ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کے حوالے سے محکمہ صحت گلگت بلتستان کی وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
بیان کے مطابق سخت مالی دباؤ کے باوجود زیر علاج تقریباً 450 مریضوں کو مسلسل سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، اور ان کے مکمل صحت یاب ہونے تک علاج جاری رہے گا۔ تاہم بجٹ کی کمی کے باعث 12 فروری 2025ء سے نئے مریضوں کے اندراج کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کے تحت علاج کی معطلی کے حوالے سے محکمہ صحت گلگت بلتستان نے وضاحت جاری کر دی۔ ایک بیان میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ محکمہ صحت حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے سوشل میڈیا اور اخبارات میں گردش کرنے والی ان خبروں کی وضاحت کرنا چاہتا ہے، جن میں ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کے تحت علاج کی معطلی کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ بیان کے مطابق ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ گلگت بلتستان حکومت کا ایک اہم منصوبہ ہے، جو غریب مریضوں کو زندگی بچانے والی طبی سہولیات فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس فنڈ کا قیام 2020ء سے لے کر اب تک، 1300 سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے، جن میں جگر اور گردے کی پیوندکاری، بون میرو ٹرانسپلانٹ، کینسر اور دل کے علاج شامل ہیں۔ اب تک اس پروگرام کے تحت 84 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ بیان کے مطابق مالی سال 2024-25ء کے دوران اب تک تقریباً 325 مریضوں کو مفت علاج فراہم کیا جا چکا ہے، جبکہ اسپتالوں کو 25 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔
تاہم، مریضوں کی بڑی تعداد اور مہنگے علاج کی وجہ سے یہ فنڈ اس وقت 25 کروڑ روپے کے خسارے کا سامنا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے نئے مریضوں کو قبول کرنا عارضی طور پر ممکن نہیں ہے۔ محکمہ صحت واضح کرنا چاہتا ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں کہ زیر علاج مریضوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سخت مالی دباؤ کے باوجود زیر علاج تقریباً 450 مریضوں کو مسلسل سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، اور ان کے مکمل صحت یاب ہونے تک علاج جاری رہے گا۔ تاہم بجٹ کی کمی کے باعث 12 فروری 2025ء سے نئے مریضوں کے اندراج کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ تاہم گلگت بلتستان حکومت اس فنڈ کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور نئے مریضوں کے علاج کی بحالی کے لیے اضافی فنڈز کے حصول کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ ہم عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ درست معلومات کے لیے سرکاری بیانات پر بھروسہ کریں اور غیر مصدقہ خبروں پر یقین نہ کریں۔ محکمہ صحت صورتحال کی بہتری کے مطابق بروقت اپڈیٹس فراہم کرتا رہے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان مریضوں کو کے مطابق علاج کی گیا ہے
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔