پاکستان کی سیاسی جماعتیں عموماً اپنی حکومت کی ناکامیوں کو تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہیں، لیکن تحریک انصاف خیبرپختونخوا نے اس روایت کو توڑتے ہوئے اپنی ہی حکومت پر کھلی تنقید کی ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے کیونکہ پاکستان میں حکمران جماعتیں عموماً اپنی کارکردگی کے دفاع میں مصروف رہتی ہیں۔
تحریک انصاف کے اس اعتراف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چیئرمین عمران خان جیل میں ہیں۔ ورنہ ماضی میں ان کی موجودگی میں نہ تو پارٹی کے اندر کوئی تنقید کر سکتا تھا اور نہ ہی حکومت کی ناکامیوں پر آواز اٹھانے کی اجازت تھی۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں بزدار، فرح گوگی اور بشری بی بی جیسی شخصیات کے کرپشن کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے خاموش کروا دیا جاتا یا برطرف کر دیا جاتا، چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو۔ یہاں تک کہ اگر کوئی حساس ادارے کا سربراہ بھی حکومت کے بعض فیصلوں پر انگلی اٹھاتا تو اس کا عہدہ خطرے میں پڑ جاتا۔
تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی ضلعی سطح پر ہونے والی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈہ پور کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ جاری کیے گئے اعلامیے میں اعتراف کیا گیا کہ صوبے میں مسلسل تیسری حکومت ہونے کے باوجود مسائل حل نہیں ہو سکے۔ خاص طور پر پشاور، جو صوبائی دارالحکومت ہے، بنیادی شہری سہولیات سے محروم ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ سیوریج نظام تباہ حال ہے، جس کے باعث بارشوں کے دوران شہر سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ صفائی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اور واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کی ناقص کارکردگی کے باعث گندگی کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔ پشاور کے کئی علاقے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جبکہ اسٹریٹ لائٹس کی عدم دستیابی کے باعث سڑکوں پر اندھیرا رہتا ہے۔ پشاور کا ترقیاتی فنڈ دیگر اضلاع میں منتقل کیا جا رہا ہے جس سے شہر مزید بدحالی کا شکار ہو رہا ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ جو 2009 ء میں تجویز کیا گیا تھا آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دعوے حقیقت سے دور تھے اور ہیں بھی۔
یہاں کس کا بس چلتا ہے
یہاں کس کی چلتی ہے
یہاں جو بھی آیا ہے
اس نے دھوکہ کھایا ہے
تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے اس اعلامیے کے بعد صوبائی حکومت کی طرف سے فوکل پرسن وزیر اعلی برائے پشاور میگا پراجیکٹس ارباب عاصم نے وضاحت دی کہ صوبے بھر میں بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے اور اجلاس میں دی گئی تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ یہ وضاحت اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ترقیاتی منصوبے جاری ہیں تو ان کے اثرات زمین پر کیوں نظر نہیں آرہے؟ اگر تمام مسائل پر کام ہو رہا ہے تو پشاور کے شہری آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم کیوں ہیں؟
تحریک انصاف کی حکومت نے ہمیشہ احتساب کے نعرے لگائے مگر جب وہ خود حکومت میں آئی تو کیا اس نعرے پر عمل کیا؟ اپوزیشن کے ادوار میں عمران خان کی قیادت میں ان کی جماعت نے کرپشن کے خلاف بھرپور مہم چلائی مگر اپنے دورِ حکومت میں بزدار، فرح گوگی سمیت دیگر شخصیات کے مالی معاملات پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ اب جبکہ پارٹی قیادت کمزور ہے اور عمران خان جیل میں ہیں تو خیبرپختونخوا میں پارٹی رہنما اپنی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس تنقید کے بعد اصلاحات بھی ہوں گی یا پھر یہ محض ایک رسمی کاروائی ثابت ہو گی؟ یہ راز کھلنے میں دیر ہے شاید ابھی کچھ پردہ گرا ہوا ہیعمران خان کی موجودگی میں ان کے فیصلوں اور حکومت کی کارکردگی پر تنقید ممکن نہیں تھی۔ مگر ان کی غیرموجودگی میں خیبرپختونخوا کے تحریک انصاف رہنمائوں نے حکومت کی خامیوں کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ موڑ ہے، کیونکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب قیادت سخت کنٹرول رکھتی ہے تو اندرونی احتساب کا عمل رک جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا المیہ یہی رہا ہے کہ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے شفافیت اور اصلاحات کی بات کرتی ہیں مگر جیسے ہی اقتدار میں آتی ہیں، وہی پرانی روایات دہرانا شروع کر دیتی ہیں۔
تحریک انصاف نے 2018 ء میں حکومت سنبھالی تو بڑے دعوے کیے لیکن کیا وہ واقعی اپنے وعدے پورے کر سکی؟ خیبرپختونخوا میں تیسری مرتبہ حکومت بنانے کے باوجود اگر بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نو سالوں میں کیا کیا گیا؟ اگر اب بھی پشاور جیسے بڑے شہر میں میٹرو بس، پانی، صفائی اور سیف سٹی جیسے منصوبے حل طلب ہیں تو حکومت کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔
یہ کس کا لہو ہے، کون مرا
یہ کیا ماجرا ہے، میں کیا جانوں
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اس خوداحتسابی کو مزید آگے بڑھائے گی یا یہ صرف ایک وقتی بیانیہ ہے؟ کیا پارٹی کے دیگر رہنما بھی اپنے دورِ حکومت کے دیگر فیصلوں پر نظرثانی کریں گے؟ اور کیا پارٹی کے اندرونی ڈھانچے میں اتنی جمہوریت موجود ہے کہ قیادت کے فیصلوں پر تنقید برداشت کی جا سکے؟
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے اندرونی نظام کو جمہوری بنائے، جہاں قیادت کے فیصلوں پر بھی سوال اٹھایا جا سکے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے حقیقی اقدامات کیے جائیں۔ صرف اعتراف کر لینا کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ عوام کو واضح فرق محسوس ہو۔
تحریک انصاف ہمیشہ سے دوسروں پر تنقید کرتی آئی ہے، مگر اب اسے اپنے اندر بھی جھانکنا ہوگا۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت اس تنقید کو اصلاحات میں تبدیل نہیں کر پاتی تو پھر یہ اعترافی بیانات محض تاریخ کا حصہ بن جائیں گے، اور عوام ایک بار پھر محرومی کا شکار رہیں گے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی تبھی آ سکتی ہے جب جماعتیں اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات بھی کریں۔ ورنہ محض بیانات اور تنقیدی اعلامیے عوامی مسائل کا حل نہیں ہو سکتے۔
جو خواب دیکھے تھے، وہ ٹوٹتے کیوں ہیں
یہ لوگ چپ چپ سے، یوں روٹھتے کیوں ہیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی کارکردگی پر تحریک انصاف فیصلوں پر حکومت کی یہ ہے کہ کیا گیا ہیں تو رہا ہے
پڑھیں:
تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔
یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔
اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
Post Views: 5