UrduPoint:
2025-04-22@06:30:00 GMT

ٹرمپ کی دوسری میعاد: بھارت کے لیے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

ٹرمپ کی دوسری میعاد: بھارت کے لیے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) واشنگٹن میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو کے بعد، ایسے دوسرے اہم رہنما تھے جنہوں نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ بھارتی میڈیا میں اس ملاقات کو دونوں رہنماؤں کے درمیان بہترین کیمسٹری اور دونوں ملکوں کے درمیان قربت کو اجاگر کرنے کے لیے خوب اچھالا گیا اور کہا گیا کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے دوران بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں "قوت رفتار" کا امکان ہے۔

تاہم خارجہ امور کے متعدد ماہرین نے ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران نئی دہلی کے لیے مشکلات کی پیش گوئی کی ہے اور خبردار کیا کہ آگے چل کر بھارت کو "متعدد چیلنجز" کا سامنا ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی بات چیت کے بعد بعض معاہدوں کا اعلان ہوا، تاہم اس کے چند گھنٹے قبل ہی ٹرمپ نے بھارت میں امریکی کاروبار کے لیے خراب ماحول اور باہمی محصولات کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی۔

ایف 35 طیاروں کی امریکی پیشکش ایک تجویز ہے، بھارتی عہدیدار

دونوں رہنماؤں کی پریس کانفرنس اور میڈیا میں آنے والی خبروں کے بعد ایسا لگا کہ شاید ٹرمپ نے عالمی شراکت داری میں بھارت کے اہم کردار پر بات چیت کے لیے مودی کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ تاہم اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ مودی کو یہ بتانے کے لیے واشنگٹن طلب کیا گیا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے اور نئی انتظامیہ کی ترجیحات مختلف ہیں اور اس بدلتے منظر نامے میں اگر نئی دہلی الگ تھلگ نہیں پڑنا چاہتا، تو اسے تجارت اور اقتصادی روابط میں امریکی مفادات کا خیال رکھنا ہو گا اور اس کے ساتھ ہی دفاعی تعاون میں بھی واشنگٹن کی بات سننا پڑے گی۔

لہذا، بھارت کو امریکہ کے ساتھ صرف ٹیرف، تجارتی یا اقتصادی مسائل کا سامنا نہیں ہے، بلکہ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے مقابلے میں اس بار اسے مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

تجارتی پالیسی کا امتحان

وائٹ ہاؤس میں اقتدار کی تبدیلی کو ابھی صرف ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیں اور اس مختصر عرصے میں دنیا کئی جغرافیائی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔

بھارت بھی ان ممالک میں سے ایک ہے، جس پر اس کے اثرات سب سے زیادہ مرتب ہو سکتے ہیں اور اس سلسلے میں، اس کا پہلا چیلنج یہ ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف کی دھمکیوں کے درمیان سست رو معیشت کو کیسے مستحکم کیا جائے۔

امریکہ سے ملک بدری: غیر قانونی تارکین وطن کا پہلا گروپ واپس بھارت میں

مودی سے ملاقات کے بعد بھی ٹرمپ نے کئی بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جہاں تک تجارتی اور اقتصادی روابط کا تعلق ہے، دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف ایک بڑا مسئلہ ہے اور اقتصادی ماہرین کے مطابق اس سے صاف ظاہر ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں بھارت کے برآمدی سیکٹر کے لیے چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں۔

سابق بھارتی سفیر محمد افضل نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا بھارت کو نہ صرف اقتصادی محاذ پر بلکہ اسٹریٹجک امور میں بھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے، "جیو پولیٹیکل تعلقات ٹرمپ کی ترجیح نہیں ہیں، ان کے لیے تجارتی اور اقتصادی فائدے اہم ہیں، اس لحاظ سے بھارت کو آنے والے دنوں میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

"

امریکہ نے غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس بھیجنا شروع کر دیا

ان کا مزید کہنا تھا، "معاشی اور جغرافیائی سیاسی تعلقات متاثر ہوں گے، تاہم یہ مودی کی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان مسائل سے کیسے نمٹتی ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اصل میں کیا ہونے والا ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں اور مودی حکومت نقصانات کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

"

تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ وہ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہے اور وہ پہلے ہی امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے اور بہت جلد دونوں ممالک کے درمیان ایک جامع تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔

تجارت اور صنعت کے وزیر پیوش گوئل نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ آنے والی تجارتی بات چیت کے بارے میں حوصلہ افزائی کی اور جلد ہی امریکہ کے ساتھ "دو طرفہ تجارتی معاہدے" کی یقین دہانی کرائی ہے۔

بھارت پہلے ہی ٹرمپ کے دباؤ کے سامنے جھک چکا ہے اور بہت سے امریکی سامان پر اضافی محصولات کو ختم کیا جا چکا ہے، البتہ کئی امور پر اب بھی تعطل برقرار ہے اور اطلاعات ہیں کہ بھارت کے پاس امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ٹرمپ اور مودی کی فون پر گفتگو، دو طرفہ تجارت بھی اہم موضوع

مصنف اور خارجہ امور کے ماہر پرکاش بھنڈاری کہتے ہیں، "امریکہ جارحانہ موڈ میں ہے، بھارت کو ایک سازگار ماحول بنا کر سمجھوتہ کرنا چاہیے، یہی آگے کا راستہ ہے۔

آپ کو نئی حقیقتوں کو قبول کرنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، دہلی یہی کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔"

اشارے یہ ہیں کہ چند مہینوں میں معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں، تاہم، نئی تبدیلیوں سے تجارتی سرگرمیوں میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔ بھارتی منڈیوں نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ممکنہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی اثرات کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے ہیں۔

کیا انڈو پیسیفک ڈومین برقرار ہے؟

ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ بھارتی تجارت اور معیشت کو تو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں نئی دہلی کو فائدہ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے انڈو پیسیفک خطے میں دلچسپی ہے اور اس طرح وہ بھارت کے قریب تر ہونا چاہتا ہے۔

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین سے متعلق ٹرمپ کی حکمت عملی میں بھارت کا کردار اہم ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کی انتظامیہ کے بیشتر اہلکار بیجنگ کو واشنگٹن کے لیے ایک بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں بھی پڑوسی چین کی فوجی سرگرمیوں کے تعلق سے بے چینی پائی جاتی ہے، اس لیے دونوں کا اتحاد مضبوط ہو گا۔ لیکن نئی دہلی میں بعض ماہرین اس بات پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب دفاعی تعاون بھی خالصتاً امریکی مفادات سے وابستہ ہے۔

امریکہ: بھارتی ارب پتی گوتم اڈانی پر دھوکہ دہی کے الزام میں فرد جرم عائد

اسٹریٹجک اور خارجہ امور کے ماہر کلول بھٹاچارجی نے ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ" پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "بھارت کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ معاشی، تجارتی اور عسکری تعلقات امریکہ کی بہتری کے لیے کیسے استعمال ہوں، جبکہ نئی دہلی کو اپنے مفادات اور اپنی خارجہ پالیسی کا خیال رکھنا ہے۔

"

واضح رہے کہ انڈو پیسیفک ڈومین 2017 میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دور میں وجود میں آیا تھا، جس کی بنیاد اسٹریٹجک تعاون پر تھی۔ اس وقت اس میں چائنا فیکٹر، امریکہ بھارت کے نئے تعلقات اور جاپان وغیرہ جیسے مختلف عوامل کو شامل کیا گیا تھا۔

لیکن کلول کے مطابق، "وہ ڈومین اب غیر یقینی صورتحال میں ہے۔ یہ ایک ساتھ چلنے کے لیے ایک جامع اسٹریٹجک نقطہ نظر تھا، جس کے تحت انڈو پیسیفک کا آغاز ہوا۔

لیکن اب ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ میں، ہند بحرالکاہل فاؤنڈیشن، مکمل طور پر لین دین پر مبنی تجارت بنتی جا رہی ہے۔ اب ٹرمپ زور دے رہے ہیں کہ انڈو پیسیفک، ٹھیک ہے، تاہم اسے بھی بنیادی طور پر معاشی مفاد سے وابستہ ہونا چاہیے، یعنی کامرس اور کاروبار۔۔۔ سب کچھ میری شرائط پر ہو گا۔"

پرکاش بھنڈاری کلول سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، "گزشتہ ماہ کے دوران، عالمی سطح پر بہت بڑی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ ہند-بحرالکاہل فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد اپنی چمک کھو چکا ہے، اور اب جو اہم ہے، وہ صرف امریکہ کا مفاد ہے۔

لیکن اس کے مستقبل کے بارے میں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔"

اس غیر یقینی صورتحال کا الزام نئی دہلی پر ڈالتے ہوئے کلول کہتے ہیں، "ہر رشتے کی اپنی حد ہوتی ہے، آپ امریکہ کے ساتھ اس تعلق کو اس حد تک آگے لے گئے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ امریکی انتظامیہ اچانک اس طرح بدل بھی سکتی ہے۔"

روس پر اختلاف کے باجود بھارت جرمن تعلقات میں گرمجوشی

کیا امریکہ بھارت کو ایف-35 خریدنے پر مجبور کر رہا ہے؟

وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ اور مودی نے ایک دوسرے کی تعریف کی اور انڈو پیسیفک میں سکیورٹی تعاون کو گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔

اس کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ "ہم بالآخر بھارت کو ایف- 35 جنگی طیارے فراہم کرنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ سے فوجی ساز و سامان خریدے گا اور امریکہ بھارت کو اپنا جدید ترین لڑاکا طیارہ فروخت کرے گا۔"

بھارتی میڈیا میں صدر ٹرمپ کے اس بیان کو امریکہ بھارت دفاعی تعلقات میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم اپوزیشن جماعتوں اور کئی بھارتی دفاعی ماہرین نے صدر ٹرمپ کی طرف سے ایف 35 طیارے کی پیشکش کو امریکہ کا دباؤ قرار دیتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے لیے اس طیارے کی افادیت پر سوالات اٹھائے۔

واضح رہے کہ بھارت نے اس طیارے کی خریداری میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی اور دفاعی ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی یہ پیشکش بظاہر یکطرفہ ہے۔

بعد میں بھارتی سکریٹری خارجہ وکرم مصری کو وضاحت کرنا پڑی کہ "ایف 35 ڈیل اس وقت محض ایک تجویز ہے، جس پر کوئی عمل شروع ہی نہیں کیا گیا۔"

اس حوالے سے بھارت میں بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایف 35 کی خریداری کے حوالے سے مودی حکومت سے کئی سوالات پوچھے۔

انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں ایف - 35 کی آپریشنل خامیوں، اس کی زیادہ قیمت، اور گھریلو پیداوار کے لیے "ٹیکنالوجی کی منتقلی" کو محفوظ بنانے میں ناکامی جیسے مسائل پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے مزید کہا کہ "وزیر اعظم مودی امریکہ سے ایف – 35 طیارے خرید رہے ہیں۔

لیکن کیا صدر ٹرمپ کے کہنے پر طیارے خریدنے کا یہ یکطرفہ فیصلہ لینے سے پہلے مودی حکومت نے قومی مفاد میں ان پہلوؤں پر غور کیا ہے؟"

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف 35 بہت مہنگا جنگی طیارہ ہے، جس کی بھارتی فضائیہ کے خیال میں اب ضرورت نہیں، تاہم امریکہ اسے بھارت کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کانگریس پارٹی نے مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مودی ٹرمپ کے دباؤ میں جھک رہے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ٹرمپ کے اعلان کے بعد بھارت نے امریکہ سے ایف 35 طیاروں کی خریداری پر رضامندی ظاہر کی ہے، بھارتی سکریٹری خارجہ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ صرف امریکہ کی ایک تجویز ہے اور ان کے حصول کے طویل عمل کے بارے میں ابھی سوچا تک نہیں گیا ہے۔"

کلول کہتے ہیں کہ ایف 35 کا یہ معاملہ، "پوری طرح سے واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ معاشی، تجارتی اور عسکری تعلقات کو کس طرح امریکہ کے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

عیاں ہے کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے دور میں انڈو پیسفک فاؤنڈیشن لین دین کی تجارت بن رہی ہے۔"

نئی دہلی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید 2014 میں ایف - 35 جنگی طیارے بھارت کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتے تھے، تاہم اب بھارت اتنے مہنگے جنگی طیاروں کی بجائے بہترین ڈرون اور اس کی ٹیکنالوجی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ بھارتی فضائیہ کا کہنا ہے کہ اسے اتنے مہنگے جہازوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

چیلنجز اور مواقع

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی کو اس بات کا خدشہ ہے کہ شاید ٹرمپ چین کے ساتھ ایک معاہدہ کرسکتے ہیں، جس میں بھارت کو شامل ہی نہ کیا جائے اور یہ عنصر بھی نئی دہلی پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔

13 فروری کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مدد کی پیشکش کے لیے تیار ہے۔

تاہم بھارت نے ٹرمپ کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کرنے کا انتخاب کیا کہ بھارت ایسے مسائل دو طرفہ طور پر حل کرنے کو ترجیح دے گا۔

محمد افضل کہتے ہیں کہ، "نئی صورتحال بھارت کے لیے کافی دلچسپ ہے، یہ امریکہ کی جانب سے کچھ چیلنجز کے ساتھ ہی بھارت کو بھی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے نئے مواقع بھی پیش کرتا ہے، تاہم یہ اب مودی حکومت پر منحصر ہے کہ نئے راستوں کو کیسے تلاش کیا جائے۔

"

پرگاش بھنڈاری کہتے ہیں، "یہ ایڈجسٹ کرنے کا وقت ہے، کچھ رعایتیں دیں اور آگے بڑھیں۔ بھارت امریکہ کی حمایت سے محرومی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے اسے امریکہ کو اقتصادی تعلقات، خاص طور پر تجارت، ٹیرف وغیرہ میں زیادہ رعایتیں دینا ہوں گی اور پھر اسٹریٹجک محاذ پر کچھ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔"

کلول بھٹاچرجی کی تجویز یہ ہے کہ نئی امریکی پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے نئی دہلی کو اپنی "بعض پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں" کرنی ہوں گی۔

"ہمیں ابھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کس سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔ یہ بہت اہم وقت ہے اور حتمی طور پر کچھ بھی کہنا بہت جلد بازی ہو گی۔"

انہوں نے مزید کہا، "ٹرمپ امریکہ 'پہلے' کے ایجنڈے پر عمل کریں گے اور ظاہر ہے یہ بہت سے معاملات میں بھارتی مفادات اور خیالات سے متصادم رویہ ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی دوسری ہے کہ ٹرمپ کی امریکہ بھارت کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے انتظامیہ کے اور اقتصادی کے بارے میں تجارتی اور مودی حکومت امریکہ کی میں بھارت کے درمیان بھارت میں امریکہ سے سکتے ہیں کا سامنا کہ بھارت بھارت کو کہتے ہیں کے مطابق کی پیشکش کے دوران نئی دہلی انہوں نے ٹرمپ کے ہو سکتے رہے ہیں بات چیت کیا گیا ہیں اور سکتا ہے میں بھی ہے اور رہی ہے بہت سے اور اس چکا ہے اس بات کے بعد رہا ہے ہیں کہ کیا جا کہا کہ

پڑھیں:

پاکستان میں پولیو کے خلاف سال کی دوسری قومی مہم کا آغاز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیو کی بیماری کے خلاف پاکستان میں سال 2025ء کی اس دوسری ملک گیر مہم کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں بچوں کو متاثر کرنے والی اس بیماری کے نئے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت صرف پاکستان اور اس کا ہمسایہ ملک افغانستان ہی دو ایسی ریاستیں ہیں، جہاں اس بیماری کا تاحال مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔

پولیو کی بیماری ممکنہ طور پر بچوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے اور اپنے کم عمر متاثرہ مریضوں کو یہ کلی یا جزوی طور پر جسمانی معذوری کا شکار تو بنا ہی دیتی ہے۔ جنوری سے اب تک پاکستان میں پولیو کے چھ نئے کیسز

پاکستان میں اس سال جنوری سے لے کر اب تک پولیو کے چھ نئے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اس میں بھی کچھ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ فروری کے مہینے سے اب تک اس مرض کا پاکستان میں کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔

اس سے قبل گزشتہ برس پاکستان میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، پولیو کے نئے کیسز میں واضح اضافہ دیکھا گیا تھا اور ان کی تعداد 74 رہی تھی۔

حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 2024ء میں پولیو کے 74 نئے کیسز سے قبل پاکستان میں اس سے پہلے 2021ء میں اس بیماری کا صرف ایک نیا واقعہ سامنے آیا تھا۔

ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماضی قریب میں پولیو کے خلاف جو جنگ بظاہر حتمی کامیابی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی تھی، وہ 2024ء میں واضح طور پر ناکام ہوتی دکھائی دی۔

اسی لیے اب حکومت نے ملک میں اس سال کی دوسری قومی ویکسینیشن مہم کا آغا زکیا ہے۔ پاکستانی وزیر صحت کی طرف سے والدین سے اپیل

پاکستان وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے انسداد پولیو کی اس نئی مہم کے آغاز پر ملک بھر میں چھوٹے بچوں کے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ رواں ہفتے اپنے اپنے رہائشی علاقوں میں گھر گھر جانے والے طبی عملے سے تعاون کریں اور اپنے بچوں کے پولیو کے خلاف حفاظتی قطرے پلوائیں، تاکہ ملک سے اس بیماری کا خاتمہ کیا جا سکے۔

پاکستان میں ماضی میں مختلف عسکریت پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلح حملہ آور خاص طور پر ملکی صوبوں بلوچستان اور خیبر پختوانخوا میں بچوں کو پولیو ویکسین پلانے والی طبی ٹیموں کے ارکان اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

ان حملوں کی وجہ عام طور پر مغرب مخالف عناصر کی طرف سے پھیلائی جانے والی یہ دانستہ غلط معلومات بنتی ہیں کہ عام بچوں کو یہ ویکیسن مبینہ طور پر اس لیے پلائی جاتی ہے کہ وہ بالغ ہو کر افزائش نسل کے قابل نہ رہیں اور یہ بھی کہ یہ عمل مبینہ طور پر مسلم بچوں کے خلاف ایک نام نہاد مغربی سازش کا حصہ ہے۔

انسداد پولیو مہم کے کارکنوں کا اغوا

پاکستان میں انہی بےبنیاد افواہوں اور غلط معلومات کے تناظر میں 1990 کی دہائی سے لے کر اب تک پولیو ویکسینیشن ٹیموں پر ملک کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے مسلح حملوں میں 200 سے زائد اینٹی پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والے پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان میں سے تقریباﹰ 150 پولیو ورکر اور سکیورٹی اہلکار 2012ء کے بعد مارے گئے ہیں۔

ابھی گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں مسلح عسکریت پسندوں نے کم از کم دو ایسے اینٹی پولیو ورکرز کو اغوا بھی کر لیا تھا، جن کا تعلق عالمی ادارہ صحت سے تھا۔ ان حملہ آوروں نے ڈیرہ اسماعیل خان نامی شہر میں ان کارکنوں کی گاڑی پر فائرنگ کر کے پہلے اسے رکنے پر مجبور کر دیا تھا اور پھر اس میں سوار دو کارکنوں کو اغوا کر کے یہ عسکریت پسند اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

یہ دونوں ہیلتھ ورکرز پاکستانی شہری بتائے گئے تھے، جو آج پیر سے شروع ہونے والی ویکسینیشن مہم کے لیے فیلڈ سٹاف کو تربیت دینے کے بعد واپس اپنے دفتر جا رہے تھے۔

ان دونوں مغویوں کو تاحال برآمد نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ انہیں اغوا کس مسلح گروہ نے کیا ہے۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ کا 600 کروڑ کمانے والی دوسری بالی ووڈ فلم بن گئی
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • پاکستان میں پولیو کے خلاف سال کی دوسری قومی مہم کا آغاز
  • جنید جمشید نے اپنی دوسری اہلیہ سے آخری گفتگو کیا کی تھی؟
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • ایلون مسک سے ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے.نریندرمودی