سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال میں لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر ناکارہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
کراچی:
سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال میں لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر ناکارہ ہوگئی۔
صوبائی محکمہ صحت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسپتال میں 15 سال قبل خریدی جانے والی لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر خراب ہوگئی، جس سے عوام کے لاکھوں روپے ضائع ہو گئے۔ یہ مشین گردے میں شعاعوں کے ذریعے پتھری توڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ محکمہ صحت کے افسران نے مشین تو خرید لی، لیکن اسپتال میں اسے آپریٹ کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات نہیں کیا، جس کے باعث مشین ناکارہ ہو گئی۔
ضلع وسطی میں 45 لاکھ افراد پر مشتمل سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال وہ واحد اسپتال ہے جو عوام اور ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والوں کے علاج کے لیے ٹراما اسپتال بنایا گیا تھا، لیکن محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے اسے ٹراما اسپتال میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق اسپتال کی حدود تین ہٹی سے ال آصف اسکوائر، بشمول ناظم آباد اور حیدری تک واقع ہے۔ اس اسپتال کے لیے حکومت سندھ سالانہ صرف 4 کروڑ 75 لاکھ روپے کا بجٹ فراہم کرتی ہے، جبکہ یہاں مریضوں کے داخلے کے لیے صرف 200 بستر مختص ہیں۔ او پی ڈی میں روزانہ ساڑھے تین سے چار ہزار مریض آتے ہیں۔
داخل مریضوں کی ادویات، طبی ٹیسٹوں اور او پی ڈی میں فراہم کی جانے والی دواؤں کے لیے فراہم کردہ بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے اسپتال میں مختص بجٹ کے مطابق فی مریض ہر تین ماہ میں محض 41 پیسے رکھے گئے ہیں۔ اگر اس بجٹ کو ضلع وسطی کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ نا ہونے کے برابر ہے، لیکن حکومت سندھ جب بجٹ ظاہر کرتی ہے تو یہ تاثر دیتی ہے کہ خطیر رقم فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد سمیت دیگر اسپتالوں کو مختص کردہ بجٹ ہر تین ماہ بعد قسطوں کی صورت میں فراہم کیا جاتا ہے۔ سندھ کے تمام سرکاری اسپتال عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے چلائے جا رہے ہیں، لیکن حکومت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ خود اس مد میں رقم فراہم کر رہی ہے۔ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد کو ہر تین ماہ بعد 1 کروڑ 17 لاکھ روپے ادویات اور دیگر طبی سہولیات کے لیے دیے جاتے ہیں، جبکہ ضلع وسطی کی آبادی 45 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔
اسپتال کا شعبہ حادثات صرف 8 بستروں پر مشتمل ہے، جبکہ یہاں روزانہ 1500 مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔ بعض شعبوں میں کنسلٹنٹس اور پروفیسرز بھی تعینات نہیں ہیں۔ 2009 میں اسپتال کو ٹراما سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ٹراما سینٹر کے لیے علیحدہ عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی، لیکن وہاں ٹراما سینٹر قائم کرنے کے بجائے ایک منزل پر نرسنگ اسکول، دوسری پر پیرامیڈیکل اور مڈوائفری اسکول جبکہ دیگر حصے میں اسپتال انتظامیہ کے دفاتر بنا دیے گئے۔
اسپتال میں کارڈیک یونٹ، ڈینٹل یونٹ، بزنس سینٹر اور ارتھوپیڈک یونٹ موجود ہیں، لیکن تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے کے باعث یہاں آنے والے مریضوں کو سول یا جناح اسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔ اسپتال میں میڈیکو لیگل شعبہ اور پوسٹ مارٹم کی سہولت بھی میسر نہیں۔
اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عتیق قریشی نے بتایا کہ اسپتال میں ماہانہ ایک لاکھ مریض مختلف او پی ڈی میں آتے ہیں اور گائنی سمیت دیگر امراض کے مکمل علاج کی سہولت موجود ہے، مگر مریضوں کے لحاظ سے بجٹ ناکافی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں اسپتال کے دو آپریشن تھیٹرز، جو گزشتہ پانچ سال سے بند تھے، اپنی مدد آپ کے تحت فعال کر دیے گئے ہیں۔
لیتھوٹریسی مشین سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ مشین 15 سال قبل خریدی گئی تھی، لیکن اسے چلانے کے لیے عملہ تعینات نہ ہونے کی وجہ سے یہ بغیر استعمال کے ناکارہ ہوگئی۔ تاہم، اسپتال میں لیپروسکوپی مشین کے ذریعے پتے کی سرجری شروع کر دی گئی ہے۔
اسپتال میں ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹراما سینٹر کے لیے 2009 میں عمارت تو بنائی گئی، لیکن عملہ اور بجٹ مختص نہ ہونے کے باعث اسے فعال نہیں کیا جا سکا، اور اب اس عمارت میں نرسنگ اسکول سمیت دیگر تعلیمی ادارے قائم کر دیے گئے ہیں۔
اسپتال میں آنکھوں کی او پی ڈی سمیت تمام شعبوں کی او پی ڈی باقاعدگی سے ہوتی ہے، جبکہ ڈائیلاسز، بلڈ بینک، فزیو تھراپی اور لیبارٹری سمیت دیگر سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ یہاں جنرل اور ارتھوپیڈک سرجری بھی ہوتی ہے، تاہم ای این ٹی اور ارتھوپیڈک اسپیشلسٹ کی کمی ہے جبکہ فیکو مشین بھی دستیاب نہیں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ گورنمنٹ استعمال کی اسپتال میں لیاقت آباد سمیت دیگر او پی ڈی کیا جا کے لیے
پڑھیں:
کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے، آغا رفیق
کراچی (جنگ نیوز) سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان جسٹس آغا رفیق احمد خان نے کہا ہے کہ کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف کسی بھی دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے۔
اپنی کتاب ”عدلیہ میں میرے 44 سال“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ججوں کو انصاف کے طالب لوگوں کی داد رسی کرنی چاہیے۔
تقریب سے خطاب میں منیر اے ملک نے کہا کہ آغا رفیق نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کی کہانی لکھی ہے لہٰذا لوگوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
معروف معاشی ماہر جہانگیر صدیقی نے کہا کہ آغا صاحب سے پرانی رفاقت ہے، جب پاکستان میں ہوتا ہوں تو ہر ہفتے ملتے ہیں، ان کے گھر دسترخوان لگتا تھا، وہ نیک اور پر خلوص آدمی ہیں، کسی کا کام ہو تو ان کے لئے نکل کھڑے ہوتے تھے، یہ بہت ہی اعلیٰ ظرف کی بات ہے۔ مجھے یہ چیز میری والدہ نے سکھائی تھی کہتی تھی کوئی آپ کے پاس آئے اس کا کام کریں، آغا رفیق ہر ممکن کام کرنے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کام اللہ نے کرنا ہے آپ جہاں تک وسیلہ بن سکتے ہیں بن جائیں، یہی خوبی آغا صاحب میں تھی۔
1972 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کا ڈائریکٹر بنا تھا۔
کراچی میں تقریب رونمائی سے میاں محمد سومرو، معین الدین حیدر، غوث علی شاہ، اقبال حمید الرحمان، منیر اے ملک، آغا سراج درانی اور محمود شام نے بھی خطاب کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ میں وزیر داخلہ تھا تو مشرف نے پوچھا کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو پبلش کیا جائے یا نہیں، اس پر کمیٹی بنائی گئی اور ہم نے تجویز دی کہ دو چیپٹرز کے علاوہ رپورٹ شائع کی جائے۔
معین الدین حیدر نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف رپورٹ شائع نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ فوج کے خلاف ہے، میں نے کہا کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔
سابق وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ جو لوگ ایگزیکٹیو پوزیشن میں ہوتے ہیں انہیں مشورے خوش کرنے کےلیے نہیں دینے چاہئیں بلکہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے بڑی غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری سندھ میں بڑی سروس رہی ہے۔ بینظیر جب شاہنواز کو تدفین کےلیے لائیں تھیں تو میں وہیں تھا۔ شاید میں یہ بیان نہ دیتا مگر زرداری صاحب نے یہ بیان کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ زرداری کےلیے پنجاب سے پولیس منگوائی گئی، ان کی زبان کاٹی گئی اور ایک اور مقدمہ درج ہوا۔
منظور مغل نے بتایا کہ اگر زرداری صاحب کو مار دیا گیا تو بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ سیف الرحمان پیپلز پارٹی والوں کو زرداری سے نہیں ملنے دے رہے تھے۔ پی پی والے میرے پاس آئے، میں نے سیف الرحمان سے بات کی تو وہ بولے کہ جنرل صاحب بزدل نہ بنیں، مشکل سے موقع دیا ہے۔ میں نے نواز شریف سے کہا کہ کورٹ کا آرڈر ہے، ایسا نہ کریں۔ رات تین بجے چیف سیکریٹری کو بلا کر زرداری کو لانڈھی جیل واپس بھجوایا۔
رانا مقبول کو کہا کہ دیر ہو گئی ہے، زرداری کو واپس بھیج دیں، اور انہیں عام قیدی نہ سمجھا جائے۔ یہ واقعہ میں نے پہلے کبھی کسی کو نہیں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب بینظیر کی شہادت پر زرداری سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ میرے محسن ہیں، انہوں نے میری جان بچائی ہے۔ مگر آج زرداری صاحب ہمیں پوچھتے بھی نہیں۔
سابق قائم مقام صدر و نگران وزیراعظم محمد میاں سومرونے آغا رفیق احمد کو اصولوں پر قائم اور شفیق شخصیت قرار دیا۔
عبداللہ حسین ہارون نے انہیں سندھ اور پاکستان کے لیے اثاثہ قرار دیا۔
غوث علی شاہ نے کہا کہ آغا رفیق نہ صرف بہادر جج تھے بلکہ نبھانے والے انسان بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ججز میں بہادری کم دیکھی جاتی ہے، آغا صاحب کسی سے ڈرنے والوں میں نہیں تھے۔
جسٹس (ر) آغا رفیق احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ ''عبداللہ ہارون اور غوث علی شاہ دونوں کی موجودگی میرے لیے اعزاز ہے۔
سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ ''آغا رفیق کے سامنے پیش ہونا بند کر دیا تھا، ان میں کبھی غرور نہیں آیا۔ انہوں نے کتاب میں چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کا احوال بھی لکھا ہے، سب کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔
ایڈووکیٹ غلام حسین شاہ نے کہا کہ آغا رفیق نے کبھی اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا، سیاسی اور سماجی حقائق بہت دلیری سے لکھے ہیں۔
سینئر صحافی محمود شام نے خطاب میں کہا کہ ''ججوں کی موجودگی میں میں ایک ملزم ہوں۔ گیارہ سال تک ایک مقدمہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت چلتا رہا، جج نے کہا کہ میرے دائرہ اختیار میں نہیں۔ ایف آئی اے چاہے تو مقدمہ دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔