دوسری جنگ عظیم کے بم کی دریافت سے پیرس میں ٹرین سروس متاثر
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
جمعہ کے روز جنگ عظیم دوئم کے دوران نہ پھٹنے والے بم کی دریافت نے پیرس کے ہلچل سے بھرے گارے ڈو نورڈ، دنیا کے تیسرے مصروف ترین اسٹیشن جانے اور آنے والی ٹرین سروس کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس صورتحال نے مسافر ریل سمیت یورو اسٹار سروسز سمیت قومی اور بین الاقوامی ٹرین سروس کو بری طرح متاثر کیا ہے، یورو اسٹار کمپنی نے یوروسٹار نے گارے ڈو نورڈ جانے اور آنے والی تمام ٹرینوں کو منسوخ کرتے ہوئے مسافروں کو اپنے سفر کو از سر نو ترتیب دینے کا مشورہ دیا ہے۔
نیٹ ورک کی ٹرین لائنوں میں سے ایک، ایچ لائن نے پیغام رسانی پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بم گارے ڈو نورڈ سے 2.
پیرس پولیس نے بتایا کہ بم صبح 3:30 بجے شمالی پیرس کے نواحی علاقے سینٹ ڈینس میں تعمیراتی کام کے دوران دریافت ہوا تھا، وزیر ٹرانسپورٹ فلپ تبروٹ نے توقع ظاہر کی کہ یہ خلل کم از کم پورا دن جاری رہے گا۔
پیرس کے سیاحتی دفتر کے مطابق، تقریباً 220 ملین مسافر ہر سال شمالی فرانس، لندن، بیلجیئم، نیدرلینڈز اور جرمنی کے مقامات کے لیے سفر کی خاطر پیرس میں واقع یورپ کے اس مصروف ترین ٹرین اسٹیشن گارے ڈو نورڈ سے گزرتے ہیں۔
پیرس میں ایک انٹرفیس ڈیزائنر کلیمینس فنڈارڈ نے کہا کہ اس کی صبح 6:20 بجے ایمسٹرڈیم جانے والی ٹرین 45 منٹ کی تاخیر کا شکار ہونے کے بعد منسوخ کردی گئی۔ ’میں نے وقتاً فوقتاً ان چیزوں کی خبریں سنی تھیں، ہم بدقسمت تھے۔‘
ایک اور مسافر، کسمان ابراہیمی نے کہا کہ اس نے گارے ڈو نورڈ سے جرمنی کے شہر کولون جانے والی ٹرین پکڑنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اب وہ متبادل راستہ تلاش کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پیرس ٹرین سروس جرمنی جنگ عظیم دوئم گارے ڈو نورڈ یورو اسٹارذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پیرس گارے ڈو نورڈ یورو اسٹار گارے ڈو نورڈ نے والی
پڑھیں:
سائنسدانوں کا ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ
سائنس دانوں نے ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو اس سے قبل کسی انسان نے نہیں دیکھا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق محققین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ریٹینا میں مخصوص خلیات متحرک کرکے نیلے اور سبز رنگ کا مشاہدہ کیا جسے سائنس دانوں نے ’اولو‘ کا نام دیا جب کہ کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ نئے رنگ کی موجودگی پر مزید بحث ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر اور سائنسی جریدے میں شائع اس تحقیق کے شریک مصنف نے پیش رفت کو ’قابل ذکر‘ قرار دیا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ نتائج کی بنیاد پر ممکنہ طور پر کلر بلائنڈنس پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔
نئے رنگ کی دریافت کے تجربے میں حصہ لینے والے 5 افراد میں شامل پروفیسر این جی نے کہا کہ ’اولو کسی بھی رنگ سے زیادہ بھرا ہوا ہے جسے آپ حقیقی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں‘۔
ٹیم کے تجربے کے دوران محققین نے ہر شرکا کی ایک آنکھ کی پتلی میں لیزر بیم چمکائی، اس مطالعے میں 5 افراد شامل تھے جن میں سے چار مرد اور ایک خاتون تھیں۔
تحقیقی مقالے کے مطابق شرکا نے نئے رنگ کو او زیڈ نامی ڈیوائس میں دیکھا جو شیشے، لیزر اور آپٹیکل ڈیوائسز پر مشتمل ہے، اس سے قبل اس آلے کو یو سی برکلے اور واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ڈیزائن کیا اور اس مطالعہ میں استعمال کے لیے اسے اپ ڈیٹ کیا گیا۔
ریٹینا آنکھ کے پیچھے ٹشو کی ایک ہلکی حساس پرت ہے جو بصری معلومات کو وصول اور پروسیس کرتی ہے، یہ روشنی کو برقی سگنل میں تبدیل کرتی ہے ، جو پھر بصری اعصاب کے ذریعے دماغ میں منتقل ہوتی ہے ، جس سے ہمیں دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
ریٹینا کون خلیات پر مشتمل ہوتا ہے، یہ خلیات رنگ کو سمجھنے کا کام کرتے ہیں، آنکھ میں 3 اقسام ایس ، ایل اور ایم کے کون خلیات ہوتے ہیں، اور ہر ایک بالترتیب نیلے ، سرخ اور سبز کے مختلف ویو لینتھ کے لیے حساس ہوتا ہے۔
تحقیقی مقالے کے مطابق نارمل ویژن میں کوئی بھی روشنی جو ایم کون سیل کو متحرک کرتی ہے اسے اس کے پڑوسی ایل اور / یا ایس کونز کو بھی متحرک کرنا چاہیے کیونکہ اس کا فنکشن ان کے ساتھ مل جاتا ہے۔
تاہم اس تحقیق میں بی بی سی نے اخبار کے حوالے سے بتایا کہ لیزر نے صرف ایم کونز کو متحرک کیا جو اصولی طور پر دماغ کو رنگین سگنل بھیجے گا جو قدرتی بصارت میں کبھی نہیں ہوتا، اس کا مطلب ہے ’اولو‘ کو حقیقی دنیا میں کسی شخص کی ننگی آنکھوں سے مخصوص محرک کی مدد کے بغیر نہیں دیکھا جاسکتا۔
تجربے کے دوران دیکھے گئے رنگ کی تصدیق کرنے کے لیے ہرفرد نے کنٹرول ایبل کلر ڈائل کو ایڈجسٹ کیا اور ’اولو‘ کا مشاہدہ کیا۔