فزیوتھراپی، جسے طبعی علاج بھی کہا جاتا ہے، صحت کے شعبے کا ایک اہم حصہ ہے جو مریضوں کو جسمانی مسائل، معذوریوں، اور درد کی شدت کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یہ علاج معالجہ انسانی جسم کی قدرتی حرکات کو بحال کرنے اور بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ فزیوتھراپی کا دائرہ کار وسیع ہے اور یہ مختلف بیماریوں، چوٹوں، اور معذوریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فزیکل تھراپی کا زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف پہلوؤں سے تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی (DPT) کے فرائض و ذمے داریوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
فزیوتھراپی کے فوائد
فزیوتھراپی کے کئی فوائد ہیں جن میں درج ذیل اہم ہیں:
1 ۔ درد میں کمی اور حرکت کی بحالی: فزیوتھراپی درد کو کم کرنے کے لیے خصوصی تیکنیکیں اور مشقیں استعمال کرتی ہے۔ مسلز، جوڑوں، یا اعصاب میں ہونے والے مسائل کے علاج کے لیے ورزشیں، مساج، اور الیکٹرو تھراپی جیسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جو مریض کی جسمانی حرکات کو بحال کرتے ہیں۔
2۔ معذوری کو روکنا اور صحت کی بحالی: فزیوتھراپی جسمانی معذوریوں کو روکنے اور حادثات یا بیماریوں کے بعد مریض کی صحت بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ علاج مریض کو روزمرہ کے کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔
3 ۔ پوسچر کی بہتری: پوسچر یا جسمانی وضع کی خرابی عام مسائل میں سے ایک ہے، جو اکثر کمر درد اور گردن کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ فزیوتھراپی کے ذریعے پوسچر کو درست کیا جا سکتا ہے، جو لمبے عرصے تک صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔
4 ۔ سرجری کی ضرورت کو کم کرنا: بعض اوقات فزیوتھراپی اتنی مؤثر ثابت ہوتی ہے کہ سرجری کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ یہ جسمانی علاج کے ذریعے مریض کو قدرتی طریقے سے صحت یاب ہونے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
5 ۔ مختلف عمر کے افراد کے لیے مفید: فزیوتھراپی بچوں سے لے کر بزرگوں تک ہر عمر کے افراد کے لیے مؤثر ہے۔ یہ بچوں میں پیدائشی نقائص کے علاج، جوانوں میں چوٹوں کے علاج، اور بزرگوں میں عمر کے ساتھ ہونے والے مسائل جیسے گٹھیا اور اوسٹیوپوروسس کے لیے مفید ہے۔
فزیوتھراپی (Physical Therapy) دنیا بھر میں ایک مؤثر اور تسلیم شدہ طبی شعبہ ہے، جو مریضوں کی جسمانی بحالی، درد کے خاتمے، اور روزمرہ کے کاموں میں خود مختاری بڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جدید ممالک میں فزیوتھراپی کو بیماریوں کی روک تھام، علاج اور بحالی کے لیے اہم مانا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور یورپ میں فزیوتھراپی ایک لازمی شعبہ بن چکا ہے۔ ان ممالک میں فزیوتھراپسٹس کو جدید ٹیکنالوجی، روبوٹکس، اور ڈیجیٹل ہیلتھ ٹولز کی مدد حاصل ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال: ری ہیبلیٹیشن روبوٹکس: روبوٹ مریضوں کو دوبارہ چلنے کی تربیت دیتے ہیں۔
ورچوئل ریئلٹی: بحالی کی مشقوں کو دل چسپ بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس: مریضوں کی صحت کی نگرانی اور علاج کی منصوبہ بندی کے لیے مددگار ہے۔
تعلیمی پروگرام: فزیوتھراپی کی تعلیم جدید ممالک میں ایک اہم میدان ہے، جہاں بیچلر، ماسٹرز، اور پی ایچ ڈی پروگرامز دست یاب ہیں۔
سماجی خدمات: جدید ممالک میں فزیوتھراپی کو صحت کی انشورنس میں شامل کیا جاتا ہے، تاکہ ہر فرد اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ پاکستان میں بھی فزیوتھراپی کی افادیت کو تیزی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ مختلف جامعات اور اسپتال اس شعبے کو فروغ دے رہے ہیں۔
چیلنجز: پاکستان میں فزیوتھراپی کی خدمات کا دائرہ محدود ہے، اور دیہی علاقوں میں سہولیات کی کمی ہے۔ فزیوتھراپسٹس کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور حکومتی تعاون کی ضرورت ہے۔ فزیوتھراپی عالم گیر طور پر اہم شعبہ ہے جو بیماریوں کی روک تھام، علاج، اور بحالی کے لیے نہایت مؤثر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی افادیت میں اضافہ ہورہا ہے، جب کہ پاکستان میں یہ شعبہ اب بھی ترقی کے مراحل میں ہے۔ بہتر حکومتی پالیسیوں اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس شعبے کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔
فزیوتھراپی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال مریضوں کے علاج کو مؤثر اور تیز رفتار بنانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ درج ذیل جدید ٹیکنالوجیز اور ان کا استعمال فزیوتھراپی میں اہمیت رکھتے ہیں:
الیکٹروتھراپی (Electrotherapy): الیکٹروتھراپی کے ذریعے مریض کے متاثرہ عضلات یا جوڑوں میں برقی لہریں پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ تیکنیک درد کم کرنے، سوزش کو ختم کرنے اور عضلات کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
ری ہیبلیٹیشن روبوٹکس ( Robotics Rehabilitation): ری ہیبلیٹیشن روبوٹکس مریضوں کو دوبارہ چلنے یا حرکت کرنے کی تربیت دینے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ فالج یا ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ والے مریض اس ٹیکنالوجی سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تھری ڈی موشن اینالیسس ( Analysis Motion 3D): یہ جدید سسٹم مریض کی حرکت کا تین جہتی تجزیہ کرتا ہے۔ اس سے مریض کی جسمانی حرکات میں بہتری کے لیے مخصوص علاج تیار کیا جا سکتا ہے۔
ورچوئل ریئلٹی ( Reality Virtual): ورچوئل ریئلٹی کا استعمال مریضوں کو بحالی کی مشقیں کروانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کھیلوں اور انٹرایکٹو پروگرامز کے ذریعے مریضوں کو مشغول کرتا ہے اور ان کی جسمانی حالت کو بہتر بناتا ہے۔
شاک ویو تھراپی ( Therapy Shockwave): یہ تھراپی ہڈیوں، جوڑوں، اور نرم بافتوں کے درد کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ شاک ویو تھراپی کی لہریں متاثرہ حصے کو متحرک کرتی ہیں اور خون کی روانی کو بہتر بناتی ہیں۔
لیزر تھراپی ( Therapy Laser): لیزر تھراپی سے جلد، پٹھوں، اور جوڑوں کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جاتا ہے۔ یہ سوزش کو کم کرنے اور درد کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
ٹیکنالوجی پر مبنی ورزش کے آلات: جدید ورزش مشینیں جیسے ٹریڈملز، سائیکل ایراجومیٹر، اور ہائیڈرو تھراپی آلات مریضوں کی جسمانی بحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
الیکٹریکل مسل اسٹیمولیشن ( Stimulation Muscle Electrical- EMS): ای ایم ایس کے ذریعے عضلات میں برقی سگنلز بھیجے جاتے ہیں تاکہ پٹھے مضبوط ہوں اور مریض جلد صحت یاب ہو۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس (Artificial Intelligence): اے آئی پر مبنی سسٹمز مریض کی تشخیص اور علاج کے منصوبے کو زیادہ مؤثر بناتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی مریض کے ڈیٹا کا تجزیہ کر کے بہترین علاج تجویز کرتی ہے۔
ہائیڈرو تھراپی (Hydrotherapy): پانی کے اندر ورزش اور علاج کو شامل کرنے والی یہ تکنیک جوڑوں کے درد اور موٹاپے کے شکار مریضوں کے لیے بہترین ثابت ہوتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی فزیوتھراپی کو ایک نئے دور میں لے جا رہی ہے، جس سے مریضوں کی بحالی زیادہ مؤثر اور کم وقت میں ممکن ہو رہی ہے۔ یہ پیش رفت فزیوتھراپی کے میدان کو مسلسل ترقی کی طرف لے جا رہی ہے۔
فزیوتھراپی کے میدان میں حالیہ پیش رفت: کینسر کے مریضوں کے لیے فزیوتھراپی کی اہمیت: فزیوتھراپی کینسر کے مریضوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ لاہور کے ایک اسپتال میں، پھیپھڑوں کے کینسر کی مریضہ، جسے ڈاکٹروں نے وہیل چیئر پر زندگی گزارنے کا مشورہ دیا تھا، فزیوتھراپی کی مدد سے نہ صرف چلنے پھرنے کے قابل ہوئی بلکہ اپنی تین ماہ کی بیٹی کو بھی اٹھا سکتی ہے۔ یہ واقعہ فزیوتھراپی کی مؤثریت کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر کینسر کے مریضوں کے لیے۔
جدید آلات کا استعمال: گردن کی تکلیف دور کرنے کے لیے جدید برقی فزیوتھراپی پٹیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ 'پورٹیبل الٹراساؤنڈ مساجر' (PUM) نامی یہ آلہ ایک سیکنڈ میں دس لاکھ ارتعاشات خارج کرتا ہے، جو گردن کے درد اور اکڑن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ آلہ الٹراساؤنڈ تکنیک کے ذریعے پٹھوں کو سکون پہنچاتا ہے اور دورانِ خون کو بہتر بناتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کا انضمام: فزیوتھراپی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے، جس میں الٹراساؤنڈ، الیکٹروتھراپی، اور لیزر تھراپی شامل ہیں۔ یہ تیکنیکیں درد کو کم کرنے، سوزش کو کم کرنے، اور شفا کے عمل کو تیز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ نیز روبوٹک چال تربیت، روبوٹک ہاتھ اور بازو تربیت، اور کمپیوٹرائزڈ توازن اور زوال روک تھام مطالعہ، یہ تیکنیکیں مریضوں کی بحالی کے عمل کو تیز کرنے اور مؤثر بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔
پوسٹ سرجری بحالی: سرجری کے بعد مریضوں کی بحالی میں فزیوتھراپی کا کردار اہم ہے۔ یہ علاج مریضوں کو جلد صحت یاب ہونے، قوت برداشت بڑھانے، اور معمول کی زندگی کی طرف واپس آنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
درد کے انتظام میں فزیوتھراپی: درد کے انتظام میں فزیوتھراپی کی تیکنیکیں، جیسے مساج، اسٹریچنگ، اور مخصوص مشقیں، مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ طریقے مریضوں کو درد سے نجات دلانے اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
مختلف امراض میں فزیوتھراپی کے فوائد: فزیوتھراپی آرتھوپیڈک، نیورولوجیکل، اور کارڈیو پلمونری مسائل کے علاج میں مؤثر ثابت ہورہی ہے۔ یہ علاج آرتھوپیڈک مسائل جیسے کھیلوں کی چوٹیں، فریکچر، اور ریڑھ کی ہڈی کے درد میں مددگار ہے۔ نیورولوجیکل عوارض جیسے فالج، پارکنسنز، اور دماغی فالج کے مریض فزیوتھراپی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کارڈیو پلمونری مسائل میں، یہ علاج مریض کی قوت برداشت کو بڑھانے اور روزمرہ کی سرگرمیوں کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔
ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے فزیوتھراپی: ہیموفیلیا کے شکار افراد کے لیے فزیوتھراپی جوڑوں کی نقل و حرکت اور پٹھوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ خون بہنے کے بعد متاثرہ حصے کو آرام دینے اور پھر فزیوتھراپی شروع کرنے سے مستقل نقصان اور سرجری کی ضرورت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کو بہتر بنانے میں مدد میں مددگار ثابت ہو جدید ٹیکنالوجی کا مریضوں کی بحالی مریضوں کے لیے میں مدد فراہم ثابت ہوتی ہے کا استعمال کو کم کرنے جا سکتا ہے ممالک میں کی جسمانی کے مریضوں مریضوں کو کرنے اور کی ضرورت کے ذریعے کے مریض مریض کی کرتا ہے یہ علاج میں اہم کرتی ہے جاتا ہے علاج کے کے علاج کے درد رہی ہے کیا جا درد کو
پڑھیں:
آئین کا مقصد، ترامیم یا نفاذ ؟
دنیا بھر میں ریاستوں اور ممالک کا نظم و نسق چلانے کے لیے آئین بنائے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا لگتا ہے کہ آئین بس ترامیم کے لیے بنایا گیا ہے، پاکستان کے آئینی سفر میں جو موڑ آئے ہیں اور محض ایک شخص یا چند افراد کی خاطر آئین کا حلیہ بگاڑنے کے واقعات پیش آئے ہیں، وہ شاید دنیا میں کہیں پیش نہیں آئے۔
امریکا جیسا ملک بھی اپنی دوسو سالہ تاریخ میں اب تک 27 ترامیم کرسکا ہے لیکن پاکستان اب تک صرف 78 برس میں امریکا کے برابرآگیا ہے اور 27 ویں ترامیم کے ذریعے 350 سے زیادہ شقیں تبدیل کردی گئی ہیں۔
اگلی ترمیم کے ذریعے کم از کم اس معاملے میں امریکا سے آگے نکل جائے گا، اگر پاکستانی آئین کا تیاپانچا کرنے کا تجزیہ کیا جائے تو شاید ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے، لیکن ایک سرسری سا تجزیہ کریں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔
پاکستان کا آئین جس کو کہا اور مانا جاتا ہے وہ 1973 کا آئین ہے۔ ویسے یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ 1947 سے چھبیس برس تک کیا پاکستان بے آئین رہا۔ کوئی 1956 اور 62 کے دساتیر کا بھی ذکر کرسکتا ہے لیکن، صحیح معنوں میں جس کو دستور کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے وہ 1973 ہی کا دستور ہے۔
1973 کے متفقہ منظورکردہ آئین پاکستان میں اب تک 27 بار ترامیم کی جا چکی ہیں، ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر سے دور میں ہوئیں، یعنی 73 سے 77 کے دوران سات ترامیم عمل میں آئیں۔
تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ آٹھ ترامیم میاں نواز شریف کے ادوار میں ہوئیں اور اگر مسلم لیگ کو سامنے رکھیں تو اس کا ریکارڈ سب سے زیادہ نکلے گا۔ بہرحال ترتیب یوں ہے کہ غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں۔
نواز شریف کے ادوار میں 8 آئینی ترامیم ہوئیں۔پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں جب کہ ظفر اللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی۔
حال ہی میں چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم سے پہلے تک آئین پاکستان کی تین ترامیم، آٹھویں، سترہویں اور اٹھارہویں سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہیں، پہلی دو ترامیم کا تعلق تو غیر جمہوری صدورکے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا۔
آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جب کہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کے لیے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کے لیے باعث تقویت کہا جاتا ہے، لیکن اس پر بھی اختلافات شدید ہیں اور اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دیے گئے بعض اختیارات ہی کو ملکی نظام میں عدم توازن کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے،خصوصا، سندھ میں تعلیم، صحت اور بلدیات سے متعلق قوانین کے غلط استعمال نے نزاع پیدا کیا ہے۔
البتہ اٹھارہویں ترمیم کو پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی بھی تصورکیا جاتا ہے۔ 1973 کے دستورکی منظوری کے بعد ایک سال سے کم مدت میں اس میں پہلی ترمیم: 4 مئی 1974 کو کی گئی۔ آئین پاکستان میں اس پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین کی (پہلی ترمیم) ایکٹ 1974 کہا جاتا ہے، یہ ترمیم 4 مئی 1974 کو نافذ ہوئی۔
اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں، ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔
دوسری ترمیم: 7 ستمبر 1974 کو وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا۔ اسے ’’آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
آگے چل کر اقتدار کو مضبوط کرنے اور عوام کے حقوق غصب کرنے والی ترامیم آنا شروع ہوگئیں اور یہ سلسلہ عدلیہ کے اختیارات کم کرنے اور بالاخر اسے مکمل قابو میں رکھنے کے لیے قوانین بنائے جانے لگے اور اب عدالت عظمی آئین کی تشریح کرکے بھی اپنے اختیارات بحال نہیں کرسکتی، کیونکہ وہ اس عمل کے دوران تقسیم رہی۔
اب حال یہ ہے کہ استعفیٰ دے کر باہر بیٹھ کر تنقید کرتے رہیں، اندر رہ کر تو ذمے داری قبول کرنے سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔بیشتر ترامیم تو حکمرانوں اور اہم شخصیات کو اختیارات دینے کی خاطر کی گئیں لیکن ترامیم کرنے والے جانتے تھے کہ عدلیہ کسی بھی وقت ان کو ایسا کرنے سے روک سکتی ہے، چنانچہ اس پرکام جاری رہا اور وہ تفہیم لائی گئی جو پاکستان میں عدلیہ کے پر کاٹنے بلکہ اسے عضو معطل بنانے والی ترمیم یعنی 26 ویں ترمیم کہلاتی ہے۔
20 اکتوبر 2024 کی اس ترمیم میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پرکرنے کی تجویز دی گئی۔
یہ پوری ترمیم، عدالت عظمی، ججوں کے تقرر، تبادلے، ریفرنسز، مدت ملازمت، عمرکی حد، عدالت کے اختیارات کی حد بندیوں وغیرہ کے گرد گھومتی ہے اور یہ عدلیہ پرکھلا حملہ تھا لیکن عدلیہ کے رکھوالوں اور ججز کے درمیان اختلافات نے انھیں اس پر کوئی رکاوٹ ڈالنے سے روک دیا اور انھیں اس کا اندازہ بھی تھا، انھیں چند مہینوں میں غلطی کا احساس ہوگیا۔
لیکن اب دیر ہوچکی تھی، فائدہ اٹھانے والوں نے فائدہ اٹھا لیا،کچھ ججوں کو کچھ فوائد بھی مل گئے اور تمام اختیارات قومی اداروں سے چھیننے کا کام کرنے والوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اب ستائیسویں ترمیم بھی آگئی بلکہ چھا گئی ہے، یوں عدالت عظمی پر حکومت کا کنٹرول قائم ہوگیا۔
اس ترمیم سے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر 2030 تک فوج کے سربراہ ہوگئے ہیں۔ آرمی، ایئر فورس اور نیوی ترمیمی بلز کی قومی اسمبلی میں منظوری سے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہوگیا ہے۔
پاکستان میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ظاہری نتائج اور فائدہ اٹھانے والوں کا بہت ذکر ہوتا ہے، نام تک لیے جاتے ہیں، 1973کے آئین اور اس کی ترمیم کے ایک ایک مرحلے سے قوم واقف ہے۔ آئین کی تیاری، تنازعات، ترامیم تجاویز ہر مرحلہ ریکارڈ پر ہے لیکن آٹھویں ترمیم کے بعد سے پراسرار انداز نے جگہ لے لی، راتوں رات پیچیدہ شقوں میں ترامیم تجویز ہوتیں اور چند گھنٹوں میں پیش کرنے سے لے کر منظوری تک کا عمل مکمل ہوجاتا۔
آخر یہ کیسا جادو ہے، وہ کون جادوگر ہے جو لمحوں میں ترامیم لاتا اور منظور کراتا ہے۔ دستورکے ابتدائی خاکے اور منظوری تک کے سارے عمل کے برخلاف نئی ترمیم کا کوئی خالق سامنے نہیں آتا، بس ترامیم آتی ہیں اور منظور ہوجاتی ہیں، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
پہلے ان اسمبلیوں میں کچھ لوگ مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں، سو انھیں اسمبلیوں سے باہر کردیا گیا، کبھی آر ٹی ایس بیٹھا،کبھی فارم 47 آگیا،کبھی زبردستی نتیجہ تبدیل کیا گیا۔