ماورا بالی ووڈ کے کونسے سپر اسٹارز کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ اور ماڈل ماورا حسین نے بالی ووڈ کے دو بڑے سپر اسٹارز کیساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا۔
بھارتی میڈیا کو دیے ایک حالیہ انٹرویو میں ماورا نے خواہش ظاہر کی کہ وہ سلمان خان اور رنبیر کپور کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہیں۔
ماورا حسین نے اپنی 2016 میں ریلیز ہونے والی فلم ’صنم تیری قسم‘ کی دوبارہ کامیاب ریلیز پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت جتنا لکھا ہوتا ہے اتنا ہی ملتا ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Lollywoodsparkoffical_ (@lollywoodsparkofficial_)
سلمان خان سے معتلق سوال پر ماورا حسین نے سلمان خان کی تعریفوں کے پُل باندھ دیئے اداکارہ نے کہا کہ وہ ان کی کئی فلمیں دیکھ چکی ہیں، خاص طور پر ’ہم دل دے چکے صنم‘ ان کی پسندیدہ فلموں میں سے ایک ہے۔
ماورا حسین نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ سلمان خان کبھی ریٹائر نہ ہوں اور انہیں موقع ملے تو وہ سلمان خان کے ساتھ فلم کرنا چاہیں گی۔ ساتھ ہی انہوں نے رنبیر کپور کے ساتھ ان کی فلم ’راک اسٹار‘ کی طرز پر کسی فلم میں ان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
View this post on InstagramA post shared by Instant Bollywood (@instantbollywood)
یاد رہے کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی اداکارہ ماورا نے 2016 میں فلم ’صنم تیری قسم‘ سے بالی وڈ میں ڈیبیو کیا تھا جس کے بعد ان کی فلم کے سیکوئل میں بھی مداح انہیں دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماورا حسین نے ساتھ کام کے ساتھ
پڑھیں:
عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔
صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟
ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔
(جاری ہے)
صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔
دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔
پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔
مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔
صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔