اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی شِن بیت کے سربراہ رونین بار کا نتن یاہو کے حکم پر مستعفی ہونے سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
شِن بیت نے 7 اکتوبر کے حملے کی اپنی تحقیقات جاری کیں، جس کے بعد حکومت نے کہا کہ بار نے انٹیلی جنس معلومات کا غلط اندازہ لگایا اور ایک گمراہ کن سوچ میں پھنسے رہے۔ اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے مبینہ طور پر اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی شِن بیت کے سربراہ رونین بار سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے، تاہم بار نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔ اسرائیلی میڈیا چینل این 12 کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ جمعرات کو ایک سخت ملاقات میں نیتن یاہو نے بار سے کہا کہ حکومت نے شِن بیت کی تحقیقات کا انتظار کیا، اور اب چابیاں حوالے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بار نے کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو انہیں عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں تو انہیں خود برطرف کرنا ہوگا۔ ملاقات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوئی اور یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا نیا سیکیورٹی ایجنسی سربراہ مقرر کیا جائے گا یا نہیں۔
صیہونی وزیراعظم کے دفتر نے رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کو ایک نئے شِن بیت سربراہ کی تقرری کا پورا اختیار حاصل ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ شِن بیت چیف کو حکومت نامزد کرتی ہے، نہ کہ موجودہ قائم مقام سربراہ۔ ایک جمہوری ملک میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ شِن بیت نے اس دعوے کی تردید کی کہ رونین بار اپنے جانشین کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔ ایجنسی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ شِن بیت کے سربراہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے جانشین کا تقرر کریں گے۔ دہائیوں سے یہ روایت رہی ہے کہ ایجنسی کے نائب سربراہ کو اس عہدے کے لیے زیر غور لایا جاتا ہے، تاہم حتمی فیصلہ وزیر اعظم کا ہوتا ہے۔
اسرائیلی چینل نے رپورٹ کیا تھا کہ بار نے کہا تھا وہ صرف اس وقت مستعفی ہوں گے جب غزہ میں موجود تمام یرغمالیوں کو واپس لایا جائے گا۔ شِن بیت نے 7 اکتوبر کے حملے کی اپنی تحقیقات جاری کیں، جس کے بعد حکومت نے کہا کہ بار نے انٹیلی جنس معلومات کا غلط اندازہ لگایا اور ایک گمراہ کن سوچ میں پھنسے رہے، یہ کہ حماس اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی سے بچنا چاہتی ہے، اور انہوں نے یہ بھی تصور کیا کہ اگر اسرائیل غزہ کو ایک مثبت معاشی ماحول فراہم کرے تو وہاں طویل مدتی استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔ بیان میں شِن بیت چیف پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے حملے کی رات وزیراعظم کو بیدار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو کہ ایک انتہائی بنیادی اور ضروری فیصلہ تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نیتن یاہو ش ن بیت نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمن کا پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد کرنے سے انکار
اسلام آباد(اوصاف نیوز) سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کےساتھ اتحاد نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے ۔ذرائع کے مطابق جے یوآئی ف نہ ہی کسی ایسے اتحاد میں شامل ہوگی جو تحریک انصاف کے ایما پر قائم کیا جائے گا۔
جے یو آئی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آزاد حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہے گی وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی،اس بات کا فیصلہ جے یو آئی نے اپنی مجلس عمومی کے دو روزہ اجلاس میں کیا جو اتوار کو لاہور میں اختتام پذیر ہوا۔
جے یو آئی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آزاد حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہے گی وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اور پارلیمنٹ میں زیر غوآنے و الے معاملات کاجائزہ لیتی رہے گی اور باوقت ضرورت تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کرنے یا نہ کرنے کا تعین ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام کے ذرائع نے بتایا ہے کہ جے یو آئی کے زیر اہتمام 27؍ اپریل کو مینار پاکستان کے سبزہ زار پر ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ ریلی ہوگی، اسی طرح 10 مئی کو پشاور اور 17 مئی کو کوئٹہ میں ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ کے اجتماعات ہوں گے۔
جے یو آئی نے پنجاب میں نہریں نکالے جانے کے معاملے میں اپنی سندھ تنظیم کے موقف کی تائید کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا ہے کہ پارٹی کی مرکزی تنظیم اس بارے میں کوئی راہ عمل اختیار نہیں کرے گی۔
منرلز اور مائنز کے قانون کے سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام صوبوں کے آئینی مفادات کا تحفظ کرے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جے یو آئی نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قومی معاملات کے بارے میں صائب فیصلے کیے ہیں۔ جے یو آئی نے تحریک انصاف کی بار بار اور پرزور درخواستوں پر اس سے رازداری کے ساتھ بعض وضاحتیں طلب کی تھیں جو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب طلب ہیں۔
جمعیت کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے بڑا اتحاد قائم کرنے کی خواہاں تھی جبکہ دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی، اس نے وسیع تر سیاسی اتحاد کا ڈول ڈال رکھا تھا تاکہ ان خفیہ مذاکرات میں اس کی سودا کار حیثیت مستحکم ہو سکے ۔ اس طرح وہ ہم عصر سیاسی جماعتوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کے درپے تھی۔
پنجاب میں پاور شیئرنگ پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی بڑی بیٹھک، ملکر چلنے پر اتفاق