روس یوکرین جنگ: کییف اور واشنگٹن کے اعلیٰ حکام میں جدہ میں مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زبردست دباؤ میں، جو روس یوکرین جنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں، صدر وولودیمیر کے لیے یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے کییف کے لیے کوئی سکیورٹی ضمانت کے بغیر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑ رہا ہے، حالانکہ کییف کسی بھی امن معاہدے کے لیے اسے سب سے اہم قرار دیتا ہے۔
امریکہ: یوکرین کے لیے فوجی امداد روکنے کا حکم جاری
گوکہ زیلنسکی بھی اس وقت سعودی عرب میں موجود ہیں اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کرنے والے ہیں، لیکن امریکیوں کے ساتھ بات چیت میں وہ کوئی رسمی کردار ادا نہیں کریں گے۔ ان کے بجائے ان کے چیف آف اسٹاف، ان کے وزیر خارجہ اور دفاع اور صدارتی انتظامیہ میں ایک اعلیٰ فوجی اہلکار اس مذاکرات میں شرکت کررہے ہیں۔
(جاری ہے)
زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، "ہماری طرف سے، ہم مکمل طور پر تعمیری بات چیت کے لیے پرعزم ہیں اور ہم ضروری فیصلے اور اقدامات سے متفق ہوں گے۔" انہوں نے مزید کہا، "حقیقت پسندانہ تجاویز زیر غور ہیں۔ جلدی اور مؤثر طریقے سے آگے بڑھنا بنیادی بات ہے۔"
ٹرمپ اور زیلنسکی میں گرما گرمی، کس نے کس کو کیا کہا؟
قبل ازیں اتوار کو دیر گئے اپنے ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا، "ہمیں امن کو قریب لانے اور حمایت جاری رکھنے دونوں میں، نتائج کی امید ہے-"
معاہدے کے لیے فریم ورکٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف جو بات چیت کا نظم کر رہے ہیں، نے کہا کہ اس میٹنگ کا مقصد "امن معاہدے نیز ابتدائی جنگ بندی کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا ہے۔
"زیلنسکی نے فضا اور سمندر میں جنگ بندی کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کیا ہے۔ زیلنکسی کے بقول یہ روس کا جنگ کے خاتمے کے عزم کا امتحان ہو سکتا ہے۔
ماسکو نے عارضی جنگ بندی کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔
برطانیہ اور فرانس نے بھی عارضی جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی لیکن ماسکو نے یہ کہتے اسے مسترد کردیا کہ اس کا مقصد کییف کو وقت فراہم کرنا اور اس کی فوجی تباہی کو روکنا ہے۔
یوکرینی رہنما کا یہ بھی کہنا ہے کہ کییف امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے۔ جس کے نتیجے میں یوکرینی معدنیات کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کے لیے ایک مشترکہ فنڈ بنایا جائے گا۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ امریکی حمایت جاری رکھنے کے لیے یہ اہم ہے۔
ایسے میں جب کہ امریکی حمایت کے حوالے سے بہت کچھ واضح نہیں ہے، زیلنسکی نے اپنے یورپی اتحادیوں پر کییف کی معاونت پر زور دیا ہے۔
کیونکہ میدان جنگ میں اس کی پوزیشن بگڑتی جارہی ہے۔ سعودی عرب سفارت کاری کا اہم میزبانسعودی عرب روس اور یوکرین کے ساتھ امریکی سفارت کاری کا اہم میزبان بن گیا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ ریاض میں ملاقات کی تھی، جس میں یوکرین کے تنازعے پر مذاکرات کی بحالی اور مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
زیلنسکی 2022 میں روس کے حملے کے بعد سے کئی بار سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں لیکن روس-امریکہ مذاکرات کی دعوت نہ ملنے کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ ماہ اپنا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔
روس کے زیر کنٹرول یوکرین میں قید پانچ قیدیوں کو 2022 میں، سعودی ولی عہد کی مذاکرات میں شمولیت کے بعد تبادلے کے لیے ریاض لے جایا گیا تھا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر ایون گرشکووچ کی رہائی کو محفوظ بنانے میں بھی مدد کی، جسے روس نے گزشتہ سال "جاسوسی" کے الزام میں جیل میں ڈال دیا تھا۔
امریکہ کے تاریخی اتحادی، تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب 2018 میں ترکی میں منحرف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سفارتی لحاظ سے مشکلات سے دوچار ہو گیا تھا۔
لیکن وٹکوف نے کہا کہ ٹرمپ کی ٹیم کے سعودیوں کے ساتھ واقعی اچھے تعلقات ہیں۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زیلنسکی نے
پڑھیں:
عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔
روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔
یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔
اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔
اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔
ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟
دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔