچی پولیس نے اکتوبر 2024 ء میں کراچی میں ''سندھ روا داری مارچ‘‘ کے گرد کریک ڈاؤن شروع کیا اور جنوری 2025 ء میں صوبہ سندھ میں نسلی بلوچوں کے پرامن مظاہرے سے پہلے۔

پاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (PECA) کے تحت صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جن پر 'ریاستی اداروں کے خلاف غلط بیانیہ‘ پھیلانے کا الزام ہے۔

صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد پولیس نے نومبر 2024 ء میں منشیات رکھنے اور دہشت گردی کے جعلی الزامات میں حراست میں لیا تھا۔ صحافی ہرمیت سنگھ کو دسمبر 2024ء میں ان الزامات پر پوچھ گچھ کے لیے پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا تھا کہ وہ ''ریاستی اداروں کے خلاف منفی بیان بازی‘‘ میں مصروف تھے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر پینٹاگون کی رپورٹ:ملا جُلا رد عمل

جنوری 2025 ء میں حکومت نے قومی اسمبلی میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے سخت قانون (PECA) میں ترامیم کی منظوری کے ذریعے آن لائن تقریر پر اپنا کنٹرول مزید سخت کر دیا۔

نومبر 2024ء کے آخری ہفتے میں پاکستانی اپوزیشن کے منصوبہ بند مظاہروں سے پہلے بنیادی طور پر انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کر دیا گیا جبکہ سوشل میڈیا سائٹ ایکس فروری 2024 ء سے بند ہے۔

سربیا کی سوک اسپیس ریٹنگ: رکاوٹ کا شکار

سربیا میں شہری آزادیاں تیزی سے زوال پذیر ہیں کیونکہ حکام عوامی احتجاجی تحریک کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جو یکم نومبر 2024ء کو ایک نئے تعمیر شدہ ٹرین اسٹیشن کے منہدم ہونے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک اور دو دیگر شدید زخمی ہوئے تھے۔

مظاہرین اس تباہی کا الزام حکومت میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی کو قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کا ایکسپورٹ اسٹیٹس انسانی حقوق سے نتھی ہے، یورپی یونین

22 نومبر 2024 ء کو صورتحال اس وقت مزید بگڑی، جب بلغراد میں فیکلٹی آف ڈرامیٹک آرٹس کے طلبا اور پروفیسروں پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ متاثرین کے لیے ایک خاموش لیکن پرامن مظاہرہ کر رہے تھے۔

اس حملے میں زخمی ہونے والے ایک طالب علم کو ہسپتال میں داخل کیا گیا اور ایک صحافی بھی زخمی ہوا۔ اس کے جواب میں تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبا نے غیر معینہ مدت تک کے لیے ہڑتال شروع کی، کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور یونیورسٹیوں کی عمارتوں پر اس وقت تک قبضہ رکھا جب تک کہ ان کے مطالبات نہ پورے کیے گئے۔ اس تحریک کو ٹریڈ یونینوں، کسانوں، بار ایسوسی ایشنز، نجی کاروباروں اور خود منظم شہریوں کی بھرپورحمایت حاصل ہے اور تجزیہ کار اسے کئی دہائیوں میں ملک کی سب سے بڑی تحریک قرار دیتے ہیں۔

امریکہ میں شہری آزادیوں کی درجہ بندی: تنگ

امریکہ کو بھی اب CIVICUS مانیٹر واچ کی تازہ ترین لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ امریکی شہریوں کی آزادیوں کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے دوران بڑھتی ہوئی بے جا پابندیوں کا سامنا ہے۔ انتظامی اختیارات کا بے دریغ استعمال پرامن اجتماع، اظہار رائے اور انجمن کی آزادیوں پر قدغن شدید تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔

20 جنوری 2025 ء کو اپنی حلف برداری کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے گہرے مضمرات کے ساتھ وفاقی پالیسیوں کو ختم کرتے ہوئے کم از کم 125 ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ آرڈرز نے وفاقی تنوع، مساوات اور شمولیت کے (DEI) پروگراموں کو غلط طور پر امتیازی قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا ہے اور انہوں نے غیر دستاویزی تارکین وطن اور ٹرانس جینڈر افراد اور 'غیر موافق‘ لوگوں کو نشانہ بنانے والے متعدد اقدامات متعارف کرائے ہیں۔

رواں سال جنوری کے وسط سے امریکہ اور بیرونی ممالک دونوں طرف بہت سی سول سوسائٹی تنظیمیں، غیر ملکی امداد کی من مانی معطلی اور وفاقی مالی اعانت کے وسیع پیمانے پر منجمد ہونے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہونے کے سبب ضروری انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے پروگراموں کو ختم کرنے یا روک دینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

اس ضمن میں واضح رہنما خطوط کی کمی نے قومی سطح پر قانونی چیلنجوں کو جنم دیا ہے۔

سیویکس 175 سے زیادہ ممالک کے 17 ہزار سے زیادہ ممبران کے ساتھ ایک متحرک اتحاد کے طور پر اکثریتی دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ 1993 ء سے یہ پوری دنیا میں سرحدوں کے پار سرگرم کارکنوں اور سول سوسائٹی کے درمیان وسائل اور یکجہتی پیدا کرنے والا نیٹ ورک بنا ہوا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں شہری آزادیوں کی انسانی حقوق کی کریک ڈاؤن سے زیادہ کیا گیا کے خلاف ملک میں گیا ہے کر دیا دیا ہے کو بھی کے لیے اور ان

پڑھیں:

عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بین الاقوامی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہوتی ہے، عالمی طاقتیں خصوصاً امریکی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کے تحت مداخلت کرتی نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد کے سیاسی حالات نے عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کسی قسم کا دبائو ڈال رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس دبائو کی نوعیت، وجوہات اور ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کا جنوبی ایشیا میں ایک اہم اسٹرٹیجک کردار ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حوالے سے بھی اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک روٹ نے اس اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، عمران خان کی بطور وزیراعظم خارجہ پالیسی نسبتاًخود مختار اور مغرب سے کچھ فاصلہ رکھنے کی حامل رہی، جس میں چین، روس اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک فوقیت دینے کی کوشش کی گئی۔ ان پالیسیوں نے واشنگٹن میں کچھ حلقوں کو پریشان ضرور کیا، مگر عمران خان کی مقبولیت اور عوامی حمایت نے انہیں نظر انداز کرنا مشکل بنا دیا۔
امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کو اکثر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں متنازع قرار دیتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی حکام نے کچھ مواقع پر پاکستان کی حکومت سے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جسے عمران خان کے حامی ان کی ’’رہائی کے لیے دبائو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے تاحال یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حال ہی میں امریکی کانگریس کے رکن جیک برگ مین کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے کانگریسی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جسے مبصرین نے عمران خان کے کیس اور انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں خاصی اہمیت دی۔ اس وفد نے حکومتی و عسکری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں سیاسی استحکام، عدالتی شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی تفصیلات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن بعض ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی طویل قید اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی غیر رسمی طور پر گفتگو کی گئی۔ اس دورے کو عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی دبا ئو کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ میں کئی قانون ساز اور ٹرمپ ٹیم کے کچھ لوگ اپنے ٹویٹس اور بیانات میں عمران خان کی حراست کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دے چکے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ پسِ پردہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ ایسے رابطے رکھتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی جیل میں موجودگی پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو غیر متوازن کر دے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔ امریکہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی ’’نرم مداخلت‘‘ کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔
اگر واقعی امریکہ عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے تو اس کے دو بڑے اثرات ہوسکتے ہیں۔
-1سیاسی ریلیف: عمران خان کو کسی عدالتی یا سیاسی ڈیل کے ذریعے ریلیف مل سکتا ہے، جس سے وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں فعال ہو جائیں گے۔
-2 عوامی تاثر: امریکی دبائو سے رہائی کی صورت میں عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ ’’ بین الاقوامی حمایت رکھنے والے قومی لیڈر‘‘کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دبائو ایک حقیقت بھی ہو سکتا ہے اور محض سیاسی بیانیہ بھی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اور مقبولیت نے پاکستان کی سیاست کو عالمی سطح پر ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر عمران خان کو رہائی ملتی ہے، تو یہ جانچنا ضروری ہوگا کہ اس میں بین الاقوامی سفارت کاری کا کتنا عمل دخل تھا۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو خود عمران خان اور ان کی سیاست کیلئے مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کپتان کی سیاست کی بنیاد ان کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بین الاقوامی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، اس حوالے سے ایک جلسہ عام میں مبینہ سائفر لہرانا ایک بڑا واقعہ تھا، لیکن اگر اب وہ خود امریکی دبا ئوکے ذریعے جیل سے رہائی پاتے ہیں یا اقتدار میں واپس آتے ہیں تو یہ عمل خود ان کے اپنے بیانیہ کی نفی ہوگا۔
دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ جیک برگ مین کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد نے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، حکومت اسے دوٹوک انداز میں پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ایسے دو اندرونی معاملات میں پہلے بھی مداخلت کرچکے ہیں، میاں نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے دوبار مداخلت کی اور دونوں بار انہیں جیل سے رہائی پاکر بیرون ملک جانے کی سہولت مہیا کی گئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ان کی ڈیل کروانے میں بھی امریکہ کا کردار نمایاں رہا، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی وقت کوئی بھی معاملہ طے پا سکتا ہے اور اس میں گارنٹر کا کردار کون ادا کرتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، تاہم اس حوالے سے 3ممالک امریکہ ، سعودی عرب اور چین کا نام لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب

متعلقہ مضامین

  • بحرین کے بے گناہ قیدیوں کی آواز
  • نہریں متنازع معاملہ ہے، جو سنگین ہوچکا، شرجیل میمن
  • کراچی: صحت کے سنگین مسائل کے باوجود 80 سالہ طالبعلم نے پی ایچ ڈی کر لی
  • وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
  • پوپ فرانسس کی جانب سے غزہ کی افسوسناک صورتحال کی مذمت
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • ہمارا آئین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے: صدر آصف زرداری
  • پاکستانی احمدی شہری مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل
  • پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ