بخدا کچھ دنوں سے ہماری جان بڑی مشکل میں ہے کالم کے لیے موضوعات کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اخباروں میں سب سے زیادہ مواد ’’مقدسات‘‘ کا ہوتا ہے اس پر لکھیں تو ’’توہین مقدسات‘‘ اور گردن ہلکا ہونے کا خطرہ ہے۔یا پھر بیانات ہی بیانات ہیں جن پر لکھ لکھ کر ہمارا قلم تو کیا انگلیاں تک گھس گئی ہیں۔خوشخبریاں ہی خوش خبریاں پہلی ترجیحات ہی ترجیحات اور وعدے ہی وعدے
ترے وعدوں پر کہاں تک میرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ میری آس ٹوٹ جائے
رہی سیاست تو وہ اب سوتنوں کی لڑائی ہوگئی ہے اور سوتنوں کی لڑائی میں چپلوں جھاڑوں اور برتنوں کا نشانہ کون بنے۔ویسے بھی ان موضوعات کے لیے ہمارے اڑوس پڑوس میں اتنے دانا ودانشور پڑے ہیں کہ روزانہ دانش کے دریا بہائے جارہے ہیں۔ زرین مشورے،تجاویز اور رہنمائیاں۔افریقی ممالک سے لے کر مشرق بعید تک کے ممالک امریکا ہو یا چین جاپان کے معاملات پر الغاروں تلغاروں ’’دانش‘‘ بہائی جا رہی ہے۔ہر مسئلے کا حل چینکوں میں پیش کیا جارہا ہے مطلب یہ کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔اب ہمارے لیے باقی کیا رہ گیا ہے کہ ہم ویسے بھی عشق کے علمبردار ہیں
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
اس لیے سوچا ہے کہ کچھ لطیفے حقیقے سنا کر اپنے پڑھنے والوں کو انٹرٹین کریں۔ایک زیادہ تو نہیں لیکن ذرا سا پرانا واقعہ یاد آرہا ہے ان دنوں شادی بیاہ میں تماشا ضرور ہوتا تھا ایک وسیع وعریض دائرے میں چاروں طرف چارپائیاں ڈال کر اکھاڑہ بنایا جاتا تھا۔ لوگ کچھ چارپائیوں میں اور کچھ بیچ بیچ میں کھڑے ہوتے تھے اور دائرے کے اندر تماشا ہوتا تھا۔ تماشا بھی دوقسم کا ہوتا تھا ایک وہ جس میں مشہور مرد گلوکار گاتے تھے اسے مجلس اور فنکاروں کو مجلسیان کہا جاتا تھا۔
دوسرے تماشے کو صرف تماشا کہا جاتا تھا کوئی مشہور طوائف سازندوں کے جلو میں ناچتی گاتی تھی وہ دائرے میں چارپائیوں کے سامنے تھوڑی دیر رک کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھی اس کے رکنے کا انحصار سامنے سے آنے والے نوٹوں پر ہوتا تھا۔
جتنا گُڑ اتنا میٹھا کے اصول پر جتنے نوٹ اتنا وقت۔جس تماشے کا میں ذکر کررہا ہوں یہ کوئی پچاس سال پرانا واقعہ ہے، اپنے وقت کی بیسٹ سیلر طوائف شوکت اپنے فن کا مظاہرہ کررہی تھی، اس وقت ہم بچے تھے کھڑے تھے اچانک ایک نوجوان کھاڑے میں کودا اور شوکت کو چھونے کا خلاف توقع، خلاف معمول اور خلاف اصول کام کیا، پھر ایک زبردست چٹاخ کی آواز آئی، شوکت نے اس نوجوان کو زوردار تھپڑ مارا تھا، پن ڈراپ خاموشی چھاگئی جس میں شوکت کی آواز آئی۔اس نے اسے خوب برا بھلا کہا۔ اتنے میں کچھ بزرگ اور تماشے کے مالک اور منتظمین بھی آگئے اور اس نوجوان کو لاتوں گھونسوں پر رکھ لیا گیا۔ وہ نوجوان اس کے بعد کبھی گاؤں میں نظر نہیں آیا، کئی سال بعد اس کی لاش ہی گاؤں واپس آئی۔
نمبر دو۔گرمیوں کے موسم میں اباسین(دریائے سندھ کو پشتو میں اباسین کہا جاتا ہے) ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی جھولا جھلانے کا کھیل ہورہا تھا، عورتوں اور مردوں کی باریاں تھیں ،جھولا دریاکنارے دو بڑے درختوں میں ڈالا گیا تھا ہرکوئی کوشش کرتا تھا کہ جھولا اونچائی سے اونچائی تک پہنچائے یہ مقابلہ سنگل بھی ہوتا تھا یعنی ایک بندہ اکیلا بھی اپنی طاقت اور مہارت دکھاتا ہے اور دو بندے بھی ایک جھولے میں آمنے سامنے ہوکر باری باری زور لگاتے تھے۔تورہ بھی ایک نوجوان اور حسین وجمیل کھلاڑی تھی۔
ڈیل میں بھی مضبوط تھی اور جھولا جھلانے میں ماہر بھی اس کی باری آئی تو اس نے مسکراتے ہوئے جھولا سنبھال لیا دھیرے دھیرے جھولا اوپر چڑھتا گیا ہر پھیرے میں اونچے سے اونچا۔اس نے جھولا اتنا اوپر پہنچایا کہ دونوں طرف جھولے کی لکڑی سے بھی اوپر چلی جاتی لوگ حیرت سے منہ کھولے داد دے رہے تھے کہ اچانک نہ جانے کیا ہوا اس کا آزاربند ٹوٹا یا کھل گیا ، ہوا بھی تیز تھی جھولا بھی تیز تھا اس لیے قیمص کے دامن بھی ہوا میں اڑنے لگے۔
عجیب سی صورت حال تھی سب دیکھنے والے گنگ تھے، تورہ نے جھولے کو جی جان لگاکر اور اونچا پہنچایا اور پرندے کی طرح پرواز کرتے ہوئے دریا کے بیچ میں گئی، یہاں دریا کا بہاؤ بہت تیز تھا اس لیے چشم زدن میں تورہ کا وجود پانی میں غائب ہوگیا، بیچاری نے اپنی سترپانی میں چھپا لی تھی، بہت سے لوگ اسے بچانے کے لیے کود پڑے لیکن گہرے دریا کا تیز بہاؤ اسے نگل چکا تھا۔دوسرے دن اس کی لاش نیچے چند میل کے فاصلے پر ملی جہاں دریا کا پاٹ چوڑا اور پانی کم گہرا ہوگیا تھا۔
نمبر تین۔گلاب اور طلا دو بہت گہرے دوست تھے گلاب عمر میں طلا سے چند سال بڑا تھا اس لیے گلاب کو لالا کہتا تھا لیکن دونوں میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی مکمل آزادی تھی ۔ طلا گلاب کو گالی دیتے ہوئے لالا بھی ضرور کہتا ۔ایک دن گلاب اپنی بیوی سے لڑ کر سخت غصے کے عالم میں گھر کے سامنے ڈیرے میں بیٹھے ہوئے تھے، طلا کو بیوی بارے گالیاں دینی شروع کیں۔طلا نے آرام سے مسکرا کر جواب دیے۔اس پر گلاب نے اٹھ کر اسے گلے لگایا اب ٹھیک ہے۔مجھے گالیاں دو لیکن تھوڑا سا اور میٹھے ہوجاؤ یہ بہت کم ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان کا شکوہ
اڈیالہ جیل کے باہر پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور فیملی سے ملاقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ پولیس نے جیل سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ہی ہمیں ناکہ لگا کر روک لیا تاکہ حکام یہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی، عورتوں سے کیا خوف ہے؟ ہم تو صرف اپنے بھائی سے ملنے آئے ہیں، اب ایک مہینہ ہوگیا ملاقات نہیں ہونے دی گئی۔ اگر وکلا اور فیملی کو بھی روکا جائے گا تو عمران خان کیس کس سے ڈسکس کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر صرف بیرسٹر سلمان صفدر کو 35 منٹ کی ملاقات کی اجازت دی گئی، لیکن چیف جسٹس نے تو ایک گھنٹے کی اجازت دی تھی، جیل انتظامیہ نے وکیل کو وقت سے پہلے ہی اٹھا دیا۔
مزید پڑھیں: قید تنہائی میں رکھنے سے عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے، علیمہ خان
علیمہ خان نے واضح کیا کہ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے وکلا کو ملاقات دی جائے، تاکہ کیس پر بات ہوسکے، اس کے بعد چاہے 100 لوگ عمران خان سے ملاقات کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں نہ سہی تو میری 2 بہنوں کو ہی ملنے دیں، بانی نے کوئی پیغام دینا ہوگا تو وہ ان کے ذریعے بھی آ جائے گا، ہماری بہنیں مجھ سے زیادہ ذہین ہیں۔
ادھر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی عدالتی حکم کے باوجود عمران خان سے ملاقات نہ ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی ہے، جبکہ علیمہ خان، شبلی فراز اور عمر ایوب کی دائر کردہ درخواستیں بھی تاحال سماعت کی منتظر ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اڈیالہ جیل پی ٹی آئی علیمہ خان عمران خان