انسان اور مسلمانوں کی جانوں سے کھیلنا کوئی جہاد نہیں، مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
امیر جمعیت علماء اسلام ف مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ مولانا حامد الحق حقانی جیسے بے ضررانسان کو مسجد میں نشانہ بنانا سفاکیت اور درندگی ہے، جو بندوق عالمِ دین کے خلاف استعمال ہو وہ جہاد نہیں دہشت گردی ہے، تفصیلات کے مطابق امیر جمعیت علماء اسلام ف مولانا فضل الرحمان اپنے وفد انجینئر ضیاء الرحمان، مولانا راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان، مولانا عطاء الحق درویش و دیگر مرکزی وصوبائی اور ضلعی رہنماؤں کے ہمراہ دارالعلوم حقانیہ پہنچے اور مہتمم جامعہ حقانیہ مولانا انوار الحق و نائب مہتمم مولانا راشد الحق سمیع، سیاسی جانشین مولانا عبدالحق ثانی سمیت خاندان اور اساتذہ و مشائخ دارالعلوم حقانیہ سے اس دردناک سانحہ پر تعزیت اور مولانا حامد الحق حقانی سمیت دیگر شہداء کے لئے دعائے مغفرت کی۔ انہوں نے تعزیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل رات کو حرمین شریفین سے پاکستان واپسی ہوئی، مولانا حامد الحق شہید اور دیگر کی شہادت نے ہم سب کو انتہائی غمزدہ کردیا ہے، دارالعلوم حقانیہ میری مادر علمی ہے جس کی عزت و حرمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، مولانا حامد الحق حقانی جیسے بے ضررانسان کو مسجد میں نشانہ بنانا سفاکیت اور درندگی ہے، ایسے بہیمانہ واقعات ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ انسان اور مسلمانوں کی جانوں سے کھیلنا کوئی جہاد نہیں، دہشت گرد مسلمان کے قتل کو جہاد سمجھتے ہیں، یہ اسلام اورمسلمان دشمنی ہے جو بندوق عالمِ دین کے خلاف استعمال ہو وہ جہاد نہیں دہشت گردی ہے، ایسے حملے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں جس میں جید علمائے کرام کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے مگر ہم باطل قوتوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم نہ اپنے مشن سے پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہم اپنے نظریے اور اس کے حصول کے لئے اکابر کے دیئے گئے طریقہ کار اور منہج کو چھوڑیں گے، اسلام اور مدارس امن، تعلیم و سلامتی کے مراکز ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ ذمہ داریاں
قرآن و سنت کی نگاہ میں
مہمان تجزیہ نگار: پروفیسرڈاکٹر زاہد علی زاہدی (ڈین فکیلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ کراچی)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 20 اپریل 2024
ابتدائیہ
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً﴾
ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟ جب کہ کمزور مرد، خواتین اور بچے پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں:
یا رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی بنا دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے۔(سورہ نساء: 75)
ماہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷تاریخ سے تاحال فلسطین کے باشندوں خصوصاً اہالیانِ غزہ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔
نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے ہزار وںسے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے،
جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں،
لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔ ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
خلاصہ گفتگو، اہم نکات:
اسرائیلی مظالم تو اس کے وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے
غزہ اس صدی کا ایک انسانی المیہ بنتا رہا ہے
گزشتہ چوہتر برس میں زمینوں پہ قبضے کے بعد اب نسل کشی شروع کردی گئی ہے
صابرہ اور شتیلہ سے لے کر آج غزہ تک صیہونی مظالم کی تاریخ دنیا کے سامنے عیاں ہے
پاکستان کے علما کو اب اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ یاد آیا ہے
لیکن کیا صیہونی مظالم کے خلاف کسی فتویٰ کی بھی ضرورت ہے
سورہ نسا کی آیة 75 واضح طور پہ مسلمانوں پہ ظلم کرنے والوں سے قتال کا حکم دے رہی ہے
مسلمان علما کو تو مولا علیؑ کا خطبہ جہاد سُنانے کی ضرورت ہے
نہج البلاغہ کا خطبہ جہاد مسلمانوں کی حمایت و حفاظت کے لئے جہاد کا حکم بیان کرتا ہے
سیکورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ عضو معطل بن چکی ہے
مسلمان حکمران بھی اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مسلمان حکمران اور عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہوچکی تھیں
رہبرِ معظم نے مقاومت اور مزاحمت کو ایک نظریے کانام دیا ہے
مکتبِ مقاومت و مزاحمت اپنی نظریے سے ہٹ نہیں سکتے
جب کہ "مکتبِ مفاہمت" آج بھی اسرائیل اور امریکہ کے خوف میں مُبتلا ہے
قرآنِ مجید تو قتال و جنگ کا حکم دیتا ہے، حماس نے اسی پہ عمل کیا۔
حق کے لئے جنگ کرنے کا انحصار تعداد اور وسائل پر نہیں ہوسکتا
آبرو مندانہ اورعزت کی زندگی گزارنے کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے