Express News:
2025-04-22@14:15:18 GMT

غیر ملکیوں کی واپسی ناگزیر ہے

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

وزارت داخلہ نے پاکستان میں غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی پروگرام (آئی ایف آر پی) کے تحت افغان سیٹزن کارڈ ہولڈرز کو31مارچ تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے اور خبردارکیا ہے کہ اگرایسا نہ کیا تو یکم اپریل سے انھیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا پروگرام (آئی ایف آر پی) یکم نومبر 2023 سے نافذ العمل ہے، جس کے تحت غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل جاری ہے۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کے فیصلے کے تحت اب افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افراد کو بھی وطن واپسی کے لیے31مارچ 2025 تک کی مہلت دی گئی ہے۔وزارت داخلہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ تمام غیر قانونی غیر ملکیوں اور اے سی سی ہولڈرز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ مقررہ مدت تک پاکستان سے رضاکارانہ طور پر واپس چلے جائیں، بصورت دیگر یکم اپریل 2025 سے ان کی ملک بدری کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو باعزت واپسی کے لیے کافی وقت دیاجا چکا ہے اور اس عمل کے دوران کسی کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ حکومت نے واپسی کے دوران خوراک اور طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔

وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان ہمیشہ ایک مہمان نواز ملک رہا ہے اور ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے بین الاقوامی وعدوں اور انسانی حقوق کی پاسداری کر رہا ہے تاہم یہاں رہائش پذیر تمام غیر ملکیوں کو ملکی قوانین کی مکمل پاسداری اور قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 6مارچ 2025تک 8لاکھ 68ہزار871 افغان باشندے پاکستان چھوڑچکے ہیں۔

 دہشت گردی کے واقعات میں افغان مہاجرین اور افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی بنا پر حکومت پاکستان نے 15ستمبر 2023کو غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کوواپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد سے پاکستان اور ایران 27 لاکھ سے زیادہ افغانوں کو واپس افغانستان بھیج چکے ہیں۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف پاکستان ایسا نہیں کررہا بلکہ ایران کی حکومت بھی ایسا ہی کررہی ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کی باتیں نئی نہیں ہیں، پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا ہے کہ بنوں کینٹ حملے میں بھی افغان شہری براہ راست ملوث تھے، شواہد سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں ہوئی تھی۔

خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے معروف علاقے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میںخودکش دھماکے میں جامعہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی سمیت 8 افراد شہید ہوئے تھے۔ پاکستان میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے دشمن متحرک ہیں۔ 

کرم اور بلوچستان کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر مہاجرین کے حوالے سے شروع میں ہی سخت گیر پالیسی اختیار کی جاتی تو شاید پاکستان میں جاری دہشت گردی ختم ہوجاتی۔ خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں بھی بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان معاملات پر بھی آنکھیں بند رکھی گئیں۔

اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صورت حال دن بدن خراب ہوتی گئی۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں اور وہاں بھی ان کے سہولت کار اپنا کام کر رہے ہیں۔ نرم حکومتی رٹ اور عزم کی کمزوری کے باعث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھل کھیلنے کا بھرپور موقع مل رہا ہے۔

ایسے حالات میں پاکستان میں افغانستان سے پناہ گزینوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہا۔ پاکستان میں موجود بعض طاقتور سیاسی حلقوں نے ان مہاجرین کو اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے پاکستان کے سسٹم میں موجود خرابیوں کا سہارا لیا اور ان پناہ گزینوں کو دھڑا دھڑ شناختی کارڈز اور پاسپورٹ ملنے لگے۔ یوں پاکستان ایک نئے بحران سے دوچار ہوگیا۔

ایک جانب یہ پناہ گزین دہشت گردوں کے آلہ کار بن گئے تو دوسری جانب پاکستان کی سیاست میں بھی ملوث ہونے لگے، یوں پاکستان کی معاشرت میں نفرت کا زہر گھلنے لگا۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چند ٹکوں کی خاطر جاسوسی اور سہولت کاری کرنے والوں کی کسی بھی ملک میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں بھی ایسے شخص موجود ہیں جو کسی بھی لالچ میں آ کر کسی کی جان کا سودا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں فسا دپیدا کرنا، پاکستان میں انار پھیلانا اور پاکستان کی معیشت کو برباد کرنا کن قوتوں کی آرزو، تمنا اور مفادات کا تقاضا ہے، اس کے بارے میں بھی خاصے واضح اشارے موجود ہیں۔ ملک کے پالیسی سازوں کو بھی صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہے لیکن نان اسٹیٹ ایکٹرز نے پناہ گزینوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا جس سے پاکستان میں تباہی کا عمل تیز ہوگیا۔

ایسے شرپسند عناصر کی سرکوبی کرنا حکومتوں کے بس سے باہر ہونے لگا دہشت گردوں کے اندرونی سہولت کاروں، ان کے کیریئرز، ان کے فنانسرز اور ہینڈلرز نے سسٹم میں راستے بنالیے اور ان کے ذریعے وہ سسٹم پر اثر انداز ہونا شروع ہوگئے ۔ دہشت گردوں کی گرفتاری مسلہ بن گئی ، اگر کوئی گرفتار ہوجاتا تو اسے سزا نہیں ملتی تھی ، کوئی گواہ نہیں ملتا تھا، غیرقانونی سرمائے کی بھر مار نے رشوت کا بازار گرم کرکے سسٹم کو کرپٹ کردیا۔

 افغانستان کی حکومت کا منفی کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے پار جو حالات ہیں، ان کے اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سخت نگرانی کرنے اور سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں موجود افغانستان کے باشندوں کا مزید قیام ملک کی سالمیت اور استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ویسے بھی اب کسی بھی افغان شہری کا پاکستان میں بطور مہاجر اور پناہ گزین قیام نہ سمجھ آنے والی بات ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت خود کو افغانوں کی نمایندہ حکومت کہتی ہے افغانستان میں طالبان حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں امن ہے اور افغانستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔

ایسی صورت میں افغانستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کو واپس لینے میں لیت ولعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی قیادت کو پاکستان میں قیام کی ضد کرنی چاہیے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے بھی غیرقانونی طور پر موجود افراد کو امریکا سے نکالنا شروع کر رکھا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے اور پاکستان میں موجود تمام غیرقانونی غیرملکیوں کو نکالے۔

 اقوام متحدہ بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کرچکا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد حملے بڑھنے کی افغان طالبان کی دہشت گردوں کو مسلسل مالی اور لاجسٹک مدد ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے، 2024 کے دوران اْس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ بھاری رقم فراہم کررہے ہیں۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے نئے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ طالبان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغان سرحد سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مسلسل پاکستان میں حملے کر رہے ہیں اور پاکستان دہشت گردی میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی افغان حکومت کو پیش کرچکا ہے۔

پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور خصوصاً سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ہاتھوں جو جدید اسلحہ لگا، اس حوالے سے بھی افغان عبوری حکومت کا کردار سب کے سامنے ہے۔ پاکستان افغان پناہ گزینوں کے مسلے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں موجود تمام پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ دیگر ملکوں کے غیرقانونی طور پر مقیم باشندوں کو پاکستان سے نکالنے کی مہم شروع کی جانی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں موجود پناہ گزینوں کو غیر ملکیوں کی افغانستان کی دہشت گردی کے وزارت داخلہ پاکستان کی پاکستان کے ان مہاجرین وطن واپسی میں افغان ملوث ہونے بھی افغان صورت حال وطن واپس کے مطابق ٹی ٹی پی میں بھی رہے ہیں رہا ہے ہے اور اور ان کے لیے

پڑھیں:

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا حسن اخوند نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین اپنے ہمسایوں سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔

ملا حسن اخوند نے زور دیا کہ عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے ان کی انتظامیہ کے ’قول و فعل‘ کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اسحاق ڈارکا یہ دورہ کئی ماہ کے سفارتی تعطل، سرحدی جھڑپوں اور سلامتی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد اسلام آباد اور افغان طالبان انتظامیہ کے درمیان دوبارہ مذاکرات کے عمل کی ایک نئی بنیاد ہے۔

اسلام آباد کا الزام ہے کہ افغان عسکریت پسند گروہ سرحد پار حملے کرتے ہیں اور یہاں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرتے ہیں، اس کے جواب میں، پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف فوجی حملے کیے ہیں اور افغان شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر ملک بدری مہم شروع کی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) نے رواں ہفتے کے اوائل میں کابل میں نئے مذاکراتی عمل کے تحت ملاقات کی تھی جس کا مقصد اعتماد اور تعاون کی بحالی ہے۔

اسحٰق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے دہشت گردی کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ’اہم تشویش‘ قرار دیا تھا۔

افغان وزیر اعظم کے دفتر نے پاکستان میں مقیم افغانوں کی بے دخلی کے معاملے پر کہا کہ پاکستان کے یکطرفہ اقدامات مسئلے کو مزید شدت دے رہے ہیں اور حل کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ بن رہے ہیں، بیان کے مطابق افغان وزیراعظم نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک بند کرے۔

افغان وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے پر اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے، وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال اور ان کی جبری وطن واپسی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انسانی سلوک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس وقت پاکستان میں مقیم یا واپس آنے والے افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں، اسحٰق ڈار کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بدری کی مہم میں تیزی آئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق یکم سے 13 اپریل کے درمیان طورخم اور اسپن بولدک سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے تقریباً 60 ہزار افغان باشندے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہوئے۔

یہ بے دخلی دوسرے مرحلے کا حصہ ہے جس کا مقصد 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو نشانہ بنانا ہے جن کے پاس اب غیرقانونی قرار دیے جاچکے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) اور دیگر دستاویزات کی کمی ہے۔

انسانی ہمدردی کے اداروں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر دباؤ کے بارے میں متنبہ کیا ہے جو واپس آنے والے پناہ گزینوں کی میزبانی کررہے ہیں، جن میں سے بہت سوں کے پاس وسائل یا پناہ گاہوں کی کمی ہے۔

دریں اثنا، پاکستان نے یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے 1.3 ملین سے زائد افغانوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد چھوڑنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ انہیں 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے۔

دریں اثنا، مغربی ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افغان باشندوں کی نقل مکانی کا عمل تیز کریں جن سے 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مغربی ممالک میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، پاکستانی حکومت نے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، جس کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری شروع ہو جائے گی جو اس وقت تک کسی تیسرے ملک میں آباد نہیں ہوئے ہیں۔

اسحٰق ڈار نے اپنے بیان میں پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے واپس بھیجے جانے والوں کے خدشات کو دور کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • 3387 مزید غیر قانونی افغان باشندے باحفاظت افغانستان روانہ
  • افغان شہریوں کی واپسی، شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا