الحادی فتنے اور ہماری ذمہ داریاں
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
آج کے سائنسی و تحقیقی دور میں انٹرنیٹ زندگی کالازمی حصہ بن چکا ہے۔ اب تو مصنوعی ذہانت نے اس میدان میں ایک نیا تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جہاں بے شمار تحقیقی کام ہو رہے ہیں اور شعور انسانی کو جلا مل رہی ہے، وہاں اس کے ذریعے الحاد اور لادینیت کی شورشیں بھی عروج پرہیں۔ اشکالات اور وساوس پیدا کرکے اسلام کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے اسلام بیزار کرنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے کئی’’ پلیٹ فارمز ‘‘الحادی افکار کو عام کرنے کے مکروہ دھندوں کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں جس میں ’’فیس بک‘‘ اور یوٹیوب کا اہم کردار ہے۔ فیس بک کا آغاز معاشرے میں ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے والوں کے انٹر نیٹ کے ذریعے آسان رابطوں کیلئے ہوا تھا تاکہ لوگ اپنے خاندان اور دوست احباب کے ساتھ اپنے ذاتی معاملات، تصاویر اور وڈیوز شیئر کرلیا کریں۔ لیکن معاشرے میں جس طرح کے لوگوں کے رجحانات، مقاصد اور نظریات ہوتے ہیں اسی طرح انہیں زیر استعمال لاتے ہیں۔ اسلام دشمنی کوئی نئی بات نہیں بلکہ روز اول سے لے کرآج تک مختلف ادوار میں نئے نئے انداز میں سر اٹھاتی رہی اور کچلی بھی جاتی رہی۔ دور حاضر میں ان مذموم مقاصد کیلئے سوشل میڈیا کو بھی اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ شاخسانہ ان ڈیسک و نادیدہ ہاتھوں کا ہے کہ جنہیں پاکستان کی ترقی و بقا ایک آنکھ بھاتی ہے اور نہ اسلام کا دنیا بھر کے معاشروں میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور پرچار راس آتا ہے۔ چونکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اچھی طرح اس زبان کو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس نظریاتی جنگ میں زیادہ تر اردو زبان میں اکاؤنٹس، پیجزاور گروپس تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ ان کی بنیاد نظریہ الحاد اور اسلام دشمنی ہوتی ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ اسلامی نام کی آئی ڈیز بنا کر عام لوگوں اور خصوصا مسلمانوں کو فرینڈ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں انہیں مختلف گروپس میں بلا اجازت ایڈ کرلیاجاتا ہے۔ یہ وہ گروپس ہوتے ہیں جو بد نیتی کی بنا پر بنائے جاتے ہیں اور ہمہ وقت اسلام کی مقدس تعلیمات کے خلاف بھیانک اور زہریلا پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد کو ہدف تنقید بنا کر ان پر جارحانہ حملے کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کواسلامی تعلیمات سے کنفیوز، متزلزل کر کے جذباتی کیا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں مسلمان نوجوان اسلامی غیرت و حمیت کے ساتھ ان کی بے ہودہ حرکات پر سیخ پا ہوکر سخت اور تلخ لہجے میں رد عمل ظاہر کرتے ہیں کبھی کبھار بات گالی گلوچ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ان پوسٹس کو یہ لوگ مختلف فورمز اور پیجز پر چسپاں کرتے ہیں۔ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ مذہبی جنونی مسلمان ہیں۔ دلچسب بات یہ ہے کہ جن کمنٹس میں علمی و فکری مواد ہو اور ان کی بیہودگی کا مکمل جواب ہو ان پوسٹس کو Delete کر دیتے ہیں جبکہ گالی گلوچ والے کمنٹس برقرار رکھ کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے گزارش ہے کہ یہ مکروہ دھندہ کرنے والے ساری پوسٹس ایک ناپاک ایجنڈے کے تحت لگاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ رد عمل میں اگر اہلیت ہو تو مدلل جوابات دے کر ان کی پھیلائی ہوئی الجھنوں کا قلع قمع کریں ورنہ گالیاں لکھنے کی بجائے نظر انداز کرتے ہوئے بلاک کرتے جائیں تاکہ آئندہ وہ پوسٹس نظر سے بھی نہ گزریں۔ ان سے انتقام کا یہ بہترین طریقہ ہے کیونکہ جب ان کی پوسٹس پر کوئی کمنٹس نہیں کرے گا تو یہ پوسٹس خود بخود زیرو ہو جائیں گی۔اگر ان ملحدین کے اعتراضات علمی و فکری ہوتے اور نیک نیتی کے ساتھ تلاش حق مقصود ہوتا تو ان کے سوالوں کے جوابات دینا مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی تھی۔ ہردور میں مستشرقین اور ملحدین کی طرف سے اسلام پر اٹھنے والے اعتراضات اور سوالات کے جوابات اہل علم نے دیئے اور قیامت تک دیتے رہیں گے لیکن ان ملحدین کے طریقہ کار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد تخریب کاری اور اسلام دشمنی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ جو بھی علمی و فکری جواب ان کو دیا جاتا ہے اس کو فورا ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جواب دینا اہل علم کا کام ہے اورعام آدمی اس میں الجھ کر پریشان اور کنفیوز ہوگا۔یاد رہے کہ ان ملحدین کی قابل مذمت کاروائیوں کے ذریعے (نعوذ باللہ من ذلک)ذات باری تعا لیٰ کا انکارکیا جاتا ہے۔
ہمارے آقا ومولی محمدﷺ کی ذات اقدس پر بہتان تراشی کی جاتی ہے۔ اسلام کو دہشت گرد مذہب ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہوتی ہے۔ قرآن پاک کے بارے میں گھٹیا اور لغوزبان استعمال کی جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے جھروکوں سے مختلف واقعات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور وہ مسلمان جو اس دور پر فتن میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام کر رہے ہوں ان کی کردار کشی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے خلاف زہر اگل کر اسے جنونیوں کی آماج گاہ تک کہا جاتا ہے۔ یہ الحادی فورمز افواج پاکستان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کرتے ہیں۔ ان تمام مکروہ اور بھیانک دھندوں کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور مسلمانوں کے دلوں سے حب الٰہی، عشق رسول ﷺ اور حب الوطنی کو کھرچ کر نکالنا اور افواج پاکستان سے بد دل کرنا ہے۔ ایک منصوبے کے تحت اپنے آپ کو سابق مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ تحقیق کے بعد ہم مرتد ہوئے ہیں۔ یہ بھی فقط ان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک جال ہے۔ اسی طرح مختلف مسالک کی اہم شخصیات کی تصویریں چسپاں کر کے پیجز اور فورمز بناتے ہیں۔ دوسرے مسلک کے لوگوں کے بارے میں نفرت آمیز لٹریچرز اور پوسٹس لگا کر تکفیری مہم شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو آپس میں باہم دست و گریباں کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے اور ہماری سادگی اور غفلت پر ہنستے ہیں۔ کچھ لوگوں کوگمنام جعلی پیر کا روپ دے کر ان کی غیر اسلامی حرکات پر مشتمل وڈیوز تیار کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہیں تاکہ حقیقی تصوف اسلامی کو بد نام کیا جا سکے۔ ہم اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہیں موضوع بحث بنا کر اپنی توانائیاں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع میں صرف کرتے رہتے ہیں۔اس وقت اہل اسلام خصوصا علمائے ملت اسلامیہ کو بیدار مغز ہونے کی ضرورت ہے۔ایسے دگر گوں حالات میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے طوفان ٹل نہیں جایا کرتے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور پیش آمدہ مسائل سے نبرد آزما ہونا ان کی منصبی ذمہ داری ہے۔ جس طرح امام غزالی نے اپنے دور کے فتنہ الحاد کو ’’تحافۃ الفلاسفہ‘‘ لکھ کر دفن کیا تھا۔ آج پھر اسی نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ آج کا فتنہ الحاد پہلے سے بھی خطرناک اور نقصان دہ ہے کیونکہ اس دور کے الحادیوں کے پاس ایسی سائنس اور سوشل میڈیا نہ تھا کہ اپنے نظریات کو پھیلا سکیں جیسا کہ آج پھیلایا جارہا ہے۔ البتہ یہ خبر قابل ستائش ہے کہ پاکستانی حکام بالا کی کوششوں سے ان الحادیوں کی خاصی ویب سائٹس اکاؤنٹس ختم کیے جاچکے ہیں ۔ لیکن پھر بھی معاشرے میں ہر سطح پر اس فتنے کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کرتے ہیں کے ذریعے لوگوں کو کے خلاف ہیں اور جاتی ہے جاتا ہے کرنے کی کیا جا
پڑھیں:
فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ ذمہ داریاں
قرآن و سنت کی نگاہ میں
مہمان تجزیہ نگار: پروفیسرڈاکٹر زاہد علی زاہدی (ڈین فکیلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ کراچی)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 20 اپریل 2024
ابتدائیہ
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً﴾
ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟ جب کہ کمزور مرد، خواتین اور بچے پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں:
یا رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی بنا دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے۔(سورہ نساء: 75)
ماہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷تاریخ سے تاحال فلسطین کے باشندوں خصوصاً اہالیانِ غزہ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔
نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے ہزار وںسے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے،
جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں،
لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔ ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
خلاصہ گفتگو، اہم نکات:
اسرائیلی مظالم تو اس کے وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے
غزہ اس صدی کا ایک انسانی المیہ بنتا رہا ہے
گزشتہ چوہتر برس میں زمینوں پہ قبضے کے بعد اب نسل کشی شروع کردی گئی ہے
صابرہ اور شتیلہ سے لے کر آج غزہ تک صیہونی مظالم کی تاریخ دنیا کے سامنے عیاں ہے
پاکستان کے علما کو اب اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ یاد آیا ہے
لیکن کیا صیہونی مظالم کے خلاف کسی فتویٰ کی بھی ضرورت ہے
سورہ نسا کی آیة 75 واضح طور پہ مسلمانوں پہ ظلم کرنے والوں سے قتال کا حکم دے رہی ہے
مسلمان علما کو تو مولا علیؑ کا خطبہ جہاد سُنانے کی ضرورت ہے
نہج البلاغہ کا خطبہ جہاد مسلمانوں کی حمایت و حفاظت کے لئے جہاد کا حکم بیان کرتا ہے
سیکورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ عضو معطل بن چکی ہے
مسلمان حکمران بھی اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مسلمان حکمران اور عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہوچکی تھیں
رہبرِ معظم نے مقاومت اور مزاحمت کو ایک نظریے کانام دیا ہے
مکتبِ مقاومت و مزاحمت اپنی نظریے سے ہٹ نہیں سکتے
جب کہ "مکتبِ مفاہمت" آج بھی اسرائیل اور امریکہ کے خوف میں مُبتلا ہے
قرآنِ مجید تو قتال و جنگ کا حکم دیتا ہے، حماس نے اسی پہ عمل کیا۔
حق کے لئے جنگ کرنے کا انحصار تعداد اور وسائل پر نہیں ہوسکتا
آبرو مندانہ اورعزت کی زندگی گزارنے کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے