راولپنڈی:

راولپنڈی میں مہنگائی کا جن بدستور بے قابو ہے اور اوپن مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ راولپنڈی کی جانب سے لگائے گئے رمضان سستا بازاروں میں قیمتیں نسبتاً کم ہیں۔ رمضان بازار میں چینی 130 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب ہے جس کے باعث شہری بڑی تعداد میں ان بازاروں کا رخ کر رہے ہیں۔

اوپن مارکیٹ اور رمضان سستا بازاروں میں قیمتوں کا موازنہ کیا جائے تو آلو اوپن مارکیٹ میں 78 سے 90 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 50 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ پیاز اوپن مارکیٹ میں 80 سے 90 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 70 روپے فی کلو میں دستیاب رہا۔ ٹماٹر اوپن مارکیٹ میں 65 سے 76 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 50 روپے فی کلو فروخت ہوتا رہا۔

لہسن کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 650 سے 700 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 580 روپے فی کلو رہی۔ ادرک اوپن مارکیٹ میں 500 سے 600 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 317 روپے فی کلو فروخت ہوا۔ سبز مرچ اوپن مارکیٹ میں 140 سے 150 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 120 روپے فی کلو میں دستیاب رہی۔ شملہ مرچ اوپن مارکیٹ میں 100 سے 150 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 120 روپے فی کلو فروخت ہوئی۔

لیموں کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 200 سے 300 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 150 روپے فی کلو رہی۔ بیگن اوپن مارکیٹ میں 75 سے 95 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 70 روپے فی کلو فروخت ہوتا رہا۔ ٹنڈا اوپن مارکیٹ میں 160 سے 190 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 60 روپے فی کلو میں دستیاب رہا۔ کھیرا اوپن مارکیٹ میں 65 سے 80 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 60 روپے فی کلو فروخت ہوا۔ پھول گوبھی اوپن مارکیٹ میں 130 روپے جبکہ رمضان بازار میں 80 روپے فی کلو میں فروخت ہوتی رہی۔ پالک کی گڈی اوپن مارکیٹ میں 28 سے 35 روپے جبکہ رمضان بازار میں 20 سے 25 روپے میں فروخت ہوتی رہی۔

فروٹ کی قیمتوں میں بھی نمایاں فرق دیکھنے میں آیا۔ سیب کالا کولو اوپن مارکیٹ میں 380 سے 420 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 250 روپے فی کلو فروخت ہوا۔ کینو اوپن مارکیٹ میں 400 سے 450 روپے فی درجن جبکہ رمضان بازار میں 320 روپے فی درجن میں دستیاب رہا۔ کیلا اوپن مارکیٹ میں 240 سے 290 روپے جبکہ رمضان بازار میں 230 روپے فی درجن میں فروخت ہوا۔ امرود اوپن مارکیٹ میں 350 سے 390 روپے فی کلو جبکہ رمضان بازار میں 200 روپے فی کلو دستیاب تھا۔

برائلر مرغی کی قیمتوں میں بھی فرق دیکھا گیا۔ اوپن مارکیٹ میں زندہ مرغی 460 روپے فی کلو جبکہ مرغی کا گوشت 750 سے 800 روپے فی کلو میں فروخت ہوا، جبکہ رمضان بازار میں زندہ مرغی 404 روپے فی کلو اور مرغی کا گوشت 575 روپے فی کلو میں فروخت کیا جاتا رہا۔ انڈے اوپن مارکیٹ میں 300 روپے فی درجن جبکہ رمضان بازار میں 282 روپے فی درجن فروخت ہوئے۔

رمضان بازار میں چینی کے خصوصی اسٹال بھی لگائے گئے ہیں، جہاں اوپن مارکیٹ میں 160 سے 170 روپے فی کلو دستیاب چینی رمضان بازار میں 130 روپے فی کلو میں فروخت کی جا رہی ہے۔ تاہم، چینی کی خریداری کے لیے شناختی کارڈ لازمی قرار دیا گیا ہے، اور ایک خریدار کو صرف ایک کلو چینی خریدنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

اتوار بازار اور رمضان سستا بازاروں میں قیمتیں قدرے کم ہونے کے باوجود شہری اشیائے خوردونوش کے معیار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو معیار پر بھی توجہ دینی چاہیے اور چینی کی خریداری کے لیے مختص مقدار بڑھا کر اڑھائی سے پانچ کلوگرام تک کرنی چاہیے تاکہ ماہ رمضان میں ضرورت پوری ہو سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان سستا بازاروں میں روپے فی کلو میں فروخت روپے فی کلو فروخت اوپن مارکیٹ میں روپے فی درجن میں دستیاب فروخت ہوا

پڑھیں:

گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟

پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پاما) کے مطابق مارچ 2025 میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں 18 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاما کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 مہینوں کے مطابق 46 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ پاما کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں اب تک پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے کے دوران 1 لاکھ سے بھی کم گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔

پاکستان میں ایک عرصے کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ اور کیا اب لوگ بہ آسانی گاڑی خرید سکتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے چینی ساختہ الیکٹرک گاڑی ’ڈونگ فینگ بکس‘ پاکستان میں لانچ، قیمت کیا ہے؟

آل پاکستان کار ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایم شہزاد اکبر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم گزشتہ برس کے مقابلے میں حالیہ اعدادوشمار دیکھیں تو اس میں تھوڑا سا پروڈکشن اور فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن چند برس قبل تک یہ سالانہ اعدادوشمار تقریباً اڑھائی لاکھ سے اوپر ہوتے تھے۔ مگر اس وقت جو بھی ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہم اپنی اس شرح سے اب بھی پیچھے چل رہے ہیں۔ اور یہ کوئی بہت اچھی فروخت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آج بھی دنیا کی مہنگی ترین گاڑی ہم عوام کو اسمبل کر کے دے رہے ہیں۔ یہ گاڑیاں قوت خرید میں نہیں ہیں۔ اور اس فروخت میں اضافے کی وجہ بھی شرح سود میں کمی ہے لیکن شرح سود میں کمی کے باوجود گاڑیوں کی فروخت میں کوئی ریکارڈ اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا۔ کیونکہ گاڑیوں کی قیمتیں تو وہیں ہیں۔ اس لیے اس وقت ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں مینوفیکچرنگ ہو۔ ملک میں لوکلائزیشن اور میڈ ان پاکستان کار ہونی چاہیے۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی۔ اور عوام بھی تب ہی اس قابل ہو گی کہ زیادہ گاڑیاں خرید سکے۔

ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں لوکلائزیشن نہیں ہوتی، اس وقت تک میں نہیں سمجھتا کہ آٹو سیکٹر کی بحالی کوئی اچھے پیمانے پر ہوگی۔ ہمارے ملک میں سستی اور معیاری گاڑی نہیں ہوگی، اس وقت ملک میں یہ صنعت ترقی نہیں کر سکتی۔ اور مڈل کلاس کے لوگ تو اب بھی گاڑی نہیں خرید سکتے۔ کیونکہ گاڑی صرف پاکستان میں ایلیٹ طبقہ ہی افورڈ کر سکتا ہے۔ پاکستان میں گاڑی کے نام پر جو کوالٹی بیچی جاتی ہے، اس کی بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔

یہ بھی پڑھیے گوگو کی الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتوں میں 10 لاکھ روپے سے زائد کمی، مگر کیوں؟

گزشہ 20 برس سے گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والے ایک ڈیلر کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد گاڑیوں سمیت تقریباً تمام سیکٹرز میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان میں گاڑی کی قیمت حد سے زیادہ ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام بندہ نیٹ کیش پر گاڑی خریدنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ شرح سود میں کمی سے اتنا ضرور ریلیف ملا ہے کہ وہ افراد جو گاڑیاں خریدنے کے خواہشمند ہیں، وہ بہ آسانی بینک فنانشل کے ذریعے گاڑی لے سکتے ہیں۔

جو گاڑی انہیں گزشتہ برسوں کے دوران تقریباً ڈبل قیمت میں پڑ رہی تھی، اب وہی گاڑی کم از کم انہیں آدھے لون پر پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے گاڑی حاصل کرنا قابل استطاعت ہو چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آٹو سیکٹر اس وقت پہ بحال ہو سکتا ہے۔ جب صرف شرح سود میں ہی کمی نہ ہو۔ بلکہ گاڑیوں کہ قیمتوں میں بھی کمی ہو۔ اور سہی وقت عام عوام کے لیے گاڑی خریدنے کا اسی وقت ہوگا۔ جب گاڑی کی قیمت اور شرح سود دونوں ہی کم ہوں۔

ایم سی بی بینک کے آٹو لان مینیجر محمد عدنان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام کا بینک فنانسنگ پر گاڑی لینے کا رجحان کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام نے بینکوں میں سیونگ کے لیے رکھے گئے پیسے بینکوں سے نکال لیے ہیں۔ جس کے بعد اب وہ مختلف سیکٹرز میں انویسٹ کر رہے ہیں۔

گاڑی پاکستان میں اب ایک سیونگ کا نظام بن چکی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں گاڑیاں کافی مہنگی ہیں اور گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی مشکل ہی سے ہوتی ہے، اس لیے لوگ گاڑی کو انویسٹمنٹ کے طور پر خرید رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے بینک سے انتہائی کم شرح سود پر گاڑی لینا کافی منافع بخش ہو چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • آٹے کے بعد روٹی کی قیمتیں بھی کم کردی گئیں
  • سیمنٹ کی قیمت میں اضافہ یا کمی ؟ نئی قیمتیں سامنے آگئی
  • گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
  • ڈیرہ اسماعیل خان، علامہ رمضان توقیر کا تحصیل پہاڑ پور کا دورہ
  • غزہ میں حماس کی حکومت کا برقرار رہنا اسرائیل کیلئے بڑی شکست ہوگی: نیتن یاہو
  • لیسکو چیف رمضان بٹ کا دورہ ’’نوائے وقت دفتر‘‘ ایم ڈی رمیزہ نظامی سے ملاقات 
  • افغان مہاجرین کے جعلی شناختی کارڈز کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کردیا گیا
  • کمبوڈیا کے شہر انگکور واٹ میں اوپن ایئر سینما کی دسویں خصوصی اسکریننگ
  • مہنگائی 38 فیصد سے ایک اشاریہ 5 فیصد تک آگئی، پاکستان خوشحالی کی طرف گامزن ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • راولپنڈی: مسلح افراد کے حملے میں فوڈ چین کا رائیڈر زخمی