پاکستانی خواتین کے لیے ڈیجیٹل خواندگی اور ٹیکنالوجی تک رسائی
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) سماجی نقطہ نگاہ سے پاکستان میں اس عمل کا سب سے مثبت پہلو خواتین کے حقوق پر عمل درآمد کے حوالے سے روایتی پہلو تہی کا بدلتے جانا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن نے کم عرصے میں ملکی خواتین کے لیے ترقیاتی عمل میں ان کی شراکت داری اور ان کی سماجی اور سیاسی طاقت میں بہتری میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
سماجی سطح پر خواتین کے ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کا حصہ بننے سے کیا فوائد ہو رہے ہیں اور ابھی کس طرح کے چیلنجز باقی ہیں، اس بارے میں پائی جانے والی آراء کافی متنوع ہیں۔صحافی انیلا اشرف نے جنوبی پنجاب میں کسی خاتون کی سربراہی میں پہلا ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’’لب آزاد‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے کم ترقی یافتہ علاقوں، خاص طور پر سرائیکی خطے میں، خواتین کے لیے ترقی اور حقوق کے لیے ترجمانی کے مواقع محدود ہیں۔
(جاری ہے)
اس عمل میں معاشرتی سوچ اور فرسودہ روایات کا عمل دخل کافی زیادہ ہے، جن سے باہر نکلنے کے لیے پڑھے لکھے خاندان بھی تیار نہیں ہیں۔ تاہم اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے خواتین اپنی آواز بلند کر رہی ہیں، جن میں فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام، اور ٹوئٹر یا ایکس جیسے پلیٹ فارمز تو خواتین کو اپنے تجربات، مسائل اور مطالبات عوام تک پہنچانے کا موقع دے رہے ہیں۔انیلا اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے لب آزاد کا پلیٹ فارم بھی اسی لیے تشکیل دیا کہ میڈیا میں ڈاؤن سائزنگ کے وقت سب سے پہلے خواتین صحافیوں کی ہی ملازمتیں گئیں۔ اس پلیٹ فارم سے خواتین کو صحافتی میدان میں نہ صرف سیکھنے کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں بلکہ انہیں بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے علاقے کی مؤثر آواز بننے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
‘‘رضوانہ اسد اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے لیے دو دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں کسی کو بھی اس کے حقوق کے بارے میں بات کرنے، اپنی محنت کے ذریعے بطور شہری اہم معاملات پر خود اور دوسروں کو منظم کرنے اور ترقی کے بیانیوں کو فروغ دینے سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔
رضوانہ اسد کے مطابق، ’’جدید زندگی کے تمام معاملات سے ان کے ڈیجیٹل پہلو جڑے ہوئے ہیں۔ ان پہلوؤں کے ذریعے کئی دہائیوں سے خواتین کے مفادات کے خلاف نظام کو اب بائی پاس کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ مثلاً خود کار بینکنگ، اہم سرکاری سروسز کا استعمال، شاپنگ اور اہم آن لائن سپورٹ گروپوں تک رسائی، اب خواتین کے لیے یہ سب کچھ گھر بیٹھے ہوئے بھی ممکن ہے۔
‘‘ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی صدر فوزیہ کلثوم رانا، جو پاکستان میں صنفی پالیسی متعارف کرائے جانے کے لیے کوشاں ہیں، نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں ڈیجیٹل مہارت حاصل کرنے کے تربیتی مواقع ابھی تک محدود ہیں۔ اس کے علاوہ آن لائن ہراساں کیے جانے اور سکیورٹی کے خدشات بھی خواتین کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے دور رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''سائبر ہراسمنٹ اور ڈیٹا پرائیویسی کے مسائل بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس پہلو سے مفت یا کم لاگت ڈیجیٹل مہارت سکھانے والے کورسز متعارف کرائے جانا چاہیئں۔ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے محفوظ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی تشکیل پر زیادہ توجہ دی جانا چاہیے۔ اس لیے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں، جہاں اکثر خواتین اپنی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے ڈرتی ہوں، دانا و بینا ترقی کا عمل ممکن ہوتے ہوتے بہت تاخیر ہو جاتی ہے۔
‘‘خواتین کے حقوق کی کارکن اور کشمیر ایکسپریس کی ایڈیٹر شمیم اشرف نے پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ معیشت کی ڈیجیٹل ترقی کے حوالے سے پاکستان کے پاس بےتحاشا امکانات موجود ہیں، لیکن ملکی خواتین کی بہت بڑی تعداد ابھی تک ان امکانات سے بہت دور ہے۔
انہوں نے کہا، ''پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی دسمبر دو ہزار چوبیس کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ چالیس فیصد سے کم خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اور پچیس فیصد کے پاس تو ان کے قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہیں، جو ڈیجیٹل ترقی کے عمل میں شرکت کے لیے ضروری ہیں۔
یہ اعداد و شمار ایک تکنیکی خلیج کی عکاسی بھی کرتے ہیں اور ان سماجی رکاوٹوں کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں جن کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ایک کلیدی سچ یہ بھی ہے کہ پدرشاہی کے ذریعے کنٹرول اکثر خواتین کو ان کی سماجی خود مختاری سے دور رکھتا ہے اور انہیں دستیاب معاشی مواقع بھی محدود کر دیتا ہے۔‘‘شمیم اشرف کے بقول عالمی سطح پر بھی خواتین کی ڈیجیٹل شرکت مردوں سے کم ہی ہے، مگر پاکستان میں تو یہ فرق اس بات سے بھی بہت واضح ہو جاتا ہے کہ ملک میں سوشل میڈیا صارفین میں خواتین کا تناسب صرف بائیس فیصد سے لے کر چھتیس فیصد تک بنتا ہے اور پاکستانی خواتین کی بڑی تعداد ڈیجیٹل مالی ادائیگیوں سے زیادہ نقد ادائیگیوں پر انحصار کرتی ہیں۔
میڈیا ڈویلپمنٹ اور ڈیجیٹل اسٹریٹیجک امور کے ماہر وقاص نعیم نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ صنفی اعتبار سے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ناہمواریاں ختم کرنے کے لیے سیاسی، سماجی اور اقتصادی عمل اور تحریکوں کی ضرورت ہے، جن میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کر تو سکتی ہے، لیکن ڈیجیٹل مواقع اکیلے جملہ مسائل کے مکمل حل پیش نہیں کر سکتے۔
ان کے مطابق دراصل وہ عوامل، جو حقیقی زندگی میں خواتین کی شمولیت کو روکتے ہیں، وہی خواتین کے لیے ڈیجیٹل مواقع تک رسائی اور ان کے کارآمد استعمال کی راہ میں بھی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا، ''ان عوامل میں سب سے بڑا کردار ہمارے پدرشاہی نظام اور اس سے منسلک روایتی صنفی کرداروں کا ہے، جو عوامی زندگی میں خواتین پر اپنی طاقت مسلط کرنے کی غرض سے ان کے حقوق کی فراہمی، تعلیم اور صحت کے مواقع تک رسائی اور پیشہ وارانہ کیرئیر اپنانے کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
‘‘وقاص نعیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈیجیٹل مواقع صنفی عدم مساوات کو کم کرنے کی امید تو دلاتے ہیں، لیکن ان نظامی رکاوٹوں کو ختم نہیں کر سکتے، جن کا پاکستانی خواتین کو سامنا ہے۔ ان کے الفاظ میں، ’’معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں کے ذریعے خواتین کی تعلیم، ٹیکنالوجی اور اقتصادی مواقع تک رسائی بڑھانے کے لیے خاص طور پر وضع کردہ پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں صنفی ناہمواریوں کو ختم کیا جا سکے۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے لیے پاکستان میں نے ڈی ڈبلیو پلیٹ فارمز خواتین کی خواتین کو بتایا کہ کے مواقع کے ذریعے تک رسائی انہوں نے کے حقوق اور ان
پڑھیں:
چین کیساتھ اسپیس ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں، وزیراعظم
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ اسپیس ٹیکنالوجی، اسپیس سیٹلائٹ، ٹیلی کمیونیکیشن اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف سے چین سے تعلق رکھنے والی اسپیس ٹیکنالوجی کمپنی گلیکسی اسپیس کے وفد نے چیئرمین گلیکسی اسپیس زو منگ کی قیادت میں ملاقات کی۔
اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اسپیس ٹیکنالوجی شعبے کو انتہائی اہمیت دے رہا ہے، چین ہمارا انتہائی قابل اعتماد دوست اور اسٹریٹجک شراکت دار ہے۔
گلیکسی اسپیس کے وفد نے پاکستان کی اسپیس ٹیکنالوجی انڈسٹری میں سرمایہ کاری اور پاکستانی اسپیس ٹیکنالوجی کے اداروں اور نجی ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے حوالے سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
وفد کے ارکان نے گفتگو میں کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام اور سپارکو کے حکام سے ملاقاتیں انتہائی مفید رہیں۔ وفد نے پاکستان میں پرتپاک میزبانی پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
ملاقات میں وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام شزا فاطمہ، وزیر کے مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ اور متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔