جنگ بندی مذاکرات، حماس کا وفد قاہرہ روانہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اہلکار نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ مصری ثالثین کے ساتھ مذاکرات کے دوران حماس کا وفد مطالبہ کرے گا کہ اسرائیل معاہدے پر عمل درآمد، دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع کرے اور غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کو ممکن بنانے کے لیے سرحدی گذرگاہیں کھولے۔ اسلام ٹائمز۔ حماس کے سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ جماعت کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جمعہ کو غزہ میں ایک نازک جنگ بندی کو مزید جاری رکھنے کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے قاہرہ روانہ ہو گیا ہے جہاں ہفتے کے روز وہ مصری حکام سے ملاقات کریگا تاکہ تازہ ترین پیشرفت پر تبادلہ خیال اور جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد میں پیشرفت کا جائزہ لینے کے ساتھ معاہدے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جا سکے۔ اہلکار نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ مصری ثالثین کے ساتھ مذاکرات کے دوران حماس کا وفد مطالبہ کرے گا کہ اسرائیل معاہدے پر عمل درآمد، دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع کرے اور غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کو ممکن بنانے کے لیے سرحدی گذرگاہیں کھولے۔ دوسرے اہلکار نے کہا فلسطینی مزاحمتی تنظیم ایک مستقل اور مکمل جنگ بندی کو یقینی بنانے والے جامع معاہدے کی خواہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے کے لیے حماس کے مطالبات میں غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلاء، ناکہ بندی کا خاتمہ، علاقے کی تعمیرِ نو اور قاہرہ میں رواں ہفتے ہونے والے عرب سربراہی اجلاس کے فیصلوں کی بنیاد پر مالی معاونت شامل ہیں۔ چھے ہفتوں کے نسبتاً پرسکون دورانیے کے بعد جنگ بندی کا پہلا مرحلہ گذشتہ ہفتے کے آخر میں ختم ہو گیا جس میں فلسطینی قیدیوں کے عوض اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ بھی شامل تھا۔ قابض اسرائیل پہلے مرحلے کو وسط اپریل تک وسعت دینا چاہتا ہے لیکن حماس نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز پر اصرار کیا ہے جس سے جنگ کا مستقل خاتمہ ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دوسرے مرحلے کے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن
ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ 78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔ ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔ یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔