Express News:
2025-04-22@06:56:19 GMT

ٹرمپ کی روس سے مفاہمت… چال یا حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

کیا اب دنیا میں دائمی امن کا بول بالا ہونے والا ہے؟ اور بڑی طاقتوں کی باہمی جنگ اب ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والی ہے؟ لگتا ہے اب ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ امریکا جیسی اس وقت کی سپر پاور اور مضبوط فوجی طاقت جنگ سے گریزکی پالیسی اپنانے پر مائل نظر آتی ہے۔

دنیا میں اس وقت جدید فوجی ساز و سامان سے لیس تین ہی ممالک ہیں جن کے آپس میں ٹکراؤ سے دنیا پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے زیادہ تباہ و برباد ہو سکتی ہے۔ یہ تباہی اس لیے زیادہ خوفناک ہوگی کیونکہ اب پہلے سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیار تیار ہو چکے ہیں۔

دنیا میں پہلے جو دو خوفناک عالمی جنگیں ہو چکی ہیں، وہ اس وقت کی بڑی طاقتوں کے درمیان باہمی چپقلش کا نتیجہ تھیں، ان دونوں جنگوں نے سوائے تباہی و بربادی کے انسانوں کو کچھ نہیں دیا۔

اسے قدرت کا کرشمہ ہی کہیے کہ اس نے انسانوں کو مزید جنگوں کی تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی تباہی سے بچایا جائے۔

کیا کوئی پہلے سوچ بھی سکتا تھا کہ کوئی امریکی صدر اپنے ملک کے دشمن نمبر ایک روس کی اقوام متحدہ میں حمایت کرے اور اپنے پرانے اتحادیوں کی پیش کردہ قرارداد سے روس کو جارح ملک کہنے کے الفاظ کو حذف کرا دے۔

پھر اپنے اتحادی یورپی ممالک کو یوکرینی صدر زیلنسکی کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے اور روس کے خلاف اس کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے منع کرے۔ گزشتہ دنوں زیلنسکی بڑی امیدوں کے ساتھ ٹرمپ سے ملنے گئے تھے کہ وہ دل کھول کر روس کے خلاف بول کر اور اپنے قیمتی نایاب معدنی ذخائر کا امریکا سے معاہدہ کر کے ٹرمپ سے نہ صرف خوب داد و تحسین وصول کریں گے بلکہ اپنے ملک کے لیے امریکی حمایت اور جدید اسلحے کے ساتھ ہی مالی امداد بھی حاصل کرلیں گے۔

مگر ہوا یہ کہ زیلنسکی کی تمام حسرتیں دل ہی میں گھٹ کر رہ گئیں۔ یوکرینی نایاب معدنیات پر سمجھوتہ ہوتا تو کجا نہ انھیں کسی قسم کی امداد کی پیش کش کی گئی اور نہ ان کی پذیرائی کی گئی بلکہ ٹرمپ اور ان کے نائب صدر نے انھیں ایسی کھری کھری سنائیں کہ وہ روس کے خلاف ساری ہی شکایتیں بھول گئے اور غصے میں اٹھ کر واپس چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے پوتن کے خلاف بات کرنے پر انھیں اوول آفس سے باہر نکال دیا تھا۔

اب زیلنسکی کی اس توہین کے بعد بعض یورپی ممالک جن میں برطانیہ اور فرانس پیش پیش ہیں اسے سہارا دے رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے لندن میں اس سے خود بھی ملاقات کی ہے اور بادشاہ چارلس سے بھی ملاقات کرائی ہے جو ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے زیلنسکی کو ہر طرح کی مدد کرنے کی پیش کش کی ہے۔

انھوں نے یوکرین میں اپنے 20 ہزار فوجی بھی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس اور جرمنی بھی زیلنسکی کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم ان ممالک کا زیلنسکی کی مدد کرنا ٹرمپ کی نئی پالیسی کے خلاف ہے۔ جرمنی، برطانیہ اور فرانس صدر ٹرمپ کی زیلنسکی کی مدد نہ کرنے اور روس کی حمایت کرنے کو یورپ کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ یوکرین پر روسی قبضے کے بعد یورپی ممالک روسی جارحیت کا نشانہ بن سکتے ہیں مگر انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی حفاظت کی ذمے داری امریکا نے اٹھائی ہوئی ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں امریکا کی طاقت کے بل بوتے پر ہی یورپ نے ہٹلر کے خلاف جنگ جیتی تھی، اب صدر ٹرمپ نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ یورپی ممالک کے دفاع کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، اب انھیں یا تو اس خرچ میں حصہ ڈالنا چاہیے یا پھر اپنی حفاظت کا خود انتظام کرنا چاہیے۔

صدر ٹرمپ اس وقت امریکی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ یو ایس ایڈ جیسی برسوں سے غریب ممالک کے لیے جاری امداد کو بھی بند کرچکے ہیں۔ وہ ملک میں کئی اداروں میں ملازمین کی چھانٹی بھی کر رہے ہیں۔

اس طرح انھیں یورپ کی سیکیورٹی پر خرچ ہونے والی رقم بھی بھاری پڑ رہی ہے۔ وہ رفتہ رفتہ نیٹو کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ زیلنسکی نے یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم کر لیے ہیں تاکہ وہ اسے نیٹو کا ممبر بننے میں مدد کریں مگر یہ دراصل روس کے ساتھ یوکرین کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ روس نے اپنی تمام یورپ سے ملحق ریاستوں کو اس شرط پر آزادی دی تھی کہ وہ نیٹو کا ممبر نہیں بنیں گی مگر زیلنسکی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

تاہم امریکی پالیسی کی وجہ سے یوکرین کبھی بھی نیٹو کا ممبر نہیں بن سکے گا۔ زیلنسکی نے کمال ہوشیاری سے یورپ کے تمام ممتاز ممالک سے اس لیے تعلقات قائم کر لیے ہیں تاکہ اسے نیٹو کی ممبر شپ حاصل ہو جائے اور پھر نیٹو کی افواج اسے روسی حملوں سے بچا سکے۔ دراصل زیلنسکی کو قابل رحم بنانے والے سابق صدر بائیڈن تھے، انھوں نے روس کے خلاف یوکرین کی بھاری مالی امداد کی تھی، ساتھ ہی جدید اسلحہ بھی دیا تھا۔

اب بائیڈن کی اس دریا دلی پر ٹرمپ نے سخت ایکشن لیا ہے اور زیلنسکی سے امریکی امدادی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کے بدلے میں زیلنسکی نے اپنے نایاب معدنی ذخائر کو امریکا کے حوالے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

زیلنسکی صدر ٹرمپ سے اپنے مذاکرات کی ناکامی کے بعد بہت پریشان ہیں، وہ بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کو یورپ کا دشمن کہہ رہے ہیں مگر بات یورپ کی نہیں بلکہ یوکرین کی ہے جو روس سے کیے گئے اپنے معاہدے کو توڑنے کے در پے ہے۔

ٹرمپ زیلنسکی کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ روس سے صلح کر لے، ورنہ وہ پورا یوکرین ہی کھو دیں گے مگر زیلنسکی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ روس سے جنگ جاری رکھ کر اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لیں گے اور یوکرین کی آزادی کو کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ زیلنسکی کی ہمت بڑھانے میں برطانوی حکومت کا اہم کردار ہے۔

سابقہ برطانوی حکومتوں کا رویہ بھی منافقانہ رہا ہے۔ جرمنی سے دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے ملوث ہونے کا سبب بھی اس وقت کی برطانوی حکومت تھی اب روس سے جنگ جاری رکھنے اور ٹرمپ کو اپنی امن پالیسی کو چھوڑ کر روس اور چین سے دشمنی جاری رکھنے کا خواہاں ہے مگر لگتا ہے ٹرمپ اب دنیا سے جنگ و جدل کو ختم کرانے کا ارادہ کر چکے ہیں۔

وہ غزہ کی جنگ کو پہلے ہی ختم کرا چکے ہیں اور امید ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو بھی ممکن بنا کر رہیں اور اس سلسلے میں نیتن یاہو کی تمام شیطانی چالوں کو خاک میں ملا دیں گے۔ پوری دنیا صدر ٹرمپ کے اس امن پسندانہ نئے رجحان کو سراہ رہی ہے اور ایک امن پسند دنیا کے خواب کی تعبیر کا سہرا صدر ٹرمپ کے سر بندھنے کے لیے وقت کا انتظار کر رہی ہے۔

دوسری جانب کچھ لوگ ٹرمپ کی یکایک امن پسندی اختیار کرنے کو ان کی ایک چال قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ دراصل روس کو ضرورت سے زیادہ فیور دے کر اس کے چین کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کی چال چل رہے ہیں مگر یہ ناممکن لگتا ہے کہ روس اور چین کے باہمی تعلقات خراب ہو سکیں۔ ٹرمپ سے پہلے سابق صدر رچرڈ نکسن بھی چین سے دوستی کرکے اس کے روس سے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر ان کی چال کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپی ممالک روس کے خلاف زیلنسکی کی ہیں مگر چکے ہیں کے ساتھ رہے ہیں کرنے کی ٹرمپ کی کے لیے کی مدد

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام

بیجنگ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ دوسرے ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارت محدود کر دیں اور بدلے میں انہیں امریکی کسٹم ٹیرف میں چھوٹ مل جائے گی بیجنگ حکومت نے اس پالیسی کو مسترد کر دیا ہے. چین کی وزارتِ تجارت نے پیر کے روز واضح کیا کہ وہ ان تمام فریقوں کا احترام کرتی ہے جو امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی و تجارتی تنازعات کو برابری کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرے گی جو چین کے مفادات پر ضرب لگائے.

(جاری ہے)

وزارت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر کوئی ملک ایسی ڈیل کرتا ہے جس کا مقصد چین کے ساتھ تجارتی روابط محدود کرنا ہو، تو چین اس کے خلاف موثر اور متبادل اقدامات کرے گا . ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر کسٹم ٹیرف کے نام پر یک طرفہ طور پر دباﺅ ڈالا ہے اور انہیں جبراایسے مذاکرات میں گھسیٹا ہے جنہیں وہ باہمی ٹیرف مذاکرات کا نام دے رہے ہیں چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ چین اپنے قانونی حقوق اور مفادات کے دفاع کے لیے پرعزم اور مکمل طور پر اہل ہے اور وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کے لیے بھی تیار ہے.

چین کایہ سخت موقف”بلومبرگ“کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے ممالک پر مالی پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی ہے جو امریکہ سے کسٹم ٹیرف میں رعایت کے بدلے چین کے ساتھ تجارتی روابط کم نہیں کریں گے . یاد رہے کہ امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ تقریباً 50 ممالک نے امریکہ سے رابطہ کر کے اضافی کسٹم ٹیرف پر بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے واضح رہے کہ ٹرمپ نے 2 اپریل کو دنیا بھر کے دسیوں ممالک پر عائد تاریخی کسٹم ٹیرف کا نفاذ روک دیا تھا البتہ چین پر عائد ٹیرف برقرار رکھا تھا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے.

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • پاکستان اور یو اے ای کے درمیان مفاہمت کی مختلف یادداشتوں پر دستخط
  • ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام
  • پاکستان اور یو اے ای کے درمیان مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
  • پیوٹن کا 30 گھنٹوں کی خصوصی جنگ بندی کا اعلان، یوکرینی صدر شک میں پڑ گئے
  • امریکا، سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو بیدخل کرنے سے روک دیا
  • اسپورٹیج ایل کی قیمت میں 10 لاکھ روپے کمی ، حقیقت یا افواہ؟
  • نیا واٹس ایپ فراڈ: تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے فون ہیک اور بینک اکاؤنٹ خالی ہونے کی حقیقت کیا؟