کراچی:

رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم کارکنان کی ترسیلاتِ زر کا حجم 24 ارب ڈالر رہا۔ 

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق  رواں مالی سال جولائی تافروری کے دوران بیرون ملک مقیم کارکنان نے 24 ارب ڈالر وطن بھیجے جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 32.

5 فیصد زائد ہے۔ 

اسٹیٹ بینک کے مطابق گذشتہ  مالی سال کے اسی عرصے کے دوران ترسیلاتِ زر کا حجم 18.1 ارب  ڈالر رہا تھا۔ 

اسٹیٹ بینک کے مطابق  فروری 2025ء کے دوران  کارکنوں کی ترسیلات زر میں 3.1 ارب ڈالر  کی آمد درج کی گئی، نمو کے لحاظ سے ترسیلات زر میں سال بسال بنیادوں پر 38.6 فیصد اور ماہ بہ ماہ بنیادوں پر 3.8 فیصد اضافہ ہوا۔

فروری 2025ء کے دوران کارکنوں کی ترسیلات زر زیادہ تر سعودی عرب (744.4 ملین ڈالر)، متحدہ عرب امارات (652.2 ملین ڈالر)، برطانیہ (501.8 ملین ڈالر) اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ (309.4 ملین ڈالر)  سے موصول ہوئیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی ترسیلات ملین ڈالر مالی سال کے دوران ارب ڈالر

پڑھیں:

پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) اقوامِ متحدہ کی رواں ماہ سات اپریل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2023 میں دنیا بھر میں زچگی کے دوران دو لاکھ 60 ہزار خواتین کی اموات ہوئیں، جن میں سے نصف کا تعلق صرف چار ممالک (نائجیریا، بھارت، جمہوریہ کانگو، پاکستان) سے تھا۔ اُس سال پاکستان میں 11 ہزارخواتین زچگی کے دوران ہلاک ہوئیں، جو عالمی اموات کا 4.1 فیصد بنتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتیں۔ نبیلہ کی کہانی

راولپنڈی کے مضافاتی گاؤں میں رہنے والی 35 سالہ نبیلہ، جو چار بچوں کی ماں تھیں، زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ ہیلتھ ورکر رفعت جبین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نبیلہ کی مسکراہٹ آج بھی گاؤں کی گلیوں میں گونجتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ ہر عورت کا دکھ بانٹتی تھیں لیکن اب اس کے گھر میں خاموشی چھائی ہے۔‘‘ رفعت جبین کے مطابق نبیلہ کی کہانی ان ہزاروں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتی ہے، جو صحت کی سہولیات، شعور اور وسائل کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ زچگی کے دوران اموات کی وجوہات

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر عظمیٰ الماس کے مطابق خون کی کمی (اینیمیا) حاملہ خواتین میں عام ہے، خصوصاً ان میں، جن کی کم عمری میں شادی ہو جاتی ہے۔

شہری علاقوں میں خواتین حمل کے دوران باقاعدہ طبی معائنہ کراتی ہیں اور غذائیت کا خیال رکھتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں خون کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو زچگی کی اموات کی شرح بڑھاتی ہے۔ دیگر وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، نفلی خون بہنا، انفیکشنز اور غیر محفوظ اسقاط حمل شامل ہیں۔ زچگی کے دوران اموات اور زمینی حقائق

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر اُمِ حبیبہ نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔

سن 2015 میں زچگی کے دوران اموات کم کرنے میں پیش رفت ہوئی تھی لیکن حالات اب بھی جوں کے توں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا صحت کا نظام مسائل کا شکار ہے کیونکہ کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، جو زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ بنیادی مراکز صحت (بی ایچ یوز) اور تحصیل ہیلتھ مراکز (ٹی ایچ یوز) قائم تو کیے گئے لیکن یہ خستہ حال عمارتوں، عملے کی کمی اور ناقص انتظامات کا شکار ہیں۔

کئی علاقوں میں صحت کے افسران صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ صحت کا مسئلہ صرف سیاسی نعرہ

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے رکن ڈاکٹر امجد علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحت پاکستان میں محض ایک سیاسی نعرہ ہے، جو انتخابات کے بعد دم توڑ دیتا ہے۔ ان کے مطابق، ''سیاسی جماعتیں صحت کو منشور کا حصہ بناتی ہیں لیکن بجٹ میں اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور یہ رویہ سن 1947 سے جاری ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں مہنگے علاج پر توجہ دی جاتی ہے لیکن صحت کی بنیادی دیکھ بھال نظر انداز ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو زچگی سے متعلق بنیادی معلومات کی کمی ہے جبکہ غیر تربیت یافتہ دائیوں سے زچگی کرانے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آگاہی پروگرامز سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

وسائل کی کمی یا ترجیحات کا فقدان؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ترجیحات کا فقدان بھی زچگی کے دوران اموات کی شرح بڑھانے کا سبب ہے۔

ڈاکٹر امجد علی خان نے کہا کہ اگر دفاع پر اربوں روپے خرچ ہو سکتے ہیں تو عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''صرف 250 روپے ماہانہ فی فرد سے ہر پاکستانی کو یونیورسل ہیلتھ کوریج دی جا سکتی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق صحت کے لیے پانچ فیصد بجٹ مختص ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں یہ صرف ایک فیصد کے قریب ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ زچگی جے دوران اموات کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔

ماہرین کی رائے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

آگاہی مہمات: دیہی علاقوں میں زچگی سے متعلق آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ صحت کے بجٹ میں اضافہ: صحت کے لیے کم از کم پانچ فیصد بجٹ مختص کیا جائے۔ ہیلتھ انشورنس: یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ذریعے ہر شہری کو صحت کی سہولیات دی جائیں۔ دائیوں کی تربیت: غیر تربیت یافتہ دائیوں کی جگہ تربیت یافتہ عملہ متعارف کرایا جائے۔ مراکز صحت کی بحالی: بی ایچ یوز اور ٹی ایچ یوز کو فعال بنایا جائے اور تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا جائے۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • حکومت کو ملنے والی غیرملکی امداد میں کمی آگئی
  • بینکوں سے قرض لے کر گاڑیاں خریدنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ
  • جے یو آئی کا 27 اپریل کو لاہور میں غزہ ملین مارچ کا اعلان
  • بینکوں سے قرض لیکر گاڑیوں کی خریداری کا نیا ریکارڈ بن گیا
  • ملکی معیشت کا انحصار برین ڈرین اور ترسیلات زر پر ہے
  • ایف بی آر کا بڑا قدم، ہفتے کی چھٹی ختم کردی
  • اوورسیز پاکستانی کنونشن کی کامیابی ریاست سے وابستگی کا مظہر ہے ، فیصل کریم کنڈی
  • پاکستان سے ایک ارب 72 کروڑ ڈالر دیگر ممالک کو بھیج دیئے گئے
  • پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ
  • مہلت ختم، اقدامات سخت، پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کے انخلا کا عمل مزید تیز