حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر غزہ کے حوالے سے تیارکردہ ایک وڈیو بہت وائرل ہے، جوکہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلیجنس) کی مدد سے تیارکی گئی ہے، اس 30 سیکنڈ کی وڈیو میں ٹرمپ کی سوچ کے مطابق کا غزہ دکھایا گیا ہے، یہ وڈیو سب سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کی تھی۔
اس وڈیو کی شروعات غزہ کی تباہی کے مناظر سے ہوئی لیکن چند ہی لمحوں سب کچھ تبدیل ہوگیا اور جنگی مناظرکے بجائے آسودگی اور آوارگی نظر آنے لگی، وڈیو میں غزہ کو پرآسائش مقام میں بدلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے پوسٹ کردہ وڈیو کے پہلے سین میں ہی اسکرین پر غزہ 2025 لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس وڈیو میں تباہی کے مناظر کے بعد غزہ کے ساحل پر بچوں کو دوڑتے ہوئے اور اس کے اطراف میں اونچی اورکثیر عمارتوں کو دکھایا گیا ہے۔ غزہ کی سڑکوں پر دوڑتی ٹیسلا کاریں اور حمس کے ساتھ ڈبل روٹی کھاتے ایلون مسک کو بھی اے آئی وڈیو میں دکھایا گیا ہے، بلکہ ایک بچے کو ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل کا ایک بڑا سا غبارہ بھی تھامے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت سے تیارکردہ اس خیالی وڈیو میں ٹرمپ خود بھی ایک نائٹ کلب میں ایک خاتون کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا ہے اور ایلون مسک لوگوں پر پیسوں کی برسات کرتا نظر آتا ہے جب کہ سمندرکنارے بکنی اور اسکرٹس میں ملبوس داڑھی والے افراد کو بھی رقص کرتا ہوا دکھایا گیا ہے، وڈیو میں ایک بلند و بالا عمارت دکھائی گئی ہے جس پر ٹرمپ غزہ لکھا ہوا نظر آ رہا ہے، جہاں ٹرمپ کا مجسمہ بھی نصب ہے۔
وڈیو میں ایک جگہ پر ایک سوئمنگ پول دکھایا گیا ہے جہاں امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہوکوئی مشروب پی رہے ہیں، مضوعی ذہانت کی اس وڈیو میں ایک گانا بھی دکھایا گیا ہے، جس کے بول ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ آپ کو آزاد کریں گے، سب کے لیے زندگی لائیں گے، نہ کوئی سرنگ ہوگی، نہ کوئی ڈر ہوگا، بلاخر ٹرمپ کا غزہ آ گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی سوشل میڈیا سائٹ پر کسی نے وڈیو کو انتہائی نازیبا قرار دیا تو کسی نے نفرت انگیز اور خوفناک، وڈیو کو خاص طور پر ٹرمپ کے مسیحی حامیوں نے سخت ناپسند کیا، ٹرمپ کے سونے کے مجسمے کو بت پرستی کی علامت کہا اور لکھا کہ یہ مجسمہ دجال کی علامت ہے، دراصل ٹرمپ کہہ چکا ہے کہ وہ تقریباً 20 لاکھ کی فلسطینی آبادی کو غزہ سے صاف کر کے وہاں دبئی جیسا تفریحی مقام بنائے گا، دوسری جانب ناقدین اسے نسل کشی کا منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔
5 فروری 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکا غزہ پر طویل عرصے کے لیے قبضہ کرے گا، غزہ کے رہائشیوں کو مصر اور اردن منتقل کیا جائے گا اور غزہ کی تعمیر نوکے ساتھ وہاں ہزاروں نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔
حماس عہدیدار سمیع ابو زہری نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان کو مضحکہ خیز اور غیر معقول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے غیر مناسب خیالات خطے میں آگ بھڑکا سکتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے پاس بہت زمین ہے، وہاں فلسطینیوں کو آباد کر کے ایک الگ فلسطینی ریاست بنا دے۔ نیتن یاہو نے یہ بھی کہا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد اب اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے اسرائیلی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، نیتن یاہو کے اس مضحکہ خیز اور شرانگیزی پر مشتمل تجویز کو سعودیہ سمیت دیگر عرب ممالک نے مسترد کرتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قابض انتہا پسند ذہنیت یہ نہیں سمجھتی کہ فلسطینیوں کے لیے اُن کے وطن کا کیا مطلب ہے۔ قابض ذہنیت کے لیے یہ بات سمجھنا بھی مشکل ہے کہ فلسطینیوں کا اپنی سرزمین کے ساتھ شعوری، تاریخی اور قانونی طورکتنا گہرا تعلق ہے، سعودی عرب نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکی تجویزکو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فلسطین کی خود مختاری کا خیال اور احساس ہے، نیتن یاہو کا بیان قابل مذمت ہے۔
کالم کا اختتام کرتے ہوئے کہنا چاہونگی کہ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ بہت ہی مضحکہ خیز ہے، وہ لیڈر بن کر نہیں بلکہ بیوپاری بن کر غزہ کو بیچنا چاہ رہا ہے، جب کہ وہ بیچنے کا کوئی حق بھی نہیں رکھتا ہے، بات صاف ظاہر ہے کہ فلسطینی اس منصوبے کو قبول نہیں کریں گے، اگر ٹرمپ نے اپنی ضد نہیں چھوڑی تو خطے کا امن خراب ہوگا، جس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔
دنیا جانتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کی حمایت کرتی ہے، امریکا اور اسرائیل بھائی اور شراکت دار سمجھے جاتے ہیں، اگر امریکا امن دوست ملک ہے تو اسے اسرائیل کو سمجھانا چاہیے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، جس سے اسے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے پوری دنیا کا امن برباد ہوسکتا ہے، جوکہ کافی حد تک متاثر ہوا بھی ہے، امریکا کو اسرائیل سے گہرے مراسم کے بجائے فلسطنیوں کی داد رسی کرنی چاہیے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ غزہ اور فلسطین کی مزید حمایت کرے، ہر عالمی فارم پرکشمیرکی طرح فلسطین کے حق میں بھی آواز بلند کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو کرتے ہوئے وڈیو میں ا گیا ہے کے ساتھ ٹرمپ کی ٹرمپ کا میں ایک کا غزہ کے لیے اور اس
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک مجوزہ ایگزیکٹو آرڈر کے مسودے کے مطابق، محکمہ خارجہ (State Department) میں نمایاں کمی اور از سرِ نو تشکیل کی تجویز دی گئی ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، اس 16 صفحات پر مشتمل مسودے کی کاپی امریکی سفارتکاروں میں گردش کر رہی ہے۔
اگر یہ تبدیلیاں نافذ کر دی گئیں تو 1789 میں قیام کے بعد سے محکمہ خارجہ کی یہ سب سے بڑی تنظیمِ نو ہوگی۔ حکام کے مطابق، یہ مسودہ دنیا بھر کے سفارتکاروں کو بھیجا گیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز ایک پوسٹ میں ان اطلاعات کو ’جھوٹی خبر‘ قرار دیا۔
مجوزہ حکمنامے کے تحت درجنوں شعبے اور محکمے ختم کر دیے جائیں گے، جن میں ماحولیاتی تبدیلی، پناہ گزینوں، جمہوریت، افریقی امور اور اقوامِ متحدہ سے رابطے کے لیے کام کرنے والا ’بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سفارتی سرگرمیوں میں بھی نمایاں کٹوتی کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
یہ تجاویز ٹرمپ انتظامیہ کی اُس پالیسی کا تسلسل ہیں جس کے تحت امریکا کے کثیرالملکی عالمی نظام میں کردار کو کمزور کیا جا رہا ہے، وہ نظام جس کی تعمیر میں امریکا نے خود کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
تبدیلیوں کے تحت، محکمہ خارجہ کو 4 علاقائی بیوروز میں تقسیم کیا جائے گا، جو انڈو پیسیفک، لاطینی امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیا پر مشتمل ہوں گے۔ افریقہ کے صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع کئی غیر ضروری سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کی تجاویز بھی شامل ہے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق یہ تبدیلیاں یکم اکتوبر تک نافذ کی جائیں گی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق مسودے کی پہلی بار خبر سامنے آئی لیکن امریکی سفارتخانے نیروبی کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حکمنامے کے تمام نکات پر دستخط کریں گے یا نہیں۔ افریقہ میں موجود ایک سینئر اہلکار کے مطابق، محکمہ خارجہ میں اصلاحات سے متعلق جو معلومات گردش کر رہی ہیں وہ ممکنہ طور پر اس مسودے میں تجویز کردہ حد تک وسیع نہیں ہوں گی۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
اسی دوران، محکمہ خارجہ کے ملازمین نے ریڈٹ کے ایک فورم پر اس حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ مجھے شک ہے کہ یہ مسودہ دراصل ایک چال ہے تاکہ جب اس سے کم سخت اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو ہم خوشی خوشی انہیں قبول کرلیں۔
افریقہ اور کینیڈا کے امور میں تبدیلیاںحکمنامے کے تحت بیورو آف افریقن افیئرز، کلائمٹ کے لیے خصوصی ایلچی، بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز، اور آفس آف گلوبل ویمنز ایشوز سمیت متعدد اہم شعبے ختم کر دیے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق، کینیڈا سے سفارتی تعلقات کی نگرانی ایک محدود ٹیم کرے گی جو ’نارتھ امریکن افیئرز آفس ‘ (NAAO) کے تحت کام کرے گی اور اوٹاوا میں امریکی سفارتخانے کا حجم نمایاں طور پر کم کیا جائے گا۔
مزید برآں، سفارتی عملے کو علاقائی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گا، اور انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی علاقے میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ جو سفارتکار اس نظام کا حصہ نہیں بننا چاہیں گے، ان کے لیے 30 ستمبر تک رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا موقع دیا جائے گا۔ نیا فارن سروس امتحان بھی متعارف کرایا جائے گا جس میں امیدواروں کی صدارتی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی مزید 3 ماہ کے لیے بڑھا دی
اس کے علاوہ، دنیا بھر کے ہونہار طلبہ کے لیے معروف فلبرائٹ اسکالرشپ پروگرام کو محدود کرکے صرف قومی سلامتی سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگراموں تک محدود کر دیا جائے گا، جہاں مینڈرین چینی، روسی، فارسی اور عربی جیسی زبانوں میں مہارت رکھنے والے کورسز کو ترجیح دی جائے گی۔ ہاورڈ یونیورسٹی (واشنگٹن) سے منسلک فیلوشپس بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن (DEI) پالیسیوں کی واپسی کی علامت ہے۔
نئے منصوبے کے تحت ’بیورو آف ہیومینیٹیرین افیئرز‘ ان تمام اہم فرائض کو سنبھالے گا جو ماضی میں یو ایس ایڈ (USAID) ادا کرتا تھا، جسے حالیہ مہینوں میں بند کرکے محکمہ خارجہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام عہدوں اور ذمہ داریوں کے لیے صدرِ امریکا کی تحریری منظوری لازم ہوگی۔
محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ادارے میں قریباً 13 ہزار فارن سروس آفیسرز، 11 ہزار سول سروس ملازمین، اور دنیا بھر میں 270 سے زائد سفارتی مشنز پر 45 ہزار مقامی عملہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی محکمہ خارجہ بلومبرگ نیو یارک ٹائمز