Express News:
2025-04-22@14:18:47 GMT

پاکستان میں لاکھوں ’’چھوٹے‘‘

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

کہا جاتا ہے کسی بھی ملک کا مستقبل وہاں کے بچے ہوتے ہیں لیکن اُسی مستقبل کا اچھا یا بُرا ہونا اُس ملک کی حکومت و قوم پر منحصر ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستان کی مختلف فیکٹریوں، ملوں،کارخانوں اور دکانوں میں لاکھوں بچے کام کرنے پر مجبور ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ حکومتِ پاکستان کی چائلڈ لیبرکے قوانین پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی ہے۔

پاکستان میں جیسے جیسے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے لوگوں کے بلند حوصلے اور ہمت بھی جواب دیتی جا رہی ہے جس کے نتائج نہ صرف خطرناک ہوتے جا رہے ہیں ۔ وسائل کی کمی کے باعث لوگ بچوں کو اسکول بھیجنا تو دور کی بات اپنے بچوں سے محنت مشقت کروانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ذرایع کے مطابق پاکستان میں 10سے 14سال کی عمر کے 8.

2 فیصد بچے مختلف مزدوریاں کر رہے ہیں جن کی تعداد تقریباَََ2.05 ملین کے قریب ہے جب کہ10سال سے کم عمر بچے یا 14سال سے18سال کے درمیان کے بچے جو مزدور بنے ہوئے ہیں، اُن کے اصل اعداد و شمار کہیں پہ موجود نہیں ہے۔پاکستان کے ہر شہر میں بچے ہر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسکول میں پڑھائی کرنے کی عمر میں بچوں سے مزدوری کروائی جاتی ہے۔ گویا چند ٹکوں کے خاطر بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں قلم اُنھیں استعمال کرنے کے لیے نہیں بلکہ اُنھیں فروخت کرنے کے لیے دکھائی دیتے ہیں۔

ماں کے ہاتھوں سے کھانا کھانے کی عمر میں بچے سبزی فروش بنے بیٹھے ہیں۔ کھیل کود کر کپڑے میلے کرنے کی عمر میں بچے کپڑے فروخت کرنے کی ذمے داریاں ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں بچے مختلف بازاروں میں سامان اُٹھانے والے مزدور بنے پھر رہے ہیں، کہیں پہ کچھ کھانے پینے کی اشیاء بیچتے دکھائی دیتے ہیں، تو کہیں کسی دکان پر گاہک کو آوازیں دیتے یا متوجہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جنھیں ’’چھوٹے‘‘ کہہ کر پُکارا جاتا ہے۔ یہ’’چھوٹا‘‘ ہر بازار، گلی، کوچے، محلے میں موجود دکانوں، کارخانوں اور ہوٹلوں پر پایا جاتا ہے، جب کہ ایسے ہی چھوٹی عمرکی بچیاں گھروں میں مختلف کام کاج کرتی، صفائیاں اور برتن دھوتی بطورِ ماسی اور کام والی کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔یہاں تک کے مشکل وقت سے گزرنے والے والدین اپنے بچوں کو گھر کے حالات اور اخراجات کے سُدھار کے لیے کم تنخواہ پر بھی کاموں پر لگا دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دکاندار ایک پوری تنخواہ والے آدمی کو کام پر رکھنے کے بجائے ایک آدھی سے بھی کم تنخواہ میںکام کرنے والے بچے کو کام پر رکھنے کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے دو خاندان سفر کرتے ہیں ایک تو اُس بچے کا مستقبل خراب ہوگیا۔

دوسرا وہ شخص جو پورے خاندان کا کفیل تھا اور اُسے نوکری سے فارغ کرکے اُس بچے کو لگایا گیا،آگے سے وہ آدمی بھی اپنے کسی بیٹے کو ایسی ہی کسی دکان کا ’’چھوٹا ‘‘ بنانے پر مجبور ہوگیا۔ آدھی سے بھی کم تنخواہ میں کام کرنے والا یہ بچہ مالکان کی گالیاں سُننے کے ساتھ ساتھ ایک کے بجائے چار بندوں کا کام کر رہا ہوتا ہے۔

جس سے نہ صرف اُس بچے کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ بعض مقامات پر یہ بھی سُننے کو آیا ہے کہ ایسے بچے زیادتی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، جب کہ بچہ گھر کے بگڑتے حالات کو دیکھتے ہوئے گھر والوں کو بھی بتانے سے قاصر رہتا ہے اور اگر بتا بھی دے تو والدین اُسے کام چوری کا نام دے کر واپس بچے کو اُسی جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔

ایسے میں بچہ پھر اپنے بچاؤ کے لیے مختلف حربے آزماتا ہے یا پھر ایسی زیادتی کا شکار ہوتے ہوتے ان کا عادی بن جاتا ہے اور وہی ’’چھوٹا‘‘ ذہنی طور پرکب بڑا ہو جاتا ہے کسی کو علم بھی نہیں ہو پاتا۔گویا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بچوں سے اُن کا بچپن چھین لیا جاتا ہے۔ ایسے بچے جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے خاطر ایک قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں ایسے بچوں کی سوچ کے مطابق وہ بچے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کمانے اور اُنھیں پالنے کی مشین بن جاتے ہیں۔ جہاں بچوں کو اپنے اسکول اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی فکر کرنی چاہیے وہاں بچوں کے ذہنوں میں گھر کے اخراجات اور اگلے دن کی کمائی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

وقت سے پہلے بچوں نے اُوڑ ھ لیا بڑھاپا

تتلی بن کر اُڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں

کہا جاتا ہے کہ ماحول کا بچوں کی نشوونما پرگہرا اثر پڑتا ہے تو ایسے بچے جو بازاروں میں لوگوں کو چلتے پھرتے سگریٹ، پان چھالیا، گٹکا اور دیگر نشے کرتے دیکھتے ہیں ایسے میں وہ کتنے ہی سال ایسے نشوں سے بچاؤ کرسکتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چھوٹی سی عمر میں ایسے ہی مختلف نشوں کے عادی بن جاتے ہیں اور پھر کہیں فٹ پاتھوں پرگلی محلوں کے کونوں میں وہی بچے مختلف نشے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ذرایع کے مطابق دنیا میں بچوں کی مزدوری کے خلاف 12جون کو ایک عالمی دن بھی منایا جاتا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس دن کا علم ہمارے ملک میں شاید ہی کسی کو ہے۔ پاکستان میں موجودہ آئین کے آرٹیکل11.3 کے مطابق 14سال کے کم عمر بچوں سے مزدوری کروانے یا کسی بھی خطرے والے کام پر لگانے پر پابندی ہے، جب کہ بچوں کی مزدوری کے خلاف اور اُن کے حقوق کی حفاظت کے لیے محکمہ مزدور سرمایہ انسانی ترقی بھی موجود ہے، لیکن شاید یہ عملے صرف دکھاؤے کے لیے موجود ہیں۔

جہاں ایسے محکموں کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوں، وہاں بچوں سے کمائی کرنے کا سلسلہ جاری کیوں نہیں رہے گا؟ جہاں کے ہر گلی کوچے میں ہزاروں ’’چھوٹے‘‘ گھوم رہے ہوں اُس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ سب سے پہلے پاکستان میں محنت مزدوری کرنے والے بچوں اور اُن کے اہلِ خانہ کے حوالے سے تمام معلومات حاصل کی جائیں آیا کہ اُس خاندان کا صرف ایک ہی بچہ محنت مزدوری کر رہا ہے یا اُس گھر میں موجود اور بھی بچے اور کتنی عمر کے بچے کیا کیا مزدوری کر رہے ہیں، اور ان بچوں سے محنت مزدوری کروانے کی وجہ کیا ہے؟

کیا اُس خاندان کی کفالت کرنے والا کوئی دوسرا شخص موجود ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے۔ کہاں ہے اُس خاندان کا کفیل؟ اگرچہ اُس خاندان میں کمانے والا شخص موجود ہے تو وہ بچوں سے کیوں محنت مزدوری کروا رہا ہے؟

بہت سے خاندانوں سے یہی جواب موصول ہونے کے امکانات ہیں کہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے، ہم مجبور ہیں؟ تو ایسے میں اُس خاندان کے کفیل کو ایسی جگہ پر نوکری دلوائی جائے یا حکومت ایسے لوگوں کو کوئی چھوٹے موٹے کاروبار شروع کروا دے جس سے اُن کے گھر کے اخراجات پورے ہوسکیں اور وہ اپنے بچوں سے کمائی کروانے پر مجبور نہ ہوں۔ 

اگر وہ پھر بھی اپنے بچوں سے محنت مزدوری کروائیں تو پھر ایسے لوگوں کے خلاف سخت کروائی کی جائے، جیسا کہ ایسے لوگوں پر مالی جُرمانے کے ساتھ ساتھ اُن کی اور بچوں کی نوکری بھی چھوڑوا دی جائے۔اس کے بس عکس اگرکسی گھر میں اُس بچے کے علاوہ کوئی کمانے والا موجود نہ ہو تو ایسے خاندان کے ماہانہ وظیفے طے کردیے جائیں جب کہ اُس گھر میں موجود بچوں کے پڑھائی کے اخراجات بھی حکومت اُٹھائے اور ایسے بچوں کی تعلیم پر خاص نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ایسے اسکولوں کی بنیاد رکھی جائے جہاں ایسے بچوں کو نہ صرف پڑھایا جائے بلکہ اُنھیں کوئی نہ کوئی ہنر بھی سکھایا جائے جب کہ بچوں کو اُن کے ذہن اور اُن کے شوق کے مطابق اور اُس ہنر سے متعلق ایسی دیگر اشیاء تیارکروائی جائیں جس سے اُنھیں ماہانہ معاوضہ بھی اسکول سے ہی حاصل ہو، جس سے بچے کی پڑھائی بھی متاثر نہیں ہوگی، بچہ ہنر بھی سیکھے گا، خراب ماحول سے بھی بچ جائے گا۔

جب کہ بچے کے خاندان کو اُسے باہر بھیج کر محنت مزدوری کروانے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور بچہ بھی اسکول شوق سے آئے گا۔پھر باری آتی ہے اُن لوگوں کی جو لوگ اپنی فیکٹریوں، ہوٹلوں، دکانوں اور کارخانوں میں بچوں کو نوکریاں دیتے ہیں، اُن کے مالکان کو پہلے تنبیہ کی جائے پھر بھی اگر وہ بچوں سے نوکری کروائیں تو اُن پر بھاری جُرمانے عائد کر دیے جائیں یا اُن کا کارخانہ، فیکٹری یا دکان کچھ مدت کے لیے سیل کردیا جائے تاکہ مستقبل میں بچوں کو وہ نوکری پر نہ رکھیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں کے اخراجات کی عمر میں کا مستقبل اپنے بچوں ایسے بچوں کے مطابق میں بچوں بچوں سے رہے ہیں بچوں کو نہیں ہو جاتا ہے میں بچے بچوں کی اور ا ن ا س بچے گھر کے کام کر ا نھیں کے لیے سے بچے

پڑھیں:

’بچے کو بچالیں‘، سڑک پر کھڑے گولڈن کڈ کو دیکھ کر گلوکار بلال مقصود کی سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ

پاکستان کے مختلف شہروں میں اکثر شاہراہوں پر گولڈن مین یا سلور مین نظر آتے ہیں جو کمال مہارت سے خود کو ایسے مجسمے کی صورت میں ڈھال لیتے ہیں کہ دیکھنے والے کو واقعی اصل مجسمہ محسوس ہوتا ہے۔ آج کل بڑوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے بھی یہ روپے دھارے مختلف سڑکوں پر کھڑے ملتے ہیں۔

معروف پاکستانی گلوکار بلال مقصود نے ایسے ہی ایک بچے کی تصویر فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر شیئر کی جس کے ہاتھ، منہ پر گولڈن پینٹ کیا ہوا ہے اور محکمہ صحت کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے لکھا کہ آپ کو خیابانِ اتحاد اور سی ویو پر ایسے بے شمار بچے نظر آئیں گے جن کے چہرے سنہری یا سلور رنگ سے رنگے ہوتے ہیں، اور یہ شدید گرمی میں سڑکوں پر پرفارم کرتے ہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Bilal Maqsood (@bilalxmaqsood)

گلوکار نے مزید لکھا کہ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ یہ رنگ عام طور پر ایلومینیم پاؤڈر اور دیگر زہریلے کیمیکلز سے بنے ہوتے ہیں، جو بچوں کی نازک جلد کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ یہ پینٹ صحت کے لیے مضر ہیں اور ان کا مسلسل استعمال سنگین جلدی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے حتیٰ کہ اس سے جلد کا کینسر بھی لاحق ہو سکتا ہے۔

بلال مقصود نے پوسٹ کے آخر میں لکھا کہ کچھ نہ کچھ کرنا بہت ضروری ہے۔ ان بچوں کو تعلیم دیجیے، ان کی حفاظت کیجیے، اور اس عمل کو باقاعدہ ضابطے میں لائیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

گلوکار کی پوسٹ پر صارفین انہیں سراہتے ہوئے نظر آئے اور کہا کہ شکر ہے کہ کسی نے تو ان کے لیے آواز بلند کی۔ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ وہ مختلف شہروں اور مختلف جگہوں پر روزانہ ایسے کئی بچے دیکھتے ہیں جو جسم پر پینٹ لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلال مقصود سلور مین کراچی گولڈن مین محکمہ صحت

متعلقہ مضامین

  • عالمی سطح پر سائبر فراڈ کے خلاف اقوام متحدہ کی تنبیہ
  • ’بچے کو بچالیں‘، سڑک پر کھڑے گولڈن کڈ کو دیکھ کر گلوکار بلال مقصود کی سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا  
  • بچوں کے روشن مستقبل کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائیگا :  پولیو کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے : وزیراعظم : لاہور سے باکو پیآئی اے کی براہ ست پر وازوں کا آگاز سفارتی فتح قرار
  • آغا راحت کے بیان کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے، ساجد علی بیگ
  • پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے بلاسود قرضے دئیے جا رہے ہیں: شافع حسین
  • سید حسن نصراللہ کے تشیع جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت اسرائیل کی شکست ہے، امیر عباس 
  • بلاول سے اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کرنیوالی خاتون کی ملاقات، وڈیروں کی شکایت کردی