WE News:
2025-04-22@11:08:52 GMT

’سیٹ ون سی‘

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو آپ کو مجبوراً پڑھنا پڑتی ہیں اور دوسری وہ جو آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ظفر مسعود کی کتاب ’سیٹ ون سی‘ کا شمار مؤخر الذکر کتابوں میں ہوتا ہے۔

ظفر مسعود پیشے کے اعتبار سے بینکر لیکن مورثی اعتبار سے فلسفی، نفسیات دان اور دانشور ہیں۔ ان کا تعلق اس خانوادے سے ہے جس کی رگوں میں نانا سید محمد تقی، رئیس امرہوری اور جون ایلیا کا خون رواں ہے۔ ان کے والد پاکستان کے نامور اداکار منور سعید ہیں۔ جو  ٹی وی فلم اور اسٹیج کا ایک معتبر نام ہے۔

ان کے نانا تقی صاحب وہی ہیں جنہوں نے 1961 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے کہنے ہر کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل کا ترجمہ عربی زبان میں کیا تھا۔

 ہر وہ شخص  جس کو ادب اور صحافت سے رتی بھر بھی علاقہ ہے وہ رئیس امرہوی کے نام اور کام سے واقف ہے۔ جون ایلیا آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ ان کی شاعری کے تو بہت معترف مل جائیں گے مگر میری رائے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’شائد‘ کا دیباچہ ہے۔ جس نے وہ پڑھا، سمجھا اور سیکھا ہے وہ پھر وہ نہیں رہا۔ جون کا مرید ہو گیا۔ فلسفہ، جون  کی نثر کا وصف رہا ہے یا پھر یہ کہیے کہ یہ میراث ہے جو آج کی نسل میں بھی تقسیم کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ہیرے | عمار مسعود کا کالم

ایک مدت تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ بینکر ’بورنگ‘ ہوتے ہیں۔ روٹین کے کام کرکے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور ہندسوں سے آگے سوچنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ لیکن مشتاق احمد یوسفی نے ان تمام خیالات کو فاسد ثابت کیا۔ وہ 4 بینکوں کے صدر اور بینکنگ کونسل کے چیئرمین رہے۔ نہ کبھی اپنے پیشے کو اپنے فن کی راہ میں حائل ہونے دیا نہ کبھی اپنے شوق کو بینکنگ کی راہ میں روکاوٹ بننے دیا۔ جملہ فرسودہ ہو چکا ہے کہ ’ہم اردو فکاہیہ ادب کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔ اب بات یوں بنتی ہے کہ اردو نثر کی آبرو یوسفی ہی ہیں اور ان سا نثر نگار اردو ادب میں کوئی اور نہیں۔ اور یوسفی ایک لاجواب نثر نگار کے علاوہ ایک باکمال بینکر بھی تھے، یعنی

ہم جیتے جی مصروف رہے

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

ظفر مسعود نے کبھی اپنے خاندان کے حوالے سے خود کو متعارف نہیں کیا، لیکن ’سیٹ ون سی‘ میں اس خانوادے کو ذکر ضرور ہے جس نے ظفر مسعود کی ذہنی تربیت کی ہے۔ پیشے کےا عتبار سے ظفر مسعود ایک گھاگ بینکر ہیں۔ بینکر بھی ایسے کہ بینک آف پنجاب جیسے معروف ادارے  کے سی ای او ہیں۔ دنیا بھر کی بینکوں کا پانی انہوں نے پیا ہوا ہے۔ ہر جگہ اپنے علم و ہنر کا لوہا منوا چکے ہیں۔

’سیٹ ون سی‘ 22 مئی 2020 کے ایک لمحے کی کہانی ہے۔ اس ایک لمحے میں ظفر مسعود کی زندگی ہی نہیں دنیا بھی بدل گئی۔ ان کا جہاز لاہور سے اڑا اور کراچی ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے نزدیکی عمارتوں پر جا رہا۔ یہ پی آئی اے کی پرواز فلائٹ 8303 تھی۔ طیارے میں کل 99 لوگ سوار تھے، ان میں سے 97 اس حادثے کا شکار ہوئے۔ 2 مسافر ظفر مسعود اور محمد زبیر اس جان لیوا حادثے میں زندہ بچ گئے۔

اس قدر شدید حادثے میں بچ جانے پر کسی نے اس واقعے کو  اتفاق مانا، کسی نے کرشمہ کہا اور کسی نے معجزہ قرار دیا۔ ہم نے بھی خوش قسمتی کو کیا کیا نام دیئے ہوئے ہیں۔ شدید زخمی حالت میں زندہ بچ جانے والے بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعود کی جہاز میں نشست کا ’نمبر ون سی‘ تھا۔ یہ کتاب اس لمحے کی داستان ہے۔ اسکے لمحے کے گزر جانے کے بعد کی زندگی  کا احوال ہے۔ جو اس ایک لمحے کی یاد میں پیوست ہے۔

یہ درست ہے کہ اس طرح کے حادثے میں بچ جانا بہت خوش بختی کی بات ہے اور اس پر ایک لاجواب کتاب لکھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ لیکن میں اس تمام کتاب کو اس خدشے کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں کہ کہیں صاحب کتاب اس حادثے میں بچ جانے کو اپنی کرامات کا نتیجہ تو قرار نہیں دے رہے۔ ایسے میں بندہ خود کو کم از کم ولی یا صوفی تو ضرور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ظفر مسعود اس خوش گمانی سے تمام کتاب میں بال بال بچتے رہے۔ اگر وہ اس واقعے کو کوئی ذاتی کرامت یا پارسائی کا نتیجہ  قرار دیتے تو پھر اس کتاب کی نہج مخلتف ہوتی۔ پھر اس میں  معجزے اور کرشمے پر بحث ہوتی۔ ما بعد الطبیعات کے فلسفے بتائے جاتے مگر اس حادثے کی عقلی توجیہات تحریر میں میسر نہ آتیں۔

یہ کتاب منطق اور دانش کو بروئے کار لا کر لکھی گئی ہے۔ اس میں اس لمحے کا بارہا ذکر ہے جس میں یہ حادثہ ہوا، مگر اس حوالے سے اپنے حق میں نعرہ لگانے سے گریز کیا گیا ہے۔ اور آپ بیتی کے بہانے جہاں بھر کی نیکیوں  کی تہمت پر لگوانے سے گریز کیا گیا ہے۔

اپنے ہاں سانحوں کے بارے اس پر سطحی جذباتیت سے ماورا ہو کر عقلی بنیادوں پر بحث کرنا سہل کام نہیں۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر سماج کا کتھارسس کرنا آسان مرحلہ نہیں۔ حادثوں پر ماتم کی ہمارے ہاں روایت ہے، مگر ان حادثوں سے سبق سیکھنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ یہ کتاب آپ کو اشکبار نہیں کرتی بلکہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

کسی نے کہا کتاب پڑھنا ریل کی سفر کی طرح ہوتا ہے۔ کتاب کے ابواب رستے میں آئے اسٹیشنز کی طرح ہوتے ہیں۔ اہمیت رستے میں آئے اسٹیشنز کی نہیں ہوتی بلکہ منزل کی ہوتی ہے۔ لیکن عجب لطف کی بات ہے اس کتاب کا ہر باب آپ کو منزل تک رسائی دیتا ہے۔ ہرباب ایک واقعے کے حوالے سے دانش، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کا نیا پہلو سامنے لاتا ہے۔ ہر باب اتنا مکمل ہے کہ اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پھر بات سمجھائی بھی گئی،  کبھی معروف فلسفی کانٹ سے لفظ مستعار لیے گئے،  کبھی کارل مارکس کا حوالہ دیا گیا اور کبھی رئیس امروہوی کے اشعار کے توسط سے مدعا بیان کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:جیل سے آن لائن

پہلا باب ’تکبر‘ اس مصنوعی احساس تفاخر پر بات کرتا ہے جو بدقسمتی سے ہم میں بحیثیت قوم بلاوجہ در آیا ہے۔ دوسرا باب ’واجبات‘ کا ہے، جو اس لمحے کے سکون اور سکوت  پر بات کرتا ہےکہ جب موت یقینی ہو۔ اس لمحے میں کون سے قرض یاد آتے ہیں جنہیں اتارنے کی فرصت سانسیں نہیں دیتیں۔ تیسرا باب ’نیکی‘ ہے جس میں اس سیاح کی بات کو دہرایا گیا ہے کہ جس نے پیدل دنیا بھر کا سفر کیا، کہیں جنگل میں قیام کیا، کسی سے مانگ کر پیٹ بھرا، کسی رستے میں لُٹ گیا لیکن اس کے دنیا بھر کے سفر کا نتیجہ یہ رہا کہ ’انسان مجموعی طور پر اچھے ہوتے ہیں‘۔ چوتھا باب ’خلوص‘ ہے۔ اس باب میں اخلاص کی فلسفیانہ توجہیات بھی موجود ہیں اور ادبی تلمحیات بھی اس کا حصہ ہیں۔ یہ خلوص کبھی ایک بینک کے سی او کی جانب سے ان کے عملے کے لیے محبت کے پیغام کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی 1857 کی جنگ آزادی کے قصے دہراتا ہے۔ پانچواں باب ’معجزات‘ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کس طرح اس واقعے پر معجزے کے گمان سے مفر کیا گیا ہے۔ حادثے کو حادثہ رکھا اور خود کو نام نہاد صوفی، بزرگ بنانے سے اجتناب کیا گیا۔ چھٹا باب ’قوت ارادی‘ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ قوت ارادی بہت بڑی چیز ہے مگر سب کچھ نہیں۔ کچھ اختیار میں ہے اور بے شمار جگہ آدمی بے اختیار ہے۔ یہی کائنات ہے اور یہی انسان کی فطرت اور جبلت ہے۔ ساتواں باب ’رسومات‘ کے نام سے ہے۔ یہ سماجی رسومات کا ذکر ہے جہاں فرد خدا بننے سے باز نہیں آتا۔ حقیقت کو اپنے افسانوں پردوں میں پنہاں کر کے اس کو رسم کہنے کی قبیح عادت اس سماج میں  پرانی ہے۔ لیکن اس کا منطقی موازنہ کم کم ہوتا ہے۔ حقیقت کسی بھی رسم سے بڑی ہوتی ہے۔ آٹھواں باب ’دلیرانہ اقدام‘ ہے، اس میں کسی افسانوی ہیرو کا ذکر نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی سچی کہانی ہے جو طیارے کے حادثے میں زخمی ہوا اور اپنی نفسیاتی صحت کے لیے ماہر نفسیات سے ببانگ دہل مشورہ کرنے کو بہادری بتایا۔

نواں  باب ’ابلاغ‘ کی بات کرتا ہے۔ ایک بات کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک منتقل کرنے کے مروج طریقوں پر بحث کرتا ہے۔ اس باب کو میں نے بہت حیرت سے پڑھا اور دیر تک خوشگوار حیرت میں یہ سوچ کر مبتلا رہا  کہ کوئی اور بھی ہے اس زمانے میں جو اس طرح سوچتا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو کہتا ہے کہ فنون کی ترویج سے معاشرہ سدھر سکتا ہے ۔شعر کی تحسین سے سے، پینٹنگ کے اسٹروکس کی توصیف سے، نغمے کی دھن سے کی داد سے، رقص کی جوش کی تعریف سے، کہانی لکھنےوالوں کی حوصلہ افزائی سے یہ سماج سدھر سکتا ہے۔ اس سے مجموعی شدت اور نفرت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ معاشرے کو متوازن اور معتدل بنایا جا سکتا ہے۔ میری ساری عمر کی ریاضت اور تربیت  کا ثمر یہی سبق  ہے اور اس کتاب کے آخری باب کو پڑھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کوئی اور بھی ہے اس روئے زمین پر جس کو اس بات کا ادراک ہے۔

نواں باب ’ورثہ یا ترکہ‘ ہے۔ یہ اس خیال کو موضوع بناتا ہے کہ اگر زندگی نے موقع دیا تو ہم ترکے میں کیا چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنے والی نسلوں کو کیسا سماج دے کر جارہے ہیں؟ اس سوال کا تعلق حیثیت اور نسب سے نہیں بساط سے ہے۔ کیا ہم اپنی بساط کے مطابق ایک بہتر معاشرے کی تخلیق کر رہے ہیں یا پھر اس بے نام ہیجان اور انتشار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی بساط کے مطابق اس عہد کی جھولی میں کیا ڈال رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو سب کو سوچنا ہے بلکہ یہی ایک قابل فکر سوال ہے، باقی تو سب آموختہ ہے۔ آخری باب ایک بہتر معاشرے ایک متوازن دنیا ور معتدل سماج کی امید کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے لیے کل نہیں بلکہ آج سے کام شروع کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:الف سے اللہ، ب سے بلوچستان، پ سے پاکستان

کسی حادثے کا شکار ہو کر لوگ س حادثے کے تمام تر محرکات اور امکانات سے تمام عمر خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ ظفر مسعود کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ نہ صرف اب بھی پی آئی اے سے  سفر کرتے ہیں بلکہ بالاصرار اپنی نشست ’سیٹ نمبر ون سی‘ کی ہی درخواست کرتے ہیں۔ یہ صرف خود اعتمادی کا قصہ نہیں اس نظام قدرت پر اعتبار کی بھی بات ہے۔

یہ کتاب پڑھ کر عجب طمانیت کا احساس ہے کہ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ طیارے کے حادثے میں کوئی جانبر ہو جائے اور شاید یہ بات اس  سے بھی زیادہ معتبر بات یہ ہے کہ وہ بچ جانے والا شخص ایسی کتاب لکھے جو حادثے کی سنسنی سے گریز کرے اور اس کے محرکات کو منطقی طور پر سمجھے اور اس واقعے کی ذریعے معاشرے کی خیر کے پہلو سوچے۔ یہ بات اس کتاب کو اور اس کے مصنف کو بہت معتبر بناتی ہے۔ یہ کتاب  صرف حادثے کی تفصیلات نہیں بتاتی بلکہ زندگی کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے:

تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں

تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے

میری ظفر مسعود سے کوئی ملاقات نہیں۔2 دفعہ ایک نابینا دوست کی سفارش کے لیے انہیں فون کیا، جس کا جواب نہایت خندہ پیشانی سے ملا۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ملاقات کی خواہش ہے۔ لفظ ادھوری ملاقات ضرور ہوتے ہیں مگر پوری ملاقات ادھار نہیں رہنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

بینک بینک آپ پنجاب پی آئی اے جون ایلیا رئیس امروہوی سید تقی ظفر مسعود کارل مارکس۔.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ا ئی اے کارل مارکس ظفر مسعود کی سیٹ ون سی مسعود کا اس واقعے ہوتے ہیں کوئی اور ہیں اور سکتا ہے اس کتاب کیا گیا یہ کتاب کرتا ہے رہے ہیں ہے اور کے لیے گیا ہے خود کو کی بات بات ہے اور اس

پڑھیں:

Rich Dad -- Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام، کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔

 اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے۔

 یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا۔

 والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازع تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازع بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔

آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 53 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے۔

 آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی۔

 بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے‘ ان کے لیے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا۔

 یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازع پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔

میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارع تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔

 غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔

 وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے۔

 تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی
  • فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • کتاب ہدایت
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • یہودیوں کا انجام
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے