جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ عالم دین کے خلاف بندوق اٹھانا جہاد نہیں دہشتگردی ہے، ایسے لوگ مجاہد نہیں قاتل اور مجرم ہیں۔

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ آج دارالعلوم حقانیہ کے در و دیوار غمزدہ ہیں، مولانا سمیع الحق کے بعد ان کے بیٹے مولانا حامدالحق کو بھی شہید کردیا گیا۔

سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ جب مجھے خبر ملی کہ مولانا حامدالحق کو شہید کردیا گیا ہے تو ان کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ہمارا اس بات پر عقیدہ ہے کہ موت وقت مقررہ پر آئے گی لیکن جدائی قابل برداشت نہیں ہوتی، تاہم صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

انہوں نے کہاکہ حامدالحق کی شہادت پر مجھے احساس ہورہا تھا کہ یہ حملہ میرے گھر اور مدرسے پر ہوا۔

سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ مجھے کچھ معلومات ملی تھیں کہ دارالعلوم حقانیہ پر آپریشن کی تیاری ہورہی ہے، جس پر میں نے ریاستی ذمہ داروں کو کہا تھا کہ ایسا ہوا تو بہت مہنگا پڑےگا۔

انہوں نے کہاکہ جمعیت علما اسلام اسلحے کی سیاست نہیں کرتی، ایک عالم دین کو شہید کرنا جہاد نہیں، ایسا کرنا دہشتگردی ہے، اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ان لوگوں کی جانب سے مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے، بلوچستان میں بھی ایک عالم دین کو نماز کے دوران شہید کردیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ مدارس اور عالم دین ہمیشہ رہیں گے، میں ایک مولوی ہوں اور مولوی کا بیٹا ہوں، ہم اپنے عقیدے اور نظریے کا تحفظ کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اکوڑہ خٹک جمعیت علما اسلام جے یو آئی دارالعلوم حقانیہ دہشتگردی مساجد مولانا فضل الرحمان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اکوڑہ خٹک جمعیت علما اسلام جے یو آئی دارالعلوم حقانیہ دہشتگردی مولانا فضل الرحمان وی نیوز مولانا فضل الرحمان نے دارالعلوم حقانیہ جے یو آئی عالم دین نے کہاکہ

پڑھیں:

فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں

تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ ذمہ داریاں
قرآن و سنت کی نگاہ میں
مہمان تجزیہ نگار:  پروفیسرڈاکٹر زاہد علی زاہدی (ڈین فکیلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ کراچی)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 20 اپریل 2024

ابتدائیہ
 وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً﴾
ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟ جب کہ کمزور مرد، خواتین اور بچے  پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں:
 یا رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی بنا دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے۔(سورہ نساء: 75)
 
ماہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷تاریخ سے تاحال فلسطین کے باشندوں خصوصاً اہالیانِ غزہ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔
نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے  ہزار وںسے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے،
جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں،
 لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔ ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
خلاصہ گفتگو، اہم نکات:
اسرائیلی مظالم تو اس کے وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے
غزہ اس صدی  کا ایک انسانی المیہ بنتا رہا ہے
 
گزشتہ چوہتر برس میں زمینوں پہ قبضے کے بعد اب  نسل کشی  شروع کردی گئی ہے
صابرہ اور شتیلہ  سے لے کر  آج غزہ تک صیہونی مظالم کی تاریخ دنیا کے سامنے عیاں  ہے
پاکستان کے علما کو اب اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ  یاد آیا ہے
لیکن کیا صیہونی مظالم کے خلاف کسی فتویٰ کی بھی ضرورت ہے
سورہ نسا کی آیة  75 واضح طور پہ مسلمانوں پہ ظلم کرنے والوں سے قتال کا حکم دے رہی ہے
مسلمان علما کو تو مولا علیؑ کا خطبہ جہاد سُنانے کی ضرورت ہے
نہج البلاغہ کا خطبہ جہاد مسلمانوں کی حمایت و حفاظت کے لئے جہاد کا حکم بیان کرتا ہے
سیکورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ  عضو معطل بن چکی ہے
مسلمان حکمران بھی  اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مسلمان حکمران اور عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہوچکی تھیں
رہبرِ معظم نے مقاومت اور مزاحمت کو ایک نظریے کانام دیا ہے
مکتبِ مقاومت و مزاحمت اپنی نظریے سے ہٹ نہیں سکتے
جب کہ "مکتبِ مفاہمت" آج بھی اسرائیل اور امریکہ کے خوف میں مُبتلا ہے
قرآنِ مجید تو قتال و جنگ کا حکم دیتا ہے، حماس نے اسی پہ عمل کیا۔
حق کے لئے جنگ کرنے کا انحصار تعداد اور وسائل  پر نہیں ہوسکتا
آبرو مندانہ اورعزت کی زندگی گزارنے  کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے
 

متعلقہ مضامین

  • مولانا فضل الرحمان کی مرضی اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات واپس اسی سطح پر لانا چاہتے ہیں جہاں مشترکہ امور پر بات ہوسکے، فضل الرحمان
  • فضل الرحمان حافظ نعیم ملاقات: فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے ’مجلس اتحاد امت‘ کے نام سے فورم بنانے کا اعلان
  • جے یو آئی اور جماعت اسلامی کا غزہ میں مظالم کیخلاف 27 اپریل کو مینارِ پاکستان پر جلسے کا اعلان
  • عمران خان کو انگریز کا ایجنٹ کہنا نظریاتی بات تھی، پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں، فضل الرحمان
  • فلسطین سے اظہارِ یکجہتی، 24 اپریل کو مینارِ پاکستان پر جلسہ ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • غزہ میں اسرائیلی دہشتگردی جاری، چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 44 فلسطینی شہید
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں