بدلتے ادوار اور پرتشدد رویے
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
زینب خالہ نے بہت سے ادوار دیکھے تھے، ایک وقت وہ بھی تھا جب اماں منہ اندھیرے اسے آواز لگاتیں’’ زینب بیٹا، اب اٹھ جاؤ، شاباش! جلدی کرو‘‘ وقت کا پنچھی پلک جھپکتے ہی پرواز شروع کردیتا ہے اور پتا ہی نہیں چلتا ہے کہ کب فضاؤں میں گم ہوگیا ہے۔
اماں جب تیسری آواز لگاتیں تو جس میں کرختگی اپنی جگہ بنا لیتی، اماں کا ذرا سا غصہ ہی زینب کو گھر کے کاموں کی طرف مائل کر دیتا۔
مساجد سے قرآن پاک کی تلاوت کی سحر انگیزی ماحول کو نورانی بنا دیتی۔ زینب سحری بنانے کے لیے مٹی کے چولہے میں لکڑیاں ڈال کر ماچس لگاتی اگر لکڑیوں میں کچھ نمی باقی ہوتی تب وہ گھاسلیٹ کی بوتل کھولتی اور چند قطرے ڈالتی، دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑکتی اور پھر سرخ، سرخ غضب ناک انگاروں کی صورت میں نظر آنے لگتی۔ وہ اصلی گھی کے پراٹھے اور انڈوں کا خواگینہ بنا کر دسترخوان پر سجا دیتی۔
اماں، ابا منہ ہاتھ دھوکر دسترخوان کے گرد بیٹھ جاتے، چھوٹا بھائی بھی جاگ جاتا اور دسترخوان پر آن دھمکتا۔ زینب مٹی کے نقشین اور خوب صورت رنگوں اور پھولوں سے مزین پیالوں میں چائے نکالتی اور پھر اماں، ابا کی دعاؤں کے حصار میں آ کر بیٹھ جاتی۔
افطاری بنانے کے لیے اماں بھی اس کی مددگار ہوتیں، قسم قسم کی مزے دار چیزیں بنائی جاتیں اور افطاری کے مزے لوٹے جاتے، ابا کی تنخواہ کم تھی لیکن برکت بہت تھی، کم پیسوں میں بھی گھر کا خرچ شان دار تھا۔ بجلی، گیس کے جھنجھٹ سے بھی آزادی میسر تھی۔
گئے وقتوں میں مخلوط تعلیم اور محافل کو ہر شخص بری نگاہ سے دیکھتا ،اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی کمزور کردار کے مالک بن چکے ہیں،اور لوگ اپنی اولاد کے تحفظ کے لیے انھیں ایسے مکاتب و مدارس میں داخل کرواتے تھے جہاں حقیقی معنوں میں مولوی اور اساتذہ دین کا شعور رکھتے تھے۔
اپنی طالب علم بچیوں کی حفاظت اسی طرح کرتے تھے جس طرح اپنے بیٹے، بیٹیوں کے تحفظ کے لیے ہر لمحہ انھیں اپنی نگرانی میں رکھا جاتا ہے، ہر بات کی فکر، دیر سے کیوں آئے،کہاں گئے تھے، دوستی کن لوگوں سے ہے، کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان سے دوستی کی جائے؟ وقت گزرتا گیا، قدریں بھی بدل گئیں، خیالات بدل گئے، حالات بدل گئے، اب رزق حلال کھانے والے آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں، بے ایمانی عروج پر ہے،کسی نہ کسی طریقے سے ہر شخص کا ہیرا پھیری کرنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔
کل والی زینب ایک اسمارٹ اور ماڈرن لڑکی کے طور پر سامنے آئی ہے اور اب وہ افطاری اور سحری بنانے پر یقین نہیں رکھتی ہے اور چونکہ فوڈ پہنچانے والی کمپنیاں تمام ضرورتیں پوری کر دیتی ہیں، پیسے کی کمی نہیں ہے ناجائز ذرایع سے خوب دولت آ رہی ہے اور پورا کنبہ عیش کر رہا ہے۔ زینب کے اماں ابا بھی روشن خیال ہوگئے ہیں، مدارس، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ہاتھوں عزت و ناموس محفوظ نہ رہ سکی، اسمارٹ فون نے بچوں، بوڑھوں، جوانوں غرض سب کو ہی اتنا اسمارٹ بنا دیا ہے کہ اندھیرے اجالوں کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیس، بجلی نے گھرکی رونقوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ سب خوش ہیں، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے، بس اپنا بھلا چاہتے ہیں، تعیشات زندگی کا خواہاں انسان، غیرت اور انا کو داؤ پر لگا بیٹھا ہے، بس پیسہ آنا چاہیے خواہ وہ بھیک مانگ کر آئے یا کسی کی تجوری سے چوری کرکے، اپنے بھائی کا گلا کاٹ کے، یتیم کا مال کھا کے، والدین کو قتل کرکے، بہنوں کا شرعی حق غصب کر کے۔
آج محتاج خانے، ان ماں باپ اور بہنوں سے آباد ہیں جو کبھی اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھروں میں پرسکون زندگیاں گزار رہے تھے لیکن بچوں کے بالغ ہوتے ہوئے انھوں نے والدین پر حکم چلانا شروع کر دیا، بیویوں کی شکایت پر اپنی جنت کو اپنے ہی پیروں تلے روند ڈالا، اس پر بھی چین نہیں پڑا اور جب ماں باپ کانٹا بن گئے، بوجھ بن گئے، تب انھوں نے وہ راستہ اختیار کیا جو جہنم کی سمت جاتا ہے، گناہ کے بیج بونے کے پھل بھی کڑوے ہی ہوتے ہیں۔
انسان کے اندر درندگی پیدا کر دیتے ہیں، آج کا انسان حیوان بن چکا ہے، وہ عقل سے اندھا ہے، بہرہ ہے، حق بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے، وہ باطل قوتوں کا اسیر ہے۔ اس کے صبح شام ایسے کام کرتے ہوئے گزرتے ہیں جن سے اللہ راضی نہیں ہے، وہ ناراض ہے، اسے منانے کا کسی کو ہوش نہیں۔ جب اللہ ناراض ہو جاتا ہے تو حادثات و حوادث اور قدرتی آفات انسان کے گرد گھیرا تنگ کر لیتی ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کئی عشروں سے سانحات اور ظلم و تشدد نے معاشرے کا سکون غارت کر دیا ہے۔ معصوم بچیوں کا اغوا دوستوں کا ایک دوسرے پر فائرنگ کرنا اور بھیانک قتل و غارت کہ کل جو دل و جان تھے ہر معاملے میں ساتھ تھے آج اس کے ہی جسم کے ٹکڑے ایسے کر دیے جیسے سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہوں، سفاکیت کی انتہا کر دی، نہ اللہ کا خوف اور نہ قانون کا ڈر اور نہ ہی اپنی عزت اور والدین کی ناموس کا احساس۔ قاتل کی اللہ نے معافی نہیں رکھی ہے یہاں تک کہ اس کا بھی انجام ہلاکت خیز ہو یا پھر قصاص کی رقم ادا کر دے، اگر مقتول کے وارث اس بات کے لیے راضی ہو جائیں۔
یہ فتنہ گری نماز سے دوری اور اللہ کے احکام کی روگردانی کی وجہ سے اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ روشن راستے اندھیروں میں بدل گئے ہیں۔لوگ اب برے کام کرکے شرمندہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ سینہ تان کر اور نظر اٹھا کر چلتے ہیں، بے شک جس شخص کو اللہ کا ڈر نہیں اسے کسی کا خوف نہیں ہوتا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ دولت کے انبار ہیں اس کے پاس، ہر بڑے سے بڑے عہدے پر فائز شخص کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے۔وقتی طور پر پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اللہ کی پکڑ اس کی عبرت ناک موت بن جاتی ہے۔
آج تک جن لوگوں نے مال و دولت لوٹا ہے، زندگی کو جنت بنایا ہے انھوں نے گویا جہنم میں تو جگہ بنا ہی لی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ چین کی دولت گنوا بیٹھے، قدرتی طور پر ایسی ایسی آزمائشوں میں ڈالے گئے کہ انھیں اس وقت خدا یاد آگیا، کہیں اولاد پر مصیبت نازل ہوگئی، کبھی گھر بار برباد ہو گیا، تو کبھی کسی اور مصیبت میں پھنس گئے۔ نیک اور صادق و باعزت لوگ بھی مسائل کا شکار اور دکھوں و غموں میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ان کی آزمائش یا پھر دنیا کے مصائب کا اللہ کے پاس بہترین اجر ان کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔
اللہ بڑا رحیم ہے جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، ہمارا مہربان رب اس کے بدلے میں اسے بہترین صلے سے نوازتا ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی، ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی مانی جائے تو زندگی و موت قبر و حشر کی منزلیں آسان تر ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جاتا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
رانا ثناءاللہ کا شرجیل میمن سے رابطہ: کینال مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق
(ویب ڈیسک)وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ نے سندھ کے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن سے فون پر رابطہ کیاہے جس میں دونوں رہنماؤں نے ملاقات کرکے کینال مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
راناثناء اللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے فون پر رابطہ کیا، اور اس بات پر اتفاق کیا کہ کینال مسئلے کو ملاقات کرکے بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار کی افغان حکام سے اہم ملاقاتیں، مشترکہ امن و ترقی کا عہد
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ کینالز کے معاملے پر سندھ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وزیراعظم اور نوازشریف نے سندھ کے تحفظات ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
شرجیل انعام میمن نے اس موقع پرکہا کہ سندھ حکومت کینالز معاملے پر ہر فورم پر اپنامؤقف پیش کرچکی ہے، پیپلزپارٹی اور سندھ کے عوام کو متنازع کینالز پر تحفظات ہیں، پیپلز پارٹی1991ء کےمعاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔ ،پیپلزپارٹی کینالزکے معاملے پر وفاق کے ساتھ مذاکرات کےلیے تیارہے۔
سرکاری گاڑی کا استعمال، سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل کرنیوالے ڈان ساتھی سمیت گرفتار
قبل ازیں رانا ثنا اللہ کے بیان پر وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا تھاکہ راناثنااللہ اگر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ویلکم کرتے ہیں، ہم کینالز پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں،میں نے رانا ثنا اللہ کا بیان دیکھا ہے اس میں وہ دو چیزیں ہیں، ایک تو وہ جو ٹیکنیکل بات کر رہے ہیں اس میں پیپلز پارٹی کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ان کینال سے نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ سندھ کی حکومت اور عوام کو سنگین خدشات ہیں۔
کاروباری افراد کے جان و مال کا تحفظ ریاست کا فرض ہے؛ طلال چوہدری
شرجیل انعام میمن نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ان سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی، وزیراعلٰی سندھ نے بھی کوشش کی اور وفاق کو خطوط لکھے ہیں،چیئرمین پیپلز پارٹی واضح پالیسی دے چکے ہیں اور کل بھی انہوں نے حیدر آباد جلسے سے خطاب میں کہا تھا۔
وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ پانی کی بچت کرنا اور غیرآباد علاقوں کو آباد کرنا حکومت یا کسی ادارے کی نہیں، 25 کروڑعوام کی ضرورت ہے، نہروں کے معاملے کا اختتام وہ نہیں ہوگا جیسی دائیں بائیں سے کوششیں ہو رہی ہیں، یہ معاملہ احسن طریقے سے حل ہوجائے گا۔ جو شور کر رہا ہے اسے پتہ ہی نہیں کون سی نہر کہاں سے نکل رہی ہے۔
شدید ردِعمل کے بعد فلم "جات" سے متنازعہ مناظر ہٹا دیئے گئے