امریکی عہدیداروں نے نئی دہلی پہنچ کربھارت کو ذلیل کردیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 مارچ2025ء)امریکی عہدیداروں کی جانب سے بھارت کو آئینہ دکھا دیا گیا، دہلی میں صدر ٹرمپ کے منصوبوں کا واضح پیغام دے کر بھارت کو ذلیل کردیا گیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھارتی نیوز چینل کے کانکلیو سیشن میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک بشمول بھارت واپس بھیجنا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان لوگوں کے لیے پیغام کا حصہ ہے جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مائیک پومپیو نے خطاب میں بھارتیوں کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مت آنا، کیونکہ آپ کو واپس بھیج دیا جائے گا۔پومپیو نے جلاوطن مہاجرین پر ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے استعمال کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ واپس بھیجے جانے والے پہلے گروپ میں سزا یافتہ مجرم بھی تھے۔(جاری ہے)
مائیک پومپیو نے کہا کہ اگر ہم تارکین وطن کو ہتھکڑیاں لگا کر اور بیڑیوں میں جکڑے جانے کی ویڈیو ریکارڈ نہ کرتے تو لوگ سوچتے کہ وہ انہیں کیوں نہیں دکھا رہے یا صدر ٹرمپ کچھ چھپا رہے ہیں۔
سیشن میں خطاب میں سابق امریکی وزیر خارجہ نے ملک کی امیگریشن پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ قانونی طریقے سے آنے والے تارکین وطن کو سب سے زیادہ خیرمقدم کہنے والا ملک ہے، حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس سال اتنے قانونی تارکین وطن کو قبول نہیں کرے گا جتنا کہ امریکہ کر رہا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کرتے ہوئے کہا کہ تارکین وطن کو
پڑھیں:
ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔
افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر احتجاج:
ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔